شام میں قتل عام:کچھ غور طلب پہلو
شام کے شہر مشرقی غوطہ میں جاری بہیمانہ بمباری تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے، شام کی سرکاری افواج نہتے شہریوں پر بدترین مظالم ڈھا رہی ہیں، خواتین اور معصوم بچوں کو زندہ جلائے جانے کا عمل جا ری ہےاور سچ یہ ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ تو کجا مسلم دنیا بھی ان مظالم کو رکوانے کے لیے موثر آواز نہیں اٹھا سکی۔گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی تھی لیکن مسلسل اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور تا دم تحریر اقوام متحدہ نے اس خلاف ورزی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔اگر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی ایک بے بس شخص کی دہائی سے زیادہ اثر نہ رکھتی ہوں تو پھر ایسے ادارے پر کیونکر اعتماد بحال رہ سکتا ہے؟ ظلم و بربریت کا یہ سلسلہ صرف شام تک ہی محدود نہیں کہ اسے کسی ملک کا داخلی مسئلہ یا صرف مسلم ممالک کا ایشوقرار دیا جائے بلکہ اس سے قبل برما میں بھی بدھسٹوں کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور اب یہ سلسلہ دراز ہو کر سری لنکا تک بھی پہنچ چکا ہے،جہاں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور ان کے کاروباری مراکز کو نذرآتش کیا جا رہا ہے۔موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔اسباب و عوامل تلاش کیے جائیں اور ان کو دور کر کے مسئلے کا پرامن حل نکالا جائے۔راقم کے خیال میں اس وقت ہمارے کرنے کے کام دو ہیں:۔
ہنگامی بنیادوں پر کرنے کا پہلا کام تو یہ ہے کہ کسی طرح جاری مظالم کو روکا جائے ۔ روس اور شامی حکومت کو جنگ بندی پر آمادہ یا مجبور کیا جائے ، زخمیوں اور ضرورتمندوں کے علاج معالجے اور انہیں خوراک بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ دیگر نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ان مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے،مسلم کمیونٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں منظم انداز سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور اقوام متحدہ و عالمی طاقتوں سے مسئلے کا غیرجانبدارانہ حل کا مطالبہ کریں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نو مارچ بروز جمعہ کو شام میں مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کی کال دی ہے لیکن یہ معاملہ کسی ایک گروہ، سیاسی جماعت یا مسلک کا نہیں ہے،جب تک تمام طبقات مل کر آواز بلند نہیں کریں گے احتجاج موثر نہیں ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ سنجیدہ اہل علم،دانشور ، علمائے دین اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام میں یہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ آج کی دنیا میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے کیا کیا طریقے ہیں اور پرامن احتجاج سے کس طرح اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی گروہ یا طبقہ جب یہ دیکھے کہ ارباب اختیار کے فیصلوں سے اس کے مفادات یا حقوق پر زد پڑتی ہے تو ذرائع ابلاغ یا جرگہ کے ذریعے فورا ً اپنی آواز متعلقہ حلقوں تک پہنچائی جائے تاکہ حق تلفی کا ازالہ ہوسکے۔اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر فوری ردعمل نہ دیا گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ لاوا پکتا رہے گا اور کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بنے گا۔اگر ایسے میں کوئی چھوٹا سا مسلح گروہ بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف میدان عمل میں آتا ہے تو اسے بڑی عوامی تائید مل سکتی ہے۔اس لیے کوشش کی جائے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو نظر انداز نہ کیا جائے اور مقتدر حلقوں تک اپنی بات پہنچائی جائے۔اس حوالے سے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔جمہوری معاشروں میں ارباب اختیار بھی عوام میں سے ہی ہوتے ہیں اس لیے انہیں بھی عوامی مسائل پر توجہ دینی چاہیےاور چھوٹے چھوٹے مسائل کو ساتھ ساتھ ہی حل کرتے رہنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ یہی معمولی مسائل عفریت کی شکل اختیار کر لیں اور ان سے نمٹنا مشکل ہو جائے۔
اگر شام کے تناظر میں بات کی جائے تو وہاں عوامی بغاوت کے نتیجے میں ہی حکومت نے باغیوں اور ان کے سہولت کاروں کو کچلنے کا فیصلہ کیا ہے،اس طرح وہ بغاوت جو ظلم سے نجات ،یا مذہبی و سماجی آزادی کے حصول کے لیے کی گئی تھی، کئی بڑے مظالم کا ذریعہ بن گئی ۔غور کرنا چاہیے کہ اس بغاوت سے فائدہ ہوا یا نقصان؟یقیناً نقصان ہوا۔اگر یہ بغاوت دوسروں کی دیکھا دیکھی نہ کی جاتی اور ملک کی اکثریت اس بغاوت کے لیے تیار ہوتی تو نتائج مختلف ہوتے۔اس سے جہاں عوام کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بلا ضرورت شدیدہ بغاوت کس حد تک نقصان دہ ہو سکتی ہے، وہیں حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے کہ اپنے اقتدار کے گھمنڈ میں اس حد تک نہ جائیں کہ مظلوم عوام کی داد رسی کی بجائے انہیں مزیدظلم کی چکی میں ڈال دیں۔ اپنے ہی مسلم عوام میں سے بغاوت پر اتر آنے والوں کے خلاف غیرمسلموں سے مدد حاصل کرنے لگیں۔ اس حوالے سے معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی لکھتے ہیں
“مسلمان باغیوں کے خلاف غیرمسلموں سے مدد لینا جائز نہیں۔مسلمانوں کی آپس کی لڑائی میں غیرمسلموں کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے جن کا ہم التزام کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ موقع پا کر وہ مسلمانوں پر اپنی بھڑاس نکال دیں۔انتہاپسند جماعتوں کی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی رائے درست نہیں ہے۔ میں حکمرانوں کے خلاف مادی قوت کے ساتھ بغاوت پر متنبہ کرتا ہوں اور واضح کرتا ہوں کہ جن روایات کی بنیاد پر یہ بغاوت پر اکساتے ہیں، انہیں سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی ہے کہ یہ مطلق اور عمومی ہیں۔حالانکہ دوسری روایات سے ان کی تخصیص و تقیید ہوتی ہے جو کہ حکمرانوں کے ظلم پر صبر کا درس دیتی ہیں تاکہ امت کی وحدت پارہ پارہ نہ ہو،ملک کا امن برقرار رہے اور ناجائز خون نہ بہے۔قدیم و جدید تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ حکمرانوں کے خلاف مسلح تنظیموں کی قسمت میں کامیابی نہیں ہے اور سوائے معدودے چند کے یہ مسلح باغی تنظیمیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں اور اس کے نتیجے میں امت کو سوائے آزمائش،بے چینی،بدامنی اور بے سود خون کی ارزانی کے کچھ نہیں ملا”۔
فیس بک پر تبصرے