نواز شریف پھراٹک قلعہ پہنچ گئے

1,169

سابق وزیر اعظم کے بعد آج ان کی بیٹی مریم نواز نے عدالت کو بتانا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس کیوں بنایا گیا؟ مسلسل چار گھنٹے کھڑے رہنے کو یقینی بنانے کے لیے پاؤں سے جوتے اتار کر ننگے فرش پر کھڑی ہوگئیں، دائیں بائیں پارٹی کی خواتین ورکرزلیکن یہ مناظر نواز شریف دیکھ کراپنے موبائل فون پر مصروف ہو جاتے جیسے اپنے آپ سے ہم کلام ہوکر خود کو اندر سے مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ جیسے زبردستی اعصاب کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں۔ اپنی بیٹی کےلیے ان کی پریشانی اورمحبت ان کے چہرے پر صاف عیاں تھی۔ مریم  کے طویل جذباتی بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ ان پر ریفرنس کی وجہ  کوئی اور نہیں بلکہ ان  کے والد نواز شریف ہیں۔ نوازشریف نے اپنی بیٹی کے موقف کو سراہا۔ مریم نے اپنا قصور بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہیں۔

دوران گفتگو نوازشریف نے کہا ان  کا  اٹک قلعہ میں جو اسٹینڈ تھا آج بھی وہی ہے۔ “میرا اسٹینڈ یکسوئی کے ساتھ ایک ہی رہا ہے۔” نواز شریف کا کہنا تھا  کہ وزیر اعظم کے منصب سے  نکالے جانے کی وجوہات بھی ایک جیسی ہیں۔ پھر کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں سے پوچھا  دونوں  مقدمات میں کوئی فرق بتائیں ؟کیا  یہ دونوں کیسز ایسے تھے کہ اتنی سخت سزا ہوتی؟سابق وزیر اعظم نے کہا قوم  نے طیارہ ہائی جیکنگ کیس کو مانا نہ ہی موجودہ کیس کو وہ تسلیم کرتے ہیں۔ “میں گناہگار آدمی ہوں لیکن انشا اللہ جیت میرے بیانیے کی  ہی ہو گی۔ اس کے علاوہ دوسری منزل ہی کوئی نہیں ۔” سابق وزیر اعظم  نے کہا انہیں وقت ہی کتنا ملا؟2014کے دھرنوں کے بعد 2016 تک کام کیا اور اس کے بعد پھرپانامہ شروع ہو گیا۔ ہمیں کام کے لیے صرف ڈیڑھ  سےدو سال ملے۔ پورے پانچ سال ملتے تو اور کام کرتے۔ نوازشریف اٹک قلعہ سے ڈیل کرکے باہر چلےگئے تھے لیکن اب جب ایسا سوال ان سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں، بات قومی امور پر ہوسکتی ہے ،البتہ ذاتی فائدے کی بات نہیں ہوگی۔

بظاہر ان کے چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف ابھی بھی ان کے بیانیے سے دورنظر آتے ہیں۔ نوازشریف چیف جسٹس ثاقب نثار کا پورا نام لیناتک گوارا نہیں کرتے جبکہ  شہباز شریف چیف جسٹس کو قابل احترام قراردیتے ہیں۔ نوازشریف نیب کو قانونی نوٹس بھیجتے ہیں اور اسے فوجی آمرپرویز مشرف کی باقیات قراردیتے ہیں جبکہ  شہبازشریف تمام ترتحفظات کے باوجود نیب کو ایک آئینی ادارہ قراردیتے ہیں اورمشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ قانون کے آگے سرجھکانا ہوگا۔  نوازشریف سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کو پارٹی بدر کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ شہباز شریف انہیں  اپنا دیرینہ دوست قراردیتے ہیں جو گھپ اندھیری راتوں کو ہونے والی خاص ملاقاتوں میں ان کا ساتھ دیتے  رہے ہیں۔ نوازشریف سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کی خبر دیتے ہیں جبکہ شہبازشریف سب اچھا کی رپورٹ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

میں گناہگار آدمی ہوں لیکن انشا اللہ جیت میرے بیانیے کی  ہی ہو گی۔ اس کے علاوہ دوسری منزل ہی کوئی نہیں۔

نواز شریف

نوازشریف نے صحافیوں کوبرطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ کی ایک خبر  اپنے موبائل فون سے سرچ کرکےپڑھ کرسنانا شروع کردی۔ کمرہ عدالت میں جیمرز ہوتے ہوئے جب انٹرنیٹ کی رفتار متاثر ہوئی تو دائیں طرف مڑتے ہوئے بولے مریم انٹر نیٹ ڈیوائس آپ کے پاس ہے؟ پھر کہا میرے موبائل پر بھی ظاہر ہوگیا ہے۔ خود پڑھنا شروع کر دیا اور کہا پاکستان کے بڑے انگریزی اخبار ڈان کو بند کیا جا رہا ہے تو کیایہ نتخابات سے قبل دھاندلی نہیں ؟ ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ جج محمد بشیر کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے۔ اب تجسس بڑھ چکا تھا جب میں نے پورا آرٹیکل پڑھا تو اس میں ماضی میں فوج کی مدد سے آگے آنے والے نواز شریف کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ  ممبئی حملوں سے متعلق ان کے بیان اور ملٹری کے ساتھ اعصابی جنگ، تلخ معلومات کو افشاں کرنے کی دھمکیوں کے جائزے کے علاوہ  یہ سوال  بھی اٹھایا گیاتھا  کہ کہیں یہ ڈیل کے لیے تو سب نہیں کیا جارہا ہے؟

نواز شریف سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے ان سے یہ پوچھیں گے کہ اس بار کوئی نیا معاہدہ تو نہیں ہوجائے گا؟ اوران کے نئے بیانیے میں اس کی کتنی گنجائش موجود ہے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...