نوازشریف کی جیل یاترا کب ہوگی؟

1,145

نوازشریف کے جیل جانے سے قبل اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ ٹرائل کس حد تک شفاف ہے اور ٹرائل کورٹ کس حد تک  آزاد ہے۔ اعلیٰ عدلیہ عام طور پر ایسا کچھ نہیں کرتی جس سے کسی کے شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہو۔ عام طور پر ججز ایسے ریمارکس سے بھی گریز کرتے ہیں جس سے کسی کا حق متاثر ہو اورماتحت عدلیہ کا جج دباؤ میں آکر فیصلہ کردے۔ جب پانامہ کیس سپریم کورٹ کے سامنےآیا تو سب سے زیادہ ریمارکس ہی رپورٹ ہوتے رہے، جس میں جواب دہندہ کو ہر طرح کے القابات سے بھی نوازا جاتارہا۔ حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ یہ مقدمہ تحقیق طلب ہے اور پولیس سروس کے افسر واجد ضیاء کی سربراہی میں ایک چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنادی گئی۔ سپریم کورٹ نے تحقیقاتی ٹیم سے 13 سوالات کے جوابات مانگے۔ تحقیقاتی ٹیم نے عدالت عظمیٰ سے دستاویزات حاصل کرکے ان کا جائزہ لیا اور رپورٹ لکھ دی۔ معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے تحقیقات کا خواب ادھورا ہی رہا۔ رپورٹ کا ایک مکمل  والیم ادھورے کا ادھورا ہی رہا۔ جے آئی ٹی نے  60 روز کے اندر جن اٹھارہ  افرادکے  بیانات ریکارڈ کیے ان میں سے 5 کو ملزم بنا دیا گیا اور باقی بچ جانے والوں کو گواہ تک نہیں بنایا گیا۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پراس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قراردے کر مقدمہ نیب کو بھیج دیا ۔ ساتھ ہی نیب کو چھ ماہ میں ریفرنس مکمل کرنے کا  حکم دے دیا گیا۔ نیب قوانین کے تحت کسی ریفرنس کو 30 دن کے اندر مکمل ہونا ہوتا ہے تاہم اگر کسی وجہ سے ٹرائل مکمل نہ ہوسکے تو پھر اس میں توسیع کردی جاتی ہے۔  اس مقدمے میں سرے سے نیب پر اعتماد ہی نہیں کیا گیا اور اسے ڈاک خانے کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ نیب نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں نوازشریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز احتساب عدالت میں دائرکردیے۔

نیب کو مقدمے میں متعلقہ قوانین اورمروجہ طریقے کے تحت انکوائری اور تفتیش نہیں کرنے دی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جے آئی ٹی کے بعد نیب بھی ان ریفرنسز میں کچھ ٹھوس شواہد ڈھونڈنے میں بری طرح ناکام رہا اور  براہ راست نوازشریف پر کوئی جرم ثابت نہیں  ہوسکا۔ البتہ اس عرصے میں نیب نے بغیر کچھ کیے ہرریفرنس میں ایک ضمنی ریفرنس دائر کرکے بغیر ثبوتوں کے ہی نوازشریف کو مرکزی ملزم قراردیتے ہوئے ان کے لیے جیل کی درخواست کی۔

تاہم نیب کو ٹھوس شواہد سے متعلق ناکامی پر اس وجہ سے بھی زیادہ ملال نہیں ہے کہ انہوں نے جو بھی کیا وہ عین عدالتی حکم کے مطابق تھا۔ یعنی اس ناکامی کا ذمہ دار احتساب کا ادارہ اپنے آپ کو نہیں سمجھ رہا ۔ نیب کے ذمہ دارافسران یہ بات بھی کہتے ہیں کہ وہ اس مقدمے میں کچھ کریں یا نہ کریں سزا تو پھر بھی ہوگی۔ یہ تاثر نظام کی ساکھ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ نیب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو نواز لیگ حکومت نے تیسری بار بھی 3 سال کے لیے توسیع کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ نیب کی عدالتوں میں ایک جج 3 سال کی مدت کے بعد تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون سے ریفرنس زیر سماعت ہیں اور کون سے نئے ریفرنس پر سماعت ہوسکتی ہے۔ لیکن قانون قاعدہ کو ایک طرف رکھتےہوئے جج محمد بشیر پریہ عنایتیں کیوں کی جارہی ہیں؟  کیا شریف خاندان کے خلاف مقدمات کو ان کے ذریعے فیصلہ لینا مقصود ہے؟ اگر یہ تاثرہے کہ نئے جج کے آنے سے ریفرنسز تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں تو پھر 3 سال کی مدت میں ایسی شق شامل کیوں نہیں کردی جاتی کہ اگر کوئی ریفرنس اہم نوعیت کا آگیا تو جج کوخودبخود توسیع مل جایا کرے گی۔ عدالتوں کے سامنے سب مقدمات برابر ہوتے ہیں۔ ملزمان میں کم اہم اور زیادہ اہم کی تمیز روا نہیں رکھی جاتی لیکن ان مقدمات میں ایسا سلوک کیوں برتا جارہا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو اس ٹرائل سے متعلق اٹھتے رہیں گے۔

احتساب عدالتوں کے ججز سابق وزرائے اعظم سمیت سابق صدر آصف علی زرداری کےخلاف بھی مقدمات سن چکے ہیں۔ کچھ مقدمات اب بھی زیر سماعت ہیں۔ کسی مقدمے میں اس طرح کی رفتار نظر نہیں آرہی ہے۔ پھریہ عنایتیں صرف ایک خاندان پرہی کیوں ہیں؟ اب ہر پیشی کے بعد نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ آج اتنی باروہ عدالت کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ عدالت کے سامنے اپنے بیان میں مریم نواز نے کہا جتنی بار ان کو عدالت میں پیش ہونا پڑا ،آج تک کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔ ملک کے 3 بار وزیر اعظم رہنے والے نوازشریف کو ہر سماعت پر آنا لازم ہے۔ وہ کچھ دیر کے لیے آتے ہیں اور پھر حاضری لگا کروہاں سے واپس چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ضابطے کی کاروائی کے بغیر کیا مقدمہ رک جائے گا؟ جب ملزم خود اپنا نمائندہ مقرر کرنے کو تیار ہے تو سیکورٹی کے اتنے غیر معمولی قسم کے انتظامات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ قومی خزانے پر روزانہ کروڑوں کا بوجھ کیوں ڈالاجارہا ہے؟ دوسری عدالتوں اور ملزمان کے کام کو متاثر کیوں کیا جاتا ہے؟ شریف خاندان کے مقدمات کو اس قدر ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟ دیگر مقدمات کو دیگر کہہ کرالتواء میں کیوں رکھا جاتا ہے؟

سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم کو سیکورٹی کے پیش نظر اس طرح کے مقدمات میں مستقل استثنیٰ دیا جاتا رہا ہے۔ اتفاق ہے کہ جج محمد بشیر ہی نے آصف علی زرداری کے مقدمات سنے اور کبھی اس طرح پیشیاں نہیں ہوئیں۔ عدالت نے آصف زرداری کے خلاف کرپشن کیسز میں بحث دوبارہ بھی کرائی اور پھر فیصلہ ہوا کہ ریکارڈ پر موجود دستاویزات دراصل فوٹو کاپیاں ہیں، لہٰذا بریت کی درخواست منظور کی جاتی ہے۔ اصل ریکارڈ نیب کے ہیڈ کوارٹر میں موجود تھا لیکن وہ تفتیشی افسران کو نہیں دیا جاسکا یا عدالت وہ ریکارڈ نہیں طلب کرواسکی۔ اس کے بعد زرداری صاحب کے مقدمات میں نیب کی 4 اپیلیں 2 سال سے ہائی کورٹس میں پڑی میٹھی نیند سورہی ہیں۔ نہ کوئی ازخود نہ کوئی مانیٹرنگ، کیا قانون کے بجائے انصاف کا نظام اندھا ہوگیا ہے؟

شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز میں چھ ماہ کی مدت مکمل ہوئی تو سپریم کورٹ نے نیب سے پوچھا کہ کیا ملزمان کی طرف سے کوئی تاخیری حربے تو استعمال نہیں کیے جارہے ہیں؟ نیب نے ملزمان کے حق میں گواہی دی اور کہا ان کا رویہ تعاون پر مبنی ہے۔ عدالت نے مزیددو ماہ کا وقت عنایت کردیا۔ تیسری بار عدالت نے صرف ایک ماہ کی توسیع دیتے ہوئے کہا ضرورت پڑی تو دوبارہ توسیع کے لیے آجانا۔ ایک ماہ کا وقت نیب کی طرف سے ہر ریفرنس کے لیے مقرر ہوتاہے اور پھر اگر ضرورت پڑتی ہے تو کسی کو سپریم کورٹ نہیں جانا پڑتا بلکہ ایک نظام پہلے سے ہی ایسا ہے کہ اس میں توسیع کردی جاتی ہے۔ لیکن اس مقدمے میں سپریم کورٹ کی اس قدر نگرانی ایک نئے قانونی نظام کو متعارف کرارہی ہے ،جو شاہد آئندہ مفید بھی ہو اور اس طرح مقدمات کے فیصلے بھی جلد ہوجایا کریں۔ یہ بات بھی طے ہے کہ سپریم کورٹ نےپرویز مشرف کے خلاف بھی سنگین غداری مقدمہ بنانے کا کہا تھا لیکن مانیٹرنگ نہ کرنے کی وجہ سے وہ مقدمہ منطقی انجام تک نہیں  پہنچ سکا۔ عدالتیں پرویز مشرف کی حاضری کو بھی یقینی نہیں بنا سکیں۔ یہ ناکامی نظام کے یک رخے کمزور ہونے کا پتا بھی دیتی ہے۔

جب سپریم کورٹ نے ایک ماہ کی توسیع دی تو ایک جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں تمام گواہان کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں کم ازکم اس کا فیصلہ تو کردیں۔ احتساب عدالت کے جج نے سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے دیے گئے ریمارکس کا ذکر کرتے ہوئے فوری طورپر نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے بیانات ریکارڈ کرنا شروع کردیے۔ وکیل صفائی خواجہ حارث نے تحریر ی درخواست بھی دی کہ ملزمان کےبیانات تینوں ریفرنسزمیں ایک ساتھ ریکارڈ کیے  جائیں  اور تب کیے جائیں جب پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضاء اور دیگر 2 ریفرنسز کے تفتیشی افسران اپنا بیان قلمبند کروادیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ملزمان کے بیانات قلمبند ہونے سے دفاع ظاہر ہوجائے گا اور پھر دیگر ریفرنسز میں واجد ضیاء اپنے موقف کو بہتر بنا کر پیش کرسکتے ہیں۔  لیکن احتساب عدالت کے جج نے وہ درخواست مسترد کردی۔ اب عدالت نے لندن فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں فریقین کو حتمی دلائل کی تاریخ بھی دے دی ہے۔ وکیل صفائی خواجہ حارث عدالت میں موجود نہیں تھے اور ان کے معاون وکیل بیرسٹر ملک علی نے عدالت سے استدعا کی کہ اس سے پہلے یہ معاملہ طے ہوچکا تھا کہ تینوں ریفرنسز میں ایک ساتھ فیصلہ آئے گا لہذا حتمی دلائل سےمتعلق خواجہ حارث کی موجودگی بات کی جائے۔ عدالت نے پہلے ایک دن کا نوٹس دیا لیکن جب نیب نے تیاری کے لیے وقت مانگا تو عدالت نے نوٹس کی مدت مزید 5 دن کے لیے بڑھا دی۔ جج محمد بشیر نے کہا تینوں ریفرنسز میں فیصلہ اس صورت میں کرنے کو کہا تھا کہ اگر دفاع میں کچھ پیش کیا جاتا۔ خواجہ حارث کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا کہ دفاع ظاہر ہونے کی صورت میں ان کو نقصان ہوگا۔ بظاہر یہ نقصان ہوچکا ہے۔ اب حتمی دلائل کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس میں عدالت کسی بھی وقت فیصلہ سناسکتی ہے۔  فیصلہ کیا ہوگا؟ نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق نواز شریف اس معاملے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ نواز شریف کے لیے دونوں راستےبریت یا جیل سیاسی اہمیت کے حامل ہیں۔

اس صورت حال میں  منصوبہ سازوں نے ان دورستوں سے ہٹ کر دیگر آپشنز پر بھی غور شروع کردیا ہے۔ قانونی طور پر سزا ہونے کی صورت میں ٹرائل کورٹ  اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کو 2 ہفتے تک معطل کرکے نواز شریف کو فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا موقع دے سکتی ہے۔ پہلے ایسی نظیریں موجود ہیں۔ نواز شریف ہائی کورٹ کارخ کرتے ہیں تو ان کی اپیل پر فیصلے تک ان کی سزا معطل رہے گی۔ اپیل کا فیصلہ ہونے تک بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ پھر ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ اگر فیصلے کو کالعدم نہ بھی قرار دے تو دوبارہ ٹرائل کے لیے بھیج سکتی ہے۔ تاہم یہ ایک طویل سفر ہے۔ تو کیا اس عرصے میں “ڈیل” ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے نواز شریف سے رابطہ کیا تو انہوں نے سختی سے تردید کی اور کہا اب ذاتی معاملات پر بات نہیں ہوگی البتہ قومی مفاد سے متعلق ضرور بات ہو سکتی ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ خود نواز شریف قومی مفاد کی کسی شق پرکس حد تک پورا اترتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...