نئے صوبوں کا سوال اور سیاسی اشرافیہ کا کمال
1970کے انتخابات میں شریک سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے آئینی خاکے متعارف کرائے۔عوامی لیگ کی آئینی سکیم دیگر تمام جماعتوں کے برعکس زیادہ واضح اور سیاسی اقتدار کی تقسیم پر مبنی تھی ،تاہم ان کا مرکزی نقطہ مشرقی پاکستان کے عوام اور ان کے مسائل کے حل پہ استوار تھا۔ملک کے دیگر حصوں کے متعلق عوامی لیگ کا رویہ رنجش اور لاپرواہی والا تھا۔عوامی لیگ بنیادی طور پر ملک کے دونوں حصوں میں وفاقیت کے بجائے مغربی و مشرقی منطقوں پر مشتمل کنفیڈرل سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی، حالانکہ اسے مغربی بازو نیپ کے مکتب فکر کی سیاسی و اخلاقی حمایت میسر تھی۔اگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المیہ جنم نہ لیتا تو کیا پاکستان میں ایسا آئین تشکیل پا سکتا تھا جو عوامی اور قومی جمہوری آسودگی کا غماز ہوتا؟ میرا مطلب ہے کیا ہم اس صورت میں دوایوانی مقننہ تشکیل کر پاتے جس میں قومی اسمبلی اور ایوان بالا موجود ہوتا جہاں تمام قومی وحدتوں کی مساوی نمائندگی ہوتی؟عوامی لیگ کے کچھ نکات مدنظر رہیں تو یہ کہنا ناممکن ہے کہ مرکزی اسمبلی(قومی)کے علمی الرغم ایوان بالا کی ہئیت ایسی ہوتی جس میں مغربی پاکستان ون یونٹ کے بجائے چار صوبائی یا وفاقی اکائیوں کے ساتھ شریک ہوتا۔
اس صورت میں آئین کی تشکیل اولاً بعید از قیاس ہوتی یا پھر مغربی پاکستان کو واپس ون یونٹ بنایا جاتا۔یوں نیپ کے مکتب فکر سے جڑے صوبے عوامی لیگ سے فاصلے پر چلے جاتے۔امکانی قیاس آرائی کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی آئین میں مشرقی پلڑے کو ملنے والے اختیارات کو محدود رکھنے کیلئے مغربی پاکستان کی مقتدر قوت عوامی لیگ کے ساتھ اس کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے اس نوعیت کے آئینی ڈھانچے کی تشکیل پر سودے بازی کرتی۔بہرحال یہ الگ اور مفصل موضوع ہے جس پر علیحدہ سے تجزیہ درکار ہے۔میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ1973 میں بننے والے دستور میں باقی ماندہ ملک میں موجود مختلف صوبوں کی آبادی میں پایا جانے والا تفرق ایک ایوانی مقننہ کے اصول پر غیر متوازن ہوتا چنانچہ آئین ساز مدبرین نے قومی اسمبلی میں عوام کی عددی نمائندگی بقدر تعداد اور ایوان بالا میں آبادی کے عدم توازن کو آئین و ریاستی طاقت اور فیصلوں کی تعداد میں کم اقوام کو مساوی نمائندگی دے کر ایک اطمینان بخش آئینی بندوبست تشکیل دیا تھا۔اس تاریخی تناظر کو کبھی بھی سیاسی مباحثے کے دوران نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
بدقسمتی ہے کہ آمریت کے تاریک دور کے خاتمے کیلئے آٹھویں ترمیم کے ذریعے قوموں کی نمائندگی کے حامل ایوان کو مختلف مذہبی،اقلیتوں نسلی و صنفی گروپوں اور ماہرین کی نمائندگی کے ساتھ سیاسی و فکری سطح پر آلودہ کرنا پڑا،تب ملک کی مجموعی آبادی آٹھ کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔اس دستور میں صوبوں یا قومی اکائیوں کی جغرافیائی حد بندی کے متعلق ایک واضح طریقہ کار بھی متعین کیا گیا ہے۔یہ ایک دور اندیش اقدام تھا یا پھر انتظامی صوبوں کو قومی وحدتوں میں بدلنے کی آئندہ کی مدبرانہ حکمت عملی ،تاکہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں وفاقی اکائیوں پر مشتمل وفاقیت میں ڈھالا جاسکے جہاں قومی وحدتوں میں مختلف اقوام کی موجودگی سے پیدا ہونے والے تضادات کا تدارک ممکن ہو جائے۔
وقت کے بہاؤ کے بعد جب ملکی آبادی میں اضافہ اور مالی خوشحالی آئی تو سیاسی معاشی نظام بھی تبدیل ہوا۔زرعی معیشت سے جو دیہی آبادی کی اکثریت پر مبنی تھی، رفتہ رفتہ شہری آبادیوں میں اضافہ ہونے لگا جو دیہی آبادی کے برعکس زمیندارانہ گرفت سے آزاد،خود مختار و معاشی بندوبست(تجارت،ملازمت)پہ استوار تھا۔شہری اشرافیہ کی تعداد میں اضافہ کم از کم پنجاب میں عوامی حمایت رکھنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے مقننہ میں اپنے حلقہ انتخاب کے بارسوخ گھرانوں کو کھپانے سے قاصر نظر آنے لگا۔بالخصوص ایوان بالا سینیٹ میں12کروڑ کی آبادی سے بھی22ارکان کا چناؤ کرنا خاصا دشوار مرحلہ ہے۔اس سوال کا ایک حل تو سینیٹ کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کرکے تلاش کیا جاسکتا تھا لیکن مسئلہ محض سینیٹ تک زیادہ گھرانوں کی رسائی سے زیادہ گھمبیر تھا۔چنانچہ پنجاب میں جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبے،پوٹھوہاری صوبے کے قیام کی صدائیں بلند کرائی گئیں۔
صوبوں کی نئی جغرافیائی حد بندیاں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔پنجاب والے تو رضا کارانہ طور پر اپنے مفادات کے نمایاں تحفظ و رسوخ کیلئے مادر وطن کی تقسیم پر آمادہ ہیں لیکن سندھ میں یہ سوال انتہائی حساسیت کا حامل ہے جہاں مسئلہ انتظامی صوبے کے برعکس ایک تاریخی وطن سندھ سرزمین کی تقسیم کا ہے اور وہاں ناقابل حل شہری دیہی تضاد جو لسانی نسلی ثقافتی تضادات بھی رکھتا ہے،بھیانک صورت میں موجود ہے۔ایک طرف ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہوئے اردو خواں طبقات اپنے ساتھ بعض جائز شکایات کے حل کیلئے کراچی حیدر آباد پر مشتمل الگ صوبے کے طالب ہیں تو مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ طبقات جس صوبے کے طالب ہیں وہاں ان کی اپنی تاریخی قومی سرزمین ہی موجود نہیں۔چنانچہ سندھ کے وڈیرے ایک طرف پنجاب کے سرائیکی سیاسی زمیندار گھرانوں کی اقتدار کے نیوکلس میں شرکت کو پسندیدگی سے دیکھتے ہیں، وہ سرائیکی یا جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کے قیام کی حمایت کرتے ہیں مگر سندھ میں اسی بنیادپر کسی صوبے کے مطالبے پر لعنت بھیجتے ہیں۔
بلوچستان میں بھی صوبائی حدود میں دوقومیں آباد ہیں جن کی اپنی اپنی تاریخی سرزمین ہے ۔چنانچہ یہاں سماجی، سیاسی ارتقاء اور شعوری بالیدگی نے ایسی فضا قائم کردی جس میں بلوچ اپنے پشتون بھائیوں کی اپنی تاریخی سرزمین پر علیحدہ صوبے کی مخالفت سے رفتہ رفتہ دستبردار ہورہے ہیں کچھ عرصہ قبل بلوچ قوم میں بلوچستان کی تقسیم اور قومی جذبات برانگیختہ کرنے والا ناقابل قبول نعرہ تھا۔ کے پی کے میں ہزارہ ڈویژن کے افراد بھی اپنا انتظامی صوبہ مانگتے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے بلوچ سیاسی حلقے جیکب آباد،ڈیرہ غازی خان،کوہ سلیمان کے علاقوں کی بلوچ یا بلوچستان قومی وحدت میں واپسی کے متمنی ہیں۔
ان حالات میں وفاق کے زیر انتظامی ٓازاد قبائلی ایجنسیاں جنہیں فاٹا کہا جاتا تھا ،ان کے عوام کے ایک بڑے حصے کے مطالبات اور خواہش پر اسے گذشتہ ماہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا ہے۔پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر پشتون قومی جہد کے دومختلف منظر نامے ہیں۔ایک پشتون وطن و قوم کی وحدت پر مبنی ہے تو دوسرا جنوبی پشتونخوا کے قیام کے ساتھ ساتھ فاٹا کو بھی علیحدہ صوبے بنانے کا متمنی ہے۔اس سیاسی حلقے میں بولان سے چترال بھی منشور کا حصہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر صرف پنجاب کو دو یا تین انتظامی صوبوں میں بانٹ دیا جائے تو اس کے سیاسی مرکزی ڈھانچے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
یقینی طور پر پنجاب کی سیاسی قوت جسے کسی جماعت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے،علیحدگی کے بعد،سینیٹ میں عددی اکثریت کے ذریعے پارلیمانی ڈھانچے میں بلاشرکت غیرے حاکم بن جائیگی۔یاد رکھنا چاہیے کہ صدیوں کے ساتھ اور گہرے سماجی معاشی سرایت شدہ مفادات کے نتیجے میں پنجاب کی تقسیم کے بعد قائم ہونے والے صوبے آئین و قانون سازی یا بجٹ بنانے میں سندھ بلوچستان اور کے پی کے کے ہم خیال نہیں بنیں گے۔پیوستہ مفادات کی حرکیات انہیں ماضی کے رشتوں میں متحد ہی رکھے گی ۔جبکہ نئے صوبوں کے ذریعے پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کے گھرانوں کو دو یا تین صوبائی حکومتوں میں کابینہ ،افسر شاہی،گورنر شپ وغیرہ کے ذریعےروزگار میسر آجائے گا۔اقتدار کے فوائد و مراعات حاصل ہونگے اور مقبول سیاسی جماعت کو اپنے لوگوں کو مختلف سطحوں پر ایڈجسٹ کرنے میں سہولت مل جائے گی جبکہ سینیٹ کی عددی بالادستی مرکزی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کا وسیلہ ثابت ہوگی۔ اس عمل سے سرائیکی،جنوبی پنجاب یا بہاولپور والوں کو فوائد نہیں ملیں گے ،ہاں ان پر مقامی حاکم مسلط ہو جائیں گے۔ چنانچہ یہ دلیل کہ بڑھتی آبادی والے صوبے کو اگر تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو محض لغو خیال آرائی ہے۔بھارت کی آبادی سوا ارب ہے مگر وہاں25صوبے ہیں اسی طرح چین میں صوبے آبادی کے تناسب سے کم تعداد میں ہیں۔عوام کے روزمرہ مسائل ،شہری منصوبہ بندی،شہری سہولیات اور اعلیٰ درجے کے مسائل کے حل کی موثر صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ملک بھر میں کیمون سسٹم کے انداز میں منتخب شدہ ضلعی شہری ادارے بنائے جائیں اور تمام تر اختیارات، ترقیاتی منصوبے،ٹیکس وصولیاں،تقرریاں سب کچھ ضلعی حکومتوں کو سونپ دیے جائیں۔صوبائی اسمبلیاں قانون سازی تک محدود ہوں تو عوام کو براہ راست اپنے مسائل حل کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔وفاقی نظام کو عوامی و قومی جمہوری اطمینان و آسودگی کا حامل بنانے کیلئے دو بنیادی تقاضے ہیں جن پر کثیر القومی ریاست میں عمل پیرائی ناگزیر ہوتی ہے۔عوام کی نمائندگی کے ادارے(قانون سازی) اور اقوام کی قانون سازی میں مساوی نمائندگی۔ چنانچہ تقاضہ یہ ہے کہ ملک میں انتظامی صوبوں کی غیر مدلل راگنی الاپنے کی بجائے قومی اکائیوں کی ازسر نو جغرافیائی حد بندیوں پر سنجیدہ غور کیا جائے اور تمام اقوام کی ایوان بالا میں مساوی نمائندگی کا توازن قائم رکھا جائے۔
کالا باغ ڈیم کے شوشے کی طرح نئے صوبوں کا مطالبہ بھی ہمیشہ انتخابی ماحول میں لگوایا جاتا ہے۔جب پارلیمان اور اختیار و طاقت کے بیچ بالادستی کا سوال شدت سے ابھرتا ہے۔ ایسے سیاسی نعرے،عوام اور قوم کو جو پہلے ہی نسلی لسانی،فرقہ وارانہ تقسیم کے گہرے کھاؤ میں ہے مزید خلفشار اور باہمی طور پر صف آرا کردیا جاتا ہے تاکہ جمہوری قوت منقسم و کمزور ہو جائے۔
2018 کے مقررہ وقت پر انتخابات کے غیر جانبدارانہ انعقاد کے لیے جو نگران حکومتیں بن رہی ہیں، ان کے اجزائے ترکیبی تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کی عوامی سطح پر نگرانی کیلئے طریقہ کار بھی منظم و فعال ہو۔میری رائے میں ذرائع ابلاغ بے لاگ تنقیدسے یہ فریضہ ادا کرسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ خود ذمہ دارانہ کردار کے حامل اور پابندیوں سے آزاد ہوں۔نہ کسی کے طرفدار نہ ہی تنخواہ دار ہوں۔دلیل سے تنقید کریں تو نگرانی موثر و متوازن ہوسکتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے