کراچی کو نظر لگ جاتی ہے

678

کراچی سے ایک شخص نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا, اپنی جماعت بنائی،اس کا نام مہاجر قومی موومنٹ رکھا۔سالوں میں نہیں مہینوں میں، مہینوں میں نہیں دنوں میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی اور یہ جماعت ہر شخص کی زبان کا وظیفہ اور ہر دل کی دھڑکن بن گئی۔دیکھتے دیکھتے لاشیں گر نے لگیں ،کراچی بھتہ خوری،چوری،ڈکیتی،عقوبت خانوں اور ٹارگٹ کلنگ کی آماجگاہ بن گیا۔ صحافی،سیاستدان ،تاجر ،ڈاکٹرز، وکلا،علما ءاورحکماء قتل ہونے لگے ۔اللہ تعالی نے عوامی اور مالی طاقت مہاجر قومی موومنٹ کی گود میں ڈال دی۔ایسے مواقع زندگی میں سب کو عطا نہیں ہو تے ۔ایسے لیڈر کسی جماعت کو نہیں ملتے اور کسی لیڈر کو ایسے جاں نثار بھی نہیں ملتے جیسے الطاف حسین کو ملے۔کراچی کا ہر جوان سلجھاؤ اور سکھاؤ کا پیکر بن سکتا تھا لیکن کیا ہوا،نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھما دی گئیں اور انہیں نہایت نا مناسب ناموں سے نواز دیا گیا۔اپنی وفاداری اور غیر مشروط تعلق کا ثبوت دوسروں کی جان لینے کی شکل میں مانگا گیا۔
اگر الطاف حسین چا ہتےتو  کراچی دنیا کا خوبصورت ترین شہر بن سکتا تھا ۔وہاں کے رہنے والے تاجروں کو ڈرانے، ان سے بھتہ وصول کر نے کی بجائے،انہیں امن وحفاظت کا ماحول مہیا کیا جاتا۔ وہ بنگلہ دیش، یورپ،متحدہ عرب امارات ،ملائشیا،انڈو نیشیا نہ جا تے بلکہ اپنا سر مایہ پاکستان میں ہی لگاتے۔اگر ملوں،فیکٹریوں کے ما لکان کو اغوا کرکے کئی کئی روز انہیں عقوبت خانو ں میں بند کر کے اذیت ناک سلوک نہ کیا جاتا تو کراچی خوبصورت شہر بن سکتا تھا۔ لیکن الطاف حسین سندھ اور خصوصا ًکراچی والوں کی محبت کو سمیٹ نہ سکے ۔کراچی کو محبت لوٹانے کی بجائے انڈیا سے ساز باز کر کے کراچی کو ہی دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا۔ عا مر لیاقت حسین شہرت اور دولت کو سہار نہ سکے۔ اللہ تعالی نے انہیں عوام میں عزت اور شہرت سے نوازا ۔بد قسمتی سے، انہو ں نے ریٹنگ(Rating)کو ہی اپنی منزل خیال کر تے ہوئے سب کچھ داؤ پہ لگا دیا۔Ratingکا مسئلہ تو ایسا ہے جیسے دلا بھٹی نے اپنے استاد سے پو چھا انسان مشہور کیسے ہو تا ہے ؟انہوں نے کہا ایک طریقہ محنت ہے جس میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے،دوسرا طریقہ ایسی حرکت ہے جس سے انسان مشہور ہو جا تا ہے ۔دلا بھٹی نے ایک عدد پتھر اپنے استاد کے ماتھے پہ دے مارا جس کے بعد گاؤں میں وہ مشہورہوگیا۔عامر لیاقت حسین اپنی شہرت کو اپنی طاقت بنا کر معاشرے میں تعلیم اور صحت کے میدان میں خدمات سرانجام دے سکتے  تھے۔وہ مذہب کے میدان میں رہتے ہوئے علم و تحقیق کو آگے بڑھا سکتے تھے ۔اگر وہ سیاست کرنا چا ہتے تھے تو اس میں بھی نیک نامی کما سکتے تھے۔افسوس ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو سنبھال نہیں سکے۔ اس طرح کراچی والوں کو ایک بارپھر نظر لگ گئی۔جس شخص کو کراچی والوں نے محبت اور پیار سے نوازا بلکہ پورے پاکستان نے جس کو عزت دی۔ اس نے خود اپنی عزت کی ہنڈیا بیچ چراہے  پھوڑ ڈالی۔

بے نظیر بھٹو کا قصہ مختلف ہے۔وہ پاکستان کی لیڈر تھیں۔ان کا تعلق سندھ سے تھا ۔بد قسمتی دیکھیے پاکستان خصوصاً سندھ اور پھر خصوصاً سندھ کی بیٹی سال ہاسال کی جلا وطنی کاٹ کر واپس لوٹی۔وہ اسباقِ عبرت، تجر بات اور مضبوط ارادوں کے ساتھ واپس لوٹیں کہ وہ ملک کی خدمت کریں گی لیکن انہیں قتل کردیا گیا۔اگر وہ زندہ ہوتیں،پیپلز پارٹی کی صورت حال یہ نہ ہوتی جو اب ہو چکی ہے۔سندھ اور سندھ کے شہر کراچی کی ابتری کا یہ عالم نہ ہوتا جو اب ہو چکا ہے۔ وہ ضرور ماضی سے بہتر سیاست و حکومت کر تیں اور بین الاقوامی شہر کراچی کو سنوارنے اور کرپشن کے راستوں کو کسی حد تک بند کر نے کی کوشش ضرور کر تیں مگروہ بھی رخصت ہو گئیں اور ایک بار پھر کراچی کو نظر لگ گئی۔
اگر 2018 کے الیکشن میں الطاف حسین کی باقیات اور پیپلزپارٹی کے علاوہ سندھ اور خصوصا ًکراچی کے لوگ کسی اور جماعت کو موقع دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ کراچی نظرِبد سے بچ جائے ورنہ اس بار تاریخ نہیں بدلی جاتی تو پھر کراچی میں تبدیلی مشکل ہی نہیں کسی حد تک ناممکن ہو جائے گی۔اس بار کراچی کونظر لگنے کی وجہ کوئی اور نہیں خود کراچی والے ہوں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...