نوازشریف کی واجد ضیاء پرتنقید

عدالت کی اندرونی صورت حال

1,009

عدالت میں معمول سے بڑھ کر ہجوم ہے۔ جج کی آمد میں ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ وزراء اور مشیر چاروں اطراف موجود ہیں۔ نواز شریف عدالت کی بائیں طرف پہلی نشست پر جبکہ واجد ضیاء عدالت کی دائیں جانب والی پہلی نشست پر براجمان ہیں۔ اگر نوازشریف کےساتھ پارٹی رہنما موجود رہتے ہیں تو واجد ضیاء کے ساتھ خاص سیکیورٹی اہلکار حصار بنائے موجود رہتے ہیں۔

واجد ضیاء جب کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں تو بھی سیکیورٹی اہلکار اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی ان کے قریب نہ پھٹک سکے۔ سماعت میں وقفے کی صورت میں ان کو سیکیورٹی حصار میں جوڈیشل کمپلیکس کے اندر ہی ایک کمرے میں لے جایا جاتا ہے۔ ہرپیشی پر لائے گئے تین اسٹیل کے صندوق اور دو بریف کیسز ان کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتے ہیں جن میں جے آئی ٹی کی دس والیمز پر مشتمل رپورٹ رکھی جاتی ہے۔

نواز شریف نے اپنے وکلاء سے ضروری مشاورت کے بعد اپنی نشست کے قریب انتظار میں کھڑے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو شروع کردی۔ یہ ان کا ہر سماعت پر معمول ہے۔

مریم نواز ڈیجیٹل تسبیح پہنے سب گفتگو بہت غور سے سن رہی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی جواب دینے میں اپنے والد کی مدد بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کے ادب میں  زیادہ وقت خاموش بیٹھی رہتی ہیں۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ان کے سر پر پوری تندہی سے کھڑی رہتی ہیں۔ دونوں آپس میں سرگوشی بھی کرتی نظر آتی ہیں۔سابق وزیر اطلاعات پرویزرشید نواز شریف کی بائیں جانب بیٹھے صحافیوں کے پوچھے گئے کئی سوالات کا خود ہی جواب دیتے نظر آتے ہیں۔

دوران گفتگو غصے میں پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کی نشست کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے نواز شریف کہتے ہیں کہ پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں واجد ضیاء ایک جے آئی ٹی میں تھے یہ وہاں [پرویز مشرف کے] چک شہزاد فارم کے سامنے گھنٹوں بیٹھے رہتے اور کوئی ملنے تک نہ آتا۔ “بطور وزیر اعظم میں ان کی جے آئی ٹی کے سامنے بیان دینے خود گیا۔”

تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف تین ریفرنسسز میں مرکزی ملزم ہیں۔ ان سے بات چیت کر کے اندازہ ہوا کہ وہ صحافیوں سے سوالات سے زیادہ مشوروں اور تجزیوں کی توقع رکھتے ہیں۔

گفتگو کے دوران جب تندو تیز سوالات کا سلسلہ بڑھ گیا تو نواز شریف نے مشورہ دیا کہ کچھ باتیں آپ لوگ بھی بتا دیں۔ میں نے ادب سے کہا کہ آپ سے کچھ سننا چاہتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم بولے سوالات کرنے اور عدالتی کاروائی لکھنے سے ہٹ کر بھی قومی کردار ادا کریں۔ ملک کے لیے اپنے حصے کا کام ضرور کریں۔ اس تاکید کے بعد انھوں نے کہا آپ لوگ ایک بہت اہم شعبے سے ہیں اور اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ایک بار پھر ادب سے سابق وزیر اعظم کے گوش گزار کیا ہم آپ کی جماعت میں شامل ہونے سے دو رہے تاہم صحافی ہوتے ہوئے اپنا کردار ضرور ادا کررہے ہیں۔ میرے جواب پر انھوں نے فوری وضاحت دی ‘میں آپ کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کا نہیں کہہ رہا ہوں۔ صرف آپ کو ایک خاص کردار ادا کرنے کا کہتا ہوں جو ملک کی خاطر آپ کی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔’

میں نے عرض کی کہ جو سازش کرنے والوں کا نام بتائیں ہم رپورٹ نہ کریں تو پھر شکوہ جائز ہے۔ جب چئیرمین نیب آپ نے خود چنا پھر نیب سے شکوہ کیسا؟ نواز شریف کچھ سوچ میں پڑ گئے تو پرویز رشید نے ہنستے ہوئے جواب دیا وہ پرویز مشرف بھی ہم نے خود ہی لگایا تھا لیکن جو ہمارے ساتھ ہوا آپ کے سامنے ہے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا وہ چوہدری نثار نے نہیں لگایا تھا؟ پرویز رشید نے ہاں میں سر ہلا دیا اور پھر بولے یہ بھی درست ہے۔ نواز شریف خود کو عدالت میں موجود دیکھ کرباربار اپنے کیے ہوئے منصوبوں کا نام لیتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں ایک دفعہ بھی نوازشریف نے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے متعلق کچھ ذکرتک نہیں کیا۔ البتہ انھوں نے عدالت سے بیگم کلثوم نواز کی لندن جاکر عیادت کرنے کی درخواست ضرورکررکھی ہے جومنظور نہ ہو سکی۔ اب نواز شریف لندن نہیں جا سکتے اور اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے ملک کے اندر قائم ہسپتالوں پر خود تین دفعہ وزیر اعظم رہ کر بھی ان کا اعتماد بحال نہ ہوسکا۔ موٹر وے، سی پیک، لوڈشیڈنگ، پنجاب میں ترقی، کرکٹ کی بحالی اور بہتر معیشیت کچھ ایسے کارنامے ہیں جن کو ہر سماعت پر نواز شریف کسی بھی سوال جواب کی نشست سے پہلے دہراتے نظر آتے ہیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...