وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر
آج دوپہر جب میں اور عبد اللہ گول مارکیٹ سے پراٹھے کھا رہے تھے کہ کاغذ چننے والا ایک پختون بچہ ہمارے پاس سے گزرا اور چند ہی لمحوں میں اس نے آس پاس کے بکھرے ہوئے سبھی خالی ڈبوں اور کاغذوں کو چن کر اپنے تھیلے میں بھر لیا ۔ عین اسی لمحے عبداللہ نے کہا کہ اس نے ناشتہ دیر سے کیا تھا وہ پورا رول پراٹھہ ختم نہیں کرسکتا۔ وہ آدھا پراٹھا چھوڑ رہا ہے ۔ تو میں نے بے ساختہ ہی اس پختون بچے کوآواز دی اور اپنے پاس بلا لیا۔ پہلے پہل تو وہ جھجکا مگر پھر چلا آیا۔
جب وہ بچہ پراٹھہ کھا رہا تھا تو میں نے حسب ِعادت کے اس کا انٹرویو لینا شرو ع کردیا۔
اس کا نام نمروز خان تھا اور اس لمحے اسے سب زیادہ ڈراپنے اس تھیلے کا تھا جسے وہ کار پارکنگ میں رکھ کر ہمارے پاس آ بیٹھا تھا۔ نمروز خان نے بتایا کہ اس کاباپ دو سال پہلے فوت ہوگیا ہے ۔ وہ لوگ مہمند ایجنسی کے رہنے والے ہیں اور ڈیڑھ سال سے اب وہ لوگ گولڑہ شریف میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ۔ وہ روزانہ کے تین سے چار سو روپے تک کما لیا کرتا ہے اور اس کا بڑا بھائی ریت والی چھلیاں بیچتا ہے ۔وہ ہرروز گھر نہیں جاتا کبھی کبھار دوستو کے ساتھ یہیں اسلام آباد میں ہی کسی مارکیٹ میں سو جاتا ہے۔ میرے پوچھنے پہ کہ وہ سکول کیوں نہیں پڑھتا تو اس نے بتایا کہ کچھ سال پہلے تک وہ دونوں بھائی پڑھتے تھے پھر جب طالبان آئے اور لڑائی شروع ہوگئی تو اس دوران اس کا باپ زخمی ہوگیا اور کچھ عرصے بعد وفات پاگیا ۔ طالبان کے کہنے پر ان کے گاؤں والوں نے ان کے گھرانے کو یہ کہہ کر گاؤں سے نکال دیا کہ ان کی والدہ پولیو ورکر رہ چکی ہے سو اگر وہ لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو گاؤں چھوڑ جائیں۔
اس کے بعد وہ اسلام آباد آگئے اور پھر انہوں نے سکول نہیں پڑھا ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ پولیو کے قطرے پلانے پر کوئی کس طرح ایک بیوہ خاتون کو گاؤں سے چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت نکال سکتا ہے ۔ ابھی جب ٹی وی پہ مہمند ایجنسی کی خبر سنی کہ پولیو ٹیم پہ فائرنگ 2 رضاکار شہید3 اغوا ہوگئے۔ تو اندازہ ہوا کہ نمروز خان جھوٹ تو نہیں کہہ رہا تھا۔
محترم قارئین ، بلاگ کہانی پاکستان میں تشدد سے متاثرہ افراد کی کہانیوں کا بلاگ سلسلہ ہے جس میں آپ بھی ایسی مختصر کہانیاں بھیج سکتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے ہوئے تشدد کی ہولناکی بیان کرکے دیگر لوگوں کو متشدد روئیوں سے دور رہنے کا پرامن پیغام دیتی ہوں۔
فیس بک پر تبصرے