رمضان المبارک اور ہمارے رویے

1,070

رمضان المبارک کے آتے ہی ہمارے ملک میں بہت کچھ مختلف ہو نا شروع ہو جا تا ہے ،کچھ مثبت اور بہت کچھ منفی۔مثبت یہ کہ لوگوں میں دینی تعلیمات کی طرف ایک رجحان پیدا ہو تا ہے جس سے ایک روحانی ماحول پیدا ہو تا ہے ۔بند گانِ خدا مساجد میں دن رات حاضری دیتے  ہیں،قر آ ن مجید کی تلاوت کر تے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کر تے ہیں ۔گھروں میں بھی ایک مختلف ما حول دکھائی دیتا ہے ۔بچے بوڑھے مر دو عورت کسی نہ کسی صورت میں ذکر الہی میں مصروف ہوتے ہیں ۔گھروں میں مل بیٹھ کر سحر و افطار کا ما حول ہماری مشرقی روایت کی ایک روشن مثال ہے جو صدیو ں سے قائم اور جاری ہے ۔مسلمان باقی مہینوں کی نسبت اس ماہ میں زیادہ غریبوں ،مفلسوں اور بیواؤں پہ خرچ کر تے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دیگر اسلامی ممالک میں یہی پا کیزہ اور پر سکون ما حول دکھائی دیتا ہے۔
رمضان المبارک میں ایک ایسا طبقہ بھی متحرک نظر آ تا ہے جو سارا سال نقب لگا کر رمضان کا انتظار کر رہا ہو تا ہے۔ رمضان المبارک میں غیر معمو لی مہنگائی کا سا منا کر نا پڑتا ہے ۔ اس ماہ مبارک میں بہت سے غریب گھرانوں کو فروٹ کے بغیر روزہ افطار کر تے دیکھا ہے کہ غریب مسلم اور غیر مسلم اس بات کا انتظار کر تے ہیں کہ رمضان المبارک گزر جا ئے تاکہ وہ فروٹ اور گوشت خرید سکیں۔اس مہنگائی کے پیچھے ہمیں یقین ہے کہ ہنود و یہود کی سازش کار فر ما نہیں ہے ۔حکومتِ وقت رمضان بازار کا اہتمام کر  تی ہے اور عوام کو اربوں کی سبسڈی دیتی ہے ۔مجھے اس طریقہ کار کا زیادہ علم تو نہیں ہے لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہو تا ہے حکومتِ وقت ایسا طریقہ کار تشکیل کیوں نہیں دیتی جس کے مطابق مجموعی طور پر مہنگائی کنٹرول میں آ جائے ۔رمضان بازار میں فروٹ ،سبزیاں اور دیگر اشیا پہ سبسڈی کے ساتھ ملک میں مہنگائی کا خاتمہ ہو اور لو گو ں کو معیاری اشیا کم قیمت پہ مہیاہوں۔اس میں ذرِہ بھی شک نہیں ہے کہ یہ کلی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے ۔اس میں جو زیادتی ہوتی ہے اس کا خاتمہ حکومت وقت ہی کرسکتی ہے ۔
ایک ادنیٰ سی گزارش عوام کی خدمت میں بھی ہے ۔رمضان المبارک صبر و بر داشت کا مہینہ ہے یہ ہمیں استغنا کی تعلیم دیتاہے،لالچ،حرص اورطمع سے ہمارے دل کو پاک کر تا ہے ۔روزے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے تن سے زیادہ من پہ توجہ کریں، اپنے ظاہر سے زیادہ باطن کو سنواریں ۔روزہ تقویٰ و شکر اور تزکیہ نفس کا بنیادی ذریعہ ہے یہ سب کچھ وہ تعلیم و مقصد ہے جسے ہم میں سے ہر ایک سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود، ایسا کیوں ہے کہ گیارہ مہینے ہم اتنا فروٹ اور دیگر اشیا خوردنی نہیں کھاتے جتنا ہم رمضان المبارک میں کھا جا تے ہیں ۔گیارہ مہینے کا فروٹ ایک طرف او ررمضان المبارک کا فروٹ اس سے زیادہ ہے ۔ہمیں اس نکتہ کی طرف توجہ کر نی ہے جو رو حانیت ہمیں رمضان المبارک میں حاصل کر نی چا ہیئے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم یہ مہینہ دیگر مہینوں سے زیادہ دنیا داری کی نذرکر دیتے ہوں ۔اگر ہم اس مہینے کو بھوک، پیاس اور اپنی خواہشات کو کنٹرول کر نے کا مہینہ بنا لیں تو یقیناًمہنگائی کر نے وا لا مافیا بھی کنٹرول میں آ جائے گا۔۔ ایسی صورتِ حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے جس کا میں نے ذکر کر دیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تما م سال گاہے بگاہے روزہ رکھتے تھے ۔پیر کے دن پابندی سے روزہ رکھتے ۔جمعرات  اورجمعہ کا بھی روزہ رکھ لیتے ۔ایام بیض(چاند کی تیرہ ،چو دہ، پندرہ تاریخ)کے روزے بھی رکھتے۔شعبان کے روزے رکھتے ۔یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے۔شوال کے چھ روزے اور  ایسے بہت سے روزے رکھتے تھے ۔

اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی اس عادت کو اختیار کر لیں تو شاید روزہ عادت میں آ جانے کے باعث ہم وہ نہ کریں جو ہم رمضان میں کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ روزہ ہماری عادت اور روٹین میں شامل ہوجائے تو ہمارا رویہ رمضان کے روزوں سے متعلق بھی مختلف ہو جائے گا ۔خصوصی اہتمام کے نام پہ دستر خوان کو مختلف کھانوں اور ڈشوں سے بھر نے کے رواج میں بھی کمی آ ئے گی۔مہنگائی کو کنٹرول کر نے کا ایک طریقہ قناعت و سادگی بھی ہے۔۔ ڈیمانڈ میں کمی آئے گی تو مہنگائی بھی کنٹرول ہوجائے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...