حالات خود لیڈر پیدا کرتے ہیں

1,492

طویل اور اعصاب شکن کشمکش کے بعد بلآخر  سینٹ الیکشن کے انعقاد نے سیاسی جدلیات میں وہ توازن قائم کر لیا جو سسٹم کی ہموار روانی کے لیے  لازمی تھا۔ول ڈیورانٹ نے کہا تھا کہ سیاست زندگی نہیں بلکہ عکس زندگی ہے،سینٹ انتخابات کے دوران پروان پانے والی وہ نامطلوب سرگرمیاں جو ہمارے رومان پرور سیاستدانوں کے دِلوں کو گھائل کر گئیں،دراصل ہماری حیات اجتماعی کے وہ تلخ حقائق تھے جو  ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔یہی کچھ پہلے بھی ہوتا رہا لیکن اس میں نئی بات یہ ہے کہ پہلی بار اس قسم کی جوڑ توڑ کے خلاف کھلی مزاحمت سامنے آئی جس نے جمود کی دبیز تہہ تلے دبی سیاسی قباحتوں کو طشت از بام کر کے اصلاح کے امکانات کو روشن کر دیا۔سیاست کے اسی خیر وشر پہ عوامی بحث و مباحثہ اب عظیم اکثریت کے اذہان کو کھرے کھوٹے کا فرق سمجھا کے انہیں ردّ و قبول کا فیصلہ کرنے میں مدد دے گا۔اسی سیاسی جدلیات کو ہیگل نے تھیسز،انٹی تھیسز اور سینتھیسیز  کا نام دیا جو ہمہ وقت سماجی حیات اور عقل انسانی کو ارتقاء پذیر رکھتی ہیں۔معاشرے میں آمریت کے خاتمہ کی خواہش کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھنے سے اس عہد کے سیاسی تصورات میں غیر معمولی تبدیلوں کی گونج ہمیں فریب منزل دے رہی تھی۔اس لیے شکست آرزو نے اچکزئی اور حاصل بزنجو جیسے  سیاست دانوں کے سیاسی شعور پہ مایوسی کے سائے ہویدا کر دیے لیکن سیاست دان صبر سے کام لیں منزل ابھی قریب نہیں آئی،جمہوریت ان سے ضبط نفس کا تقاضہ کرتی ہے،بیشک یہاں ایسی جوہری تبدیلیوں کے امکانات ابھی کچھ دور ہیں جو طاقت کے مراکز سے اپنے کھوئے ہوئے اختیارات واپس لے سکیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت پسند سیاستدان اگر سنیٹ میں اپنا چیئرمین منتخب کرانے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو طاقت کے مراکز کی تسخیر ہونے کی بجائے جمہوری اشرافیہ اور مقتدرہ کے درمیان تلخیاں بڑھ جاتیں۔یہ بے وقت اور بیکار بغاوت کی صورت اختیار کر کے دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے انعقاد کو ناممکن بنا دیتی،سینٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ امیدوار کی کامیابی نے ایک تو تیزی سے ڈھلوان کی طرف لڑھکتے سیاسی عمل کو استحکام دیکر ٹکراؤ کے امکانات کو کم کر دیا۔دوسرے اس پیشقدمی نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی راہ میں حائل تحریک انصاف کی اخلاقی حیثیت کو کمزور اور موقعہ پرستی کی سیاست کرنے والی کہنہ مشق پیپلز پارٹی کے مستقبل کو مخدوش کر دیا۔مقتدرہ نے ایک گندے کام کے لیے  آصف زراداری کا انتخاب کر کے دراصل پیپلزپارٹی کی رہی سہی قوت کو بھی تحلیل کر دیا۔جمہوریت پسند قوتیں  شکر کریں کہ انہیں جھوٹ  نے پچھاڑا اس لیے وہ زندہ و جاوید رہیں گے، اگر خدا ناخواستہ انہیں سچائی کے ہاتھوں شکست ہوتی تو وہ ہمیشہ کیلئے مٹ جاتے۔عوام کے حق حاکمیت کی جنگ لڑنے والے سیاست دان رونے دھونے کی بجائے اس ہزیمت کو اپنی قوت بنا سکتے ہیں۔البتہ ان قباحتوں پہ وسیع عوامی بحث و مباحثہ ،شعوری ارتقاء کا زینہ بنے گا کیونکہ رائے عامہ ہی افراط و تفریط کو ختم کرنے کیلئے کافی اور کسی قانون سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ دیکر بلآخر  نواز شریف کو پارٹی صدرات سے ہٹانے کے علاوہ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے سرانجام دیے گئے ان کے تمام اقدامات کو تحلیل کر کے ضمنی انتخابات سمیت ایوان بالا کے الیکشن میں نواز لیگ کے امیداروں کو پارٹی ٹکٹ سے محروم کر کے قومی سیاست کی رخ گردانی کی کوشش کی جس نے شریفوں کو جھکانے کی بجائے عدالتی مقاصد پہ تنقید کرنے والوں کے لہجہ کی تلخی بڑھا دی ۔اگرچہ سیاسی عمل کی ہموار روانی کو ممکن بنانے کی خاطر مقبول سیاسی جماعت کی ایگزیکٹو کونسل نے شہباز شریف کو بلامقابلہ مسلم لیگ کا صدر منتخب کر کے تکنیکی مشکلات پہ قابو پا لیا لیکن شہباز شریف کی صدارت میں نواز لیگ اور مقتدرہ کے درمیان جاری رسہ کشی کے اختتام کی امید رکھنے والوں کو مایوسی ہو گی۔یہ بجا کہ شہبار شریف کے اندر مہم جوئی کا داعیہ پایا نہیں جاتا  اور وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے والے سیاستدان کے طور پہ پہچانے جاتے ہیں تاہم  وہ متنازعہ امور کو سلجھانے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مقتدرہ جب بھی سوداکرے گی نواز لیگ کے ساتھ کرے گی کیونکہ ان کی جیب میں دینے کیلئے سکّے موجود ہیں۔پیپلز پارٹی صرف جان کی امان کی شرط پہ استعمال ہوتی رہے گی۔بلاشبہ سیاسی معاملات نہایت پیچیدہ ،ہمہ جہت اور ہر وقت تغیر پذیر رہتے ہیں اس لئے سیاسی جدلیات کا حسابی نتیجہ نکالنا ممکن نہیں۔ خوشگوار امیدوں کے باوجود بھی کوئی قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چہرے بدلنے سے تقسیم اختیارات کے موجودہ بندوبست میں تغیر و تبدّل کی جنگ ٹل جائے گی۔

اس جنگ کو نواز لیگ نہیں لڑے گی تو کوئی اور لڑے گا کیونکہ شکوہ حکمرانی کی بنیادی ساخت میں ایسی “خرابیاں” موجود ہیں،جنہوں نے لیاقت علی خان سے لیکر حسین شہید سہروردی،فیروز خان نون ،ذولفقار علی بھٹو،محمد خان جونیجو، ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، یو سف رضا گیلانی اور نواز شریف سمیت ہر منتخب وزیراعظم کو اپنے پیشرو کے انجام سے سبق سیکھ کے مقتدرہ کی ہتھیلی پہ رینگنے پہ اکتفا نہیں کرنے دیا اور لامحالہ  انہیں مزاحمت کی راہ دیکھائی۔ یوں سیاستدانوں اور مقتدرہ کے درمیان ہر بار جبر کی یہ شادی ناکام ہوتی رہی،ہر  وزراء اعظم کسی نہ کسی مرحلہ پہ اپنے آئینی اختیارات کے استعمال پر اصرار کر کے کبھی کمزور اور کبھی طاقتور مزاحمت کی طرف بڑھتا رہا،اسی شعوری پیش قدمی نے دھیرے دھیرے سویلین حکمرانوں کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے علاوہ رائے عامہ میں سویلین بالادستی کے احساس کی خاصی وسیع جگہ بنا لی،جس کا اظہار نواز شریف کو وزارت سے ہٹانے کے بعد پُرجوش عوامی حمایت کی صورت میں سامنے آیا۔یہ بھی ابدی حقیقت ہے کہ ان ستر سالوں کی تدریجی مزاحمت کے دوران حالات نے فطری تقاضوں کے عین مطابق خود لیڈر پیدا کئے،فیلڈمارشل ایوب خان کی آمریت کے خلاف مزاحمت نے ذوالفقار علی بھٹو کو قومی سطح کا لیڈر بنا دیا،جس کی تعلّی نے عام لوگوں کو حق حاکیمت کا شعور عطا کرنے کے علاوہ ایک منجمد معاشرے میں سیاسی کشمکش برپا کر کے فعالیت کی راہ بنائی،جسکی لہروں کا مد و جزر ابھی تک تھما نہیں،بلاشبہ طاقت کے مراکز کے خلاف عوامی مزاحمت کو فیض،فراز اور حبیب جالب کی شاعری نے زیادہ رومانوی اور پرکشش بنا دیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریکوں کی صورت میں  ابھرنے والی کشمکش نے  بے نظیر بھٹو کو لیڈر بنایا، 1988 کے الیکشن میں وہ ایکبار پھر طلوع جمہوریت کی شب گزیدہ سحر کی نقیب بن کے ابھریں،بے نظیر نے مقتدرہ سے سمجھوتے کرنے کے باوجود  بعض معاملات میں اپنی ساورن حیثیت کو بروکار لانے کی کوشش کر کے مزاحمت کی راہ اپنائی تو بی بی کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی پروردہ دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے جارحانہ سیاسی مہم چلا کر انہیں دیوار سے لگا دیا لیکن اس انٹی بھٹو مزاحمتی جدوجہد کی کوکھ سے سرمایادار گھرانے کے نرم خُو نوازشریف  قومی سطح کے لیڈر بنکر سامنے آئے، جسے حالات کے جبر نے مقتدرہ کے خلاف مزاحمت پہ صف آراء کر دیا،گزشتہ بتیس سالوں میں اسٹبلشمنٹ نے مختلف طریقوں سے تین بار نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کے بلوچستان،خیبر پختون خوا اور سندھ کے بعد اس جدلیات کو پنجاب کے شہروں میں لا کھڑا کیا،اس وقت طاقت کے مراکز کے خلاف جدوجہد کرنے والی چاروں صوبوں کی سیاسی قوتیں نوازشریف کے پیچھے آ کھڑی ہیں اور عوام کے حق حاکمیت کی خاطر پنجاب کے گنجان آباد علاقوں میں لڑی جانے والی یہ سیاسی جنگ کسی فیصلہ کن مرحلہ کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔ اس جاں گسل کشمکش کو منطقی انجام تک پہچانے کی خاطر وقت و حالات نے مریم نواز کی صورت میں ایک تازہ دم لیڈر پیدا کر دی،جو بہترین انداز میں عوامی مقاصد کی توضیح ثابت ہو گی ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...