انتخابات کا انعقاد،معلق پارلیمان اور غیر مستحکم حکومتیں

937

عام انتخابات کا اعلان کردہ نظام الاوقات کے مطابق اپنے مراحل طے کرتے ہوئے حتمی معرکہ آرائی کے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔کاغذات نامزدگی کی ابتدائی جانچ پڑتال ہو چکی ہے،آر اوز کے فیصلوں کی حمایت یا مخالفت میں الیکشن ٹریبونلز کے فیصلے آچکے ہیں۔دریں حالات انتخابات کے مقررہ وقت یعنی25جولائی2018 منعقد نہ ہونے کے متعلق تشکیک پسندی معقول نظر نہیں آتی، تاہم یہ نتیجہ سطحی انداز کا حامل ہے چند واقعات اب بھی انتخابات کے پرامن شفاف اور مقررہ اعلان کے مطابق منعقد ہونے کے متعلق مشکوک قیاس آرائیوں کیلئے کافی جواز مہیا کرتے ہیں۔عمران خان  نے چاروں صوبوں کے گورنرز بدلنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ وہ تمام گورنرز سابق حکمران جماعت مسلم لیگ کے حامی یا تعینات کردہ ہیں، چنانچہ ان کے خیال میں ایسے’’جانبدار‘‘ گورنرز کی موجودگی منصفانہ،شفاف انتخابات کے انعقاد پر تحفظات پیدا کرتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس مطالبے کو پیش کرنے کی وجہ کیا ہے۔کیا عمران خان تسلیم کررہے ہیں کہ موجودہ گورنرز جو انتظامی اختیارات سے محروم ہیں، محض آئینی کردار کی بنا پر نگران حکومتوں کے کردار کو زائل کرسکتے ہیں؟تو پھر وہ صاف کیوں نہیں کہتے ہیں کہ موجودہ نگران حکومتیں پرامن شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کی ایسی صلاحیت،استعداد اور آئینی و انتظامی اختیار نہیں رکھتیں جو کسی غیر انتظامی عہدے پر متمکن کسی شخص(گورنر) کو انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے سے روک سکیں۔چنانچہ سیدھا سادہ منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نگران حکومتوں کو  ختم کردیا جائے یا بااختیار بنایا جائے۔

نگران حکومتوں کے خاتمے کا مطالبہ چونکہ سیاسی سطح پر نامقبول لگے گا لہٰذا میرا خیال ہے کہ عمران خان کے استدلال کا مخفی پہلو اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ شفاف،پرامن اور غیر جانبدار حکومت ناگزیر ہے جو آئینی حدود و قیود کی پابند ہو۔کیا عمران خان نگران حکومتوں کے متعلق اپنے استدلال کے ذریعے طاقتور ٹیکنوکریٹ حکومتوں کے قیام کیلئے راہ ہموار کررہے ہیں؟ جو60روز میں انتخابی عمل مکمل کرنے کی پابند ہونے کے برعکس،زیادہ لمبی مدت(کم از کم تین سال) تک برسر اقتدار رہے اور پھر اپنے اختیار و اہداف کے مطابق انتخابات کرائے؟
انتخابات سے قبل جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے، وہ انتخابات کے ذریعے طے شدہ من پسند نتائج کے حصول کی بلا تردید و ترد نشاندہی کرنے والے اعمال ہیں۔
بلوچستان اسمبلی سے مسلم لیگ کو غیر مبہم سینیٹرز سے محروم کردینے والی جادوئی چھڑی نے بلاشبہ عام انتخابات کے نتائج کو بے ضرر کردینے کی کامیابی حاصل کی ہے اور یہی واحد عمل انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے بھی ممد و معاون ہے تاہم اس ہدف کو عبور کر نے کے بعد بھی پس پردہ سیاسی عمل میں جو غیر آئینی مداخلت جاری ہے وہ صاف گواہی دے رہی ہے کہ بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کے انتخابات پر اثر انداز ہونے والی قوت اپنے مزید اہداف کیلئے پوری طرح سرگرم ہے۔اس کا پہلا ہدف غیر مستحکم معلق پارلیمان کا قیام تھا اور اب جبکہ سینیٹ میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کو واضح برتری میسر نہیں تو یقیناًکہا جاسکتا ہے کہ اگر تمام اہتمام و کوشش کے باوجود مسلم لیگ واضح برتری حاصل کر بھی لے تو وہ سینیٹ کی عددی تقسیم کے تناظر میں کسی بھی طرح کی ایسی آئینی ترامیم منظور نہیں کراسکتی ،جن سے پارلیمنٹ محض اقتدار کی علامت کی بجائے اختیارات کا مرکز و محور بن سکے۔اس یقین کو ایک اندیشہ ہائے دور دراز کا سامنا بھی ہے کہ اگر بعد از انتخابات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اختلافات ختم یا کم کرکے باہمی سیاسی تعاون پر آمادہ ہو جائے تو پھر پوری صورتحال ناخوشگوار ہوسکتی ہے ،جو کشٹ بلوچستان اسمبلی سے شروع ہوا تھا ،وہ غیر سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ چنانچہ میرا خیال  ہے کہ آئندہ انتخابات کے انعقاد کا اب بھی اس نقطے پر بنیادی انحصار ہوگا کہ مسلم لیگ(ن)کو قومی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ نشستوں سے محروم کیا جائے،قومی اسمبلی میں کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے نہ پائے بلکہ ایک مخلوط حکومت قائم ہو جو یکسوئی سے حکومت کرنے سے بھی قاصر ہو،پالیسی سازی،قومی، دفاع  و خارجہ حکمت عملی اور علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کا نیا رخ متعین کرنے کے متعلق سوچ بچار بھی نہ کرنے پائے۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ چاروں صوبوں میں سیاسی اتحاد و گٹھ جوڑ اس ترتیب و نوعیت سے تشکیل دیے جارہے ہیں جو حتمی طور پر مرکز و صوبوں میں بھی لاچار غیر مستحکم مخلوط حکومتوں کے قیام کا سبب بنیں گے۔حکمت عملی و احتیاط کے ساتھ مرتب کی گئی سیاسی صف آرائی کے باوصف اس خدشے کا شافی  جواب تاحال کسی کے پاس نہیں کہ25جولائی کو عوامی رائے دہندگان کا موڈ،رویہ اور فیصلہ کیا ہوگا؟

فرض کریں کہ عوام نے تمام تر کوششوں کو رد کرتے ہوئے کم از کم پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ کو برتری دلا دی تو پھر سارے کھیل  کا کیا فائدہ ہوگا؟اس لیے مسلم لیگ کی یقینی ناکامی ممکن بنانے کیلئے مسلم لیگ میں تقسیم ہی واحد موثر علاج ہوسکتا تھا اور اب بھی یہی صدری نسخہ روبہ عمل ہے۔چوہدری نثار کی جاں نثاری کے بعد زعیم قادری کی للکار(اس کے جو بھی اسباب ہوں) مسلم لیگ میں تقسیم کے دیرینہ خواب کی تعبیر کا نقطہ آغاز ہوسکتے ہیں۔

عمومی توقعات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ مسلم لیگ کے80ایم این اے علیحدہ ہورہے ہیں،داخلی تقسیم و خلفشار کے متعلق اسی طرح کی تمام قیاس آرائیاں دم توڑتی رہیں ،حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف کا بیانیہ مسلم لیگ کے اتحاد و عوامی حمایت کے مترادف ہو چکا ہے۔چنانچہ پارٹی میں تقسیم کے خواب پورے نہیں ہوئے اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر بروقت انعقاد پر چھائے شکوک و شبہات چھٹ جائیں گے۔بصورت دیگر التوا یا پھر نتائج پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش ہوگی۔ہر دو صورتوں کے اپنے ہی منفی اثرات ہیں اور اس کا بنیادی سبب مسلم لیگ کو میسر عوامی حمایت کا خوف ہوگا چنانچہ التوا یا نتائج بدلنے کی صورت میں بھی مسلم لیگ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ التوا کے خلاف جمہوری مزاحمت تحریک شروع کرسکتی ہے اور نتائج کی تبدیلی کی صورت  میں بھی ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔تاہم اس صورتحال میں سیاسی صف بندی میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان زیادہ نہیں ہوگا۔انتخابات سے قبل سیاسی مداخلت اور من پسند نتائج کے حصول کی کوششوں میں بلوچستان میں ری پبلکن پارٹی کی طرز پر’’باپ‘‘ کی تخلیق و ترویج اور اس کیلئے اہل علم کے مطابق تسلسل کے ساتھ سیاسی سماجی قبائلی شخصیات پر دباؤ ڈالنے کا عمل اسی مرکز ثقل سے جاری ہے جہاں سے سینیٹ کے انتخابات کی نوعیت بدلی گئی تھی۔اس اطلاع سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پس پردہ پیوستہ مفادات کیلئے فعال غیر سیاسی طاقتور حلقے محض معلق پارلیمنٹ کے قیام پر اکتفا کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ وہ اس سے زیادہ کے حصول کے متمنی ہیں۔
تاہم دوسری طرف سردار اختر مینگل کی نواز شریف سے ملاقات نے بلوچستان کے حقیقی سیاسی منظر نامے میں ایک مثبت اور متوقع تبدیلی پیدا کردی ہے، اب نواز شریف کو بلوچستان میں سیاسی مزاحمتی تحریک کے لیے  پہلے سے زیادہ تعاون کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ التوا یا نتائج بدلنے کی دونوں صورتوں میں  ملک جو پہلے ہی خارجہ خطرات ،دباؤ اور دہشت گردی میں جکڑا ہوا ہے ،سیاسی طور پر مزید خلفشار کی زد میں جاسکتا ہے۔اندرونی طور پر مختلف تحریکیں پہلے سے ہی گھنٹی بجا چکی ہیں۔اگر ملک سیاسی خلفشار،احتجاجی تحریک یا سیاسی عدم استحکام جس کی ایک یقینی صورت مخلوط حکومتوں کا قیام اور معلق پارلیمان ہو،ایسے مراحل میں جبکہ بیرونی دباؤ کا سامنا کرنے کیلئے ملک میں مذہبی،نسلی،لسانی،سیاسی اور قومی اتفاق و اتحاد کی اشد ترین ضرورت ہوگی۔ ہمارے غلط ،غیر آئینی رویوں و اقدامات کے نتیجے میں ملک  شدید طور پر عدم استحکام کے خطرات کی لپیٹ میں آجائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں  درست لائحہ عمل اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔

میں تجویز کروں گا کہ انتخابات میں کسی جماعت یا گروہ یا فرد کی سرکاری ریاستی سرپرستی و تعاون کا تاثر دینے والی اصلی یا جعلی صورتحال کو ابھرنے سے روکنے کیلئے سخت اقدامات کیے جائیں۔ نگران حکومتیں مقررہ مدت میں انتخابات کرائیں۔ عدلیہ انتخابی عمل کا حصہ بننے کی بجائے انتخابی عذر داریوں کی تلافی اور انصاف کے غیر جانبدار کردار کی طرف پلٹ جائے۔ عوام و اقوام کو اپنی مرضی و پسند کے ساتھ پرامن طور پر کسی خدشے کے بغیر آزادانہ رائے کے اظہار اور اپنے حکمران و نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے جو جماعت اکثریت حاصل کرے اسے اقتدار و اختیار دونوں سونپ دیے جائیں اور نئی منتخب پارلیمان پالیسی و کردار اور اقدامات میں روا رکھی  گئی  کوتاہیوں،زیادتیوں کے ازالے کیلئے سچائی و مفاہمت کیلئے ایسا کمیشن قائم کرے جو قصور واران کا تعین کرے مگر بہتری کی توقع پر انہیں معاف کردیا جائے۔

اس طرز کے کمیشن میں بلوچستان اور سابقہ قبائلی علاقوں(فاٹا)  اور  کراچی میں ہونے والے واقعات کی ترجیحی بنیاد پر تفتیش ہونی چاہیے،ممکن ہے معاف کردینے کے بعد شاید ہم اعتراف کے ساتھ اصلاح کی جانب بڑھ سکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...