آئن اسٹائن اور ذکاوت و ذہانت باہم مترادف الفاظ ہیں اور اس دور کے آئن اسٹائن اسٹیفن ہاکنگ تھے۔ اسٹیفن ہاکنگ ہم میں نہیں رہے۔ بہترین دماغوں میں سے ایک آج زماں و مکاں کی قید سے آزاد خلا کی وسعتوں میں کہیں محوِ پرواز ہے ، وہی وسعتیں جن کی تلاش میں اس نے مہ و سال بتائے اور خو د کو امر کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تبھی باقی رہ سکتے ہیں جب ہم کائنات کی وسعتوں سے اپنے لیے کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسا جہاں ہم سانس لے سکیں، بدلتی بلکہ ہمارے ہی رویوں سےبگڑتی ہوئی دنیا سے دور کوئی جگہ جو انسان کے لیے روزنِ بقاء ہو۔ ایک ذہین انسان اور اعلیٰ سائنس دان ہونے کے ناطے وہ سائنسی علوم میں اپنا ایک مقام رکھتے تھےاور بلا شک وہ زمانہِ حال میں سائنسی دنیا کے امام ہیں۔ تاہم وہ سائنسی ترقی کے منفی اثرات پر ایک خاص رائے رکھتے تھے جو ایک طرف مبنی بر حقیقت ہے تو دوسری طرف تنبیہ بھی۔
وہ محتاط اور پر امن سائنسی ترقی کے حامی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی اسی اہم مقصد کے لیے وقف کیے رکھی۔ ایٹمی ہتھیار ہوں، جنیاتی وائرسز ہوں یا پھر ماحولیاتی تغیرات، جو درحقیقت سائنسی ترقی کی ہی رہینِ منت ہیں ، جن پر قابو پانا نہایت اہم ہے وگرنہ انسان سمیت یہ روئے زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کے لیے خطرناک حد تک جان لیوا ہو سکتے ہیں۔
جدید سائنسی نقطہِ نظر کے بانی گلیلیو سے ٹھیک 300 سال بعد اور آئن اسٹائن کی وفات سے تیرہ برس پہلے جنم لینے والے اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942 کو برطانیہ کے علاقے آکسفورڈ میں پیدا ہوئے۔ 11 سال کی عمر میں انہوں نے یونیورسٹی کالج آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔ان کے والد کی خواہش تھی کہ اسٹیفن شعبہِ طب منتخب کریں جبکہ انہیں علمِ ریاضی میں دلچسپی تھی، کالج میں شعبہ ریاضی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے طبیعات کو بطور مضمون منتخب کیا اورمحض تین سال میں قدرتی سائنسز(Natural Sciences) میں امتیازی سند حاصل کی۔1962 میں انہوں نے کیمبرج کے ادارہ اطلاقی ریاضیات و نظریاتی طبیعات (Department of Applied Mathematics and Theoretical Physics)کے شعبہ کونیات (Cosmology) میں تحقیقی کام کا آغاز کیا۔1965 میں انہوں نے “وسعت پذیر کائنات کی خصوصیات(Properties of Expanding Universe)” کے نام سے مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔1966 میں ان کو “زماں و مکاں کی ساخت اور اکائیت(Singularities and the geometry of Space-Time) ” کے عنوان سے لکھے گئے مضمون پر آدم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1968 میں وہ انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرونومی سے منسلک ہوئے ، 1973 میں دوبارہ کیمبرج میں شعبہ ریاضی و طبیعات سے وابستہ ہوگئے جہاں ان کی پہلی درسی کتاب “زماں و مکاں کی وسیع ساختیات (The Large Scale Structure of Space-Time)” اشاعت پذیر ہوئی ۔ اس کام میں جارج ایلس ان کے معاون محقق تھے۔ 1974 میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تحقیقی مسند پر فائز ہوئے۔ بعد ازاں کیمبرج کے ادارہ اطلاقی ریاضیات و نظریاتی طبیعات میں ثقالتی طبیعات (Gravitational Physics) کے پروفیسر منتخب ہوئے۔ 1979 میں ریاضی کے لیوکیسیئن پروفیسر کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ یہ عہدہ 1663 میں جامعہ کیمبرج کی جانب سے رکن پارلیمان ریورنڈ ہنری لیوکس کی وصیت کے مطابق ان کی جائیداد کی رقم سے قایم کیا گیا تھا۔اس کے پہلے سربراہ آئزک بارو تھے، 1669 میں آئزک نیوٹن اس عہدے پر متمکن ہوئے، جبکہ اسٹیفن ہاکنگ اس عہدے پر فائز ہونے والی تیسری شخصیت تھے۔ اپنی وفات تک وہ اسی ادارے میں ایوری(Avery) منتظم ِ تحقیق کے عہدے پر فائز رہے۔
1988 میں شائع ہونے والی ان کی شہرہ آفاق کتاب “وقت کی مختصر تاریخ (A Brief History of Time) ” سائنسی دنیا میں انقلابی حیثیت کی حامل ہے۔انہوں نے نظریہ اضافت اور ذراتی طبیعاتی اصولوں کی آمیختگی کا تصور پیش کیا۔ ان کی سب سے اہم دریافت بلیک ہول شعاعیں ہیں، جن کو بعد ازاں ہاکنگ شعاعوں(Hawking Radiations)کا نام دیا گیا۔ اسی دریافت نے ثقالت(Gravitation)، ذراتی میکانیات(Quantum Mechanics) اور نظریہ حرارتی حرکیات (Theory of Thermodynamics)کو ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا اور یہی دریافت یک کائناتی تصور کے بجائے کثیر الکائناتی تصور کاپیش خیمہ ہوئی ۔ ان کے مطابق کائنات بننے اور ختم ہونے کا سلسلہ لا متناہی ہے، اس کی کوئی شروعات ہیں، نہ ہی انجام۔ انہوں نے نظریاتی طبیعات، ریاضیات ، فلکیات اور کونیات جیسے سائنسی عنوانات پر بیسیوں مقالے لکھے، کئی اداروں میں لیکچر دیے، مختلف موضوعات پر مضامین لکھے اور ساری زندگی علمی و سائنسی میدان میں متحرک رہے ۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ ترین امریکی سول اعزاز سمیت بیشتر ایوارڈز اور کئی اعزازی اسناد سے نوازا گیا۔ان کی خود نوشت پر مبنی فلم “A Brief History of Everything” سمیت ان پر متعد فلمیں اور ڈاکو مینٹریز بھی بنائی گئی ہیں۔
وہ محض ایک سائنس دان نہیں بلکہ ایک سماجی وسیاسی کارکن کے طور پر بھی اپنی پہچان رکھتے تھے۔ انہیں برطانوی سیاست میں گہری دلچسپی تھی اور برطانوی لیبر پارٹی کے ہمنوا تھے۔ بریگزٹ کو وہ برطانوی تعلیم و ترقی میں رکاوٹ کا باعث سمجھتے تھے۔ عراق پر حملے کو جنگی جرم قرار دیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ماحول دشمن اقدامات پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر دنیا کو آگ کا گھر بنا دیں گے۔ وہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتے تھے،سائنسی ایجادات سے منسلک تبدیلیوں پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی یقین دہانی ضروری ہے کہ یہ تبدیلیاں مثبت سمت میں جا رہی ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کے متعلق باخبر فیصلے کرنے کے لیے ہر ایک کو سائنس کے متعلق بنیادی معلومات ہونا ضروری ہے۔انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا، جس پر اسرائیل نے ان کے اس عمل کو شرمناک قرار دیتے ہوئے غصے کا اظہار کیا ۔
غرض صحت و تعلیم جیسے ملکی معاملات ہوں یا بین الاقوامی تعلقات، جنگیں ہوں یا ماحولیاتی تغیرات ، اسٹیفن ہاکنگ ہر معاملے پر اپنی بے باک رائے رکھتے نظر آتے تھے، اب یہ ہم پر ہے کہ ایسی عبقری شخصیات کی آراء سے کس قدر فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
محض 22 برس کی عمر میں ایک جان لیوا مہلک بیماری کی تشخیص کے باوجود اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ زندگی مختصر ہونے کی وجہ سے اس سے لطف اندوز ہونا شروع کیا۔ اعصاب کو بتدریج کمزور کر دینے والی خطرناک بیماری کے ساتھ قریب نصف صدی انہوں نے ہمارےدرمیان گزاری۔ اس دوران وہ محض زندہ نہیں رہے، بلکہ انہوں نے زندہ رہنے کا حق ادا کیا ہے۔ اپنی خود نوشت میں انہوں نے بھر پور طریقے سے اپنی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ زندہ دلی، معصومانہ مسکراہٹ، چٹکلے اور مزاح ان کی زندگی کا خاصہ تھے۔ ان کی سائنسی خدمات جہاں انسان کو وسیع و عریض کائنات کے سر بستہ رازوں سے شناسائی فراہم کرتے ہیں وہیں ان کا طرزِ زندگی نا امید انسانوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ مکمل جاں فشانی سے اپنے مقصد کے لیے کام کرنا اور کسی کمزوری کو آڑ نہ بننے دینا ان کی زندگی کا عمل رہا ہے۔ وہ بلاشبہ ایک عظیم انسان، ذہین سائنس دان اور قابلِ تقلید ہیر وتھے۔یہ صحیح ہے کہ ہم گلیلیو کے دور میں نہیں تھے، ہم نے آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن کا دور نہیں دیکھا، لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اسٹیفن ہاکنگ کا دور دیکھا ہے۔ ایک تکوینی امر کے تحت سائنس ہر دور میں ایک عالی دماغ انسان کے وجود سے ہم آغوش رہی ہے، اسٹیفن ہاکنگ تیرہ برس کے تھے جب آئن اسٹائین نے جہانِ فانی کو الوداع کہا، خدا کرے آئندہ نسل اس شرف سے محروم نہ رہے!
فیس بک پر تبصرے