الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے نفاذ سے ہچکچاہٹ کیوں؟

محمد ضیاء الحق نقشبندی

925

2013کے انتخابات کے بعدمسلم لیگ ن کی منتخب حکومت کو اپوزیشن کے ہاتھوں درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے ،تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تحریک انصاف نے جہاں حکومت کو ٹف ٹائم دیا،وہیں پر انتخابات کو غیر جانبدار بنانے کے لیے الیکشن کمیشن پر بھی زور دیا۔ اپریل 2017 میں پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن کمیشن کو 2018کے انتخابات کے لیے بھارت اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر الیکٹرونک ووٹنگ مشین EVMکا نظام رائج کرنے،الیکشن کمیشنرکی عمر 65سال مقرر کیے جانے ، الیکشن کمیشنر کا انتخاب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے بجائے خود کمیشن کی جانب سے کیے جانے ، الیکشن سے 2ماہ قبل ووٹر لسٹ عوامی سطح پر لانے، الیکشن کے دن پولنگ کا سامان پاک فوج کی جانب سے منتقل کروانے اور الیکشن کے دن انتخابی عمل کی تکمیل تک پولنگ اسٹیشنوں پر پاک فوج کے جوانوں کی ڈیوٹی لگائے جانے جیسے مطالبات پیش کیے۔ اگر ان تمام مطالبات پر پاکستانی سیاست میں دھاندلی کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے غیر جانبدار نظر ڈالی جائے تو انتخابی نظام میں یہ اصلاحات بلاشبہ دھاندلی کے مسائل میں کمی کا باعث بنے گیں۔ ان مطالبات میں سب سے اہم اور جائز مطالبہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین EVM کا نفاذہے۔ جس کے بارے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی PILDATکے چیف احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ  اس کے لیے نہ صرف1ٹریلین روپے درکار ہیں، بلکہ اسکے نفاذ کے لیے ایک دو سال سے زیادہ کا عرصہ لگے گا، جبکہ بھارت کو اس ٹیکنا لوجی کو عملی صورت میں لانے کے لئے3سے 4انتخابات تک کی مدت لگی۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر بھارت کواتنا وقت لگ گیا تو بھارت نے اس پر عمل درآمد اب سے تین دہائی قبل شروع کر دیا تھا ۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین EVMکا تصور کوئی نیا بھی نہیں ہے۔ بھارت کے علاوہ فلپائن ، نیوزی لینڈ، برطانیہ سمیت کئی ممالک اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ پہلی بار 1982میں کیا گیااور1998-99سے یہ ٹیکنالوجی باقاعدہ استعمال کی جانے لگی۔ سوال یہ اٹھتا ہےکہ پاکستان الیکشن کمیشن ابھی بھی صرف اس حوالے سے عملاً کام کیوں نہیں کر رہا۔تاہم الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے 2018انتخابات کے لیے اب تک صرف ووٹر ر جسٹرڈ ڈیٹا کے استعمال اور ووٹرز کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کی تلاش کے لیے آن لائن جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم اور ملک سے باہر موجود پاکستانیوں کے لیے آن لائن ووٹنگ سسٹم “I-Voting” کا نظام یقینی بنایا گیا ہے۔ ہمارے الیکشن سسٹم میں ایک خرابی یہ بھی ہے، کہ ہمارے الیکشن کا عملہ دو بار نتائج کا اعلان کرتا رہا ہے ۔ شام کو غیر سرکاری نتائج اورصبح کے وقت دوبارہ گنتی کر کے سرکاری نتائج سامنے لائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس دوران ایک نتیجہ ہمارا میڈیا بھی مرتب کر چکا ہوتا ہے ،تو یہ سب نتائج مل کر ایک کنفیوژن کی فضاء قائم کر دیتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں الیکشن کے صرف ایک نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہےجو کہ حتمی ہوتا ہے۔ایسے میں دھاندلی کی آوازیں بلندہونا کوئی حیران کن بات نہیں۔جن کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔اگردھاندلی کے طریقوں کے حوالے سے گزشتہ سیا سی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں تو1951سے 1985تک الیکشن میں دھاندلی کے طریقے سادہ تھے۔ جیسا کہ جعلی ووٹوں کی رجسٹریشن، نومینیشن پیپرز کی نامنظوری،جبراً ووٹنگ کروانا، زبردستی بیلٹ بکس کھلوا کر جعلی ووٹوں سے بھرنا اور مدِمقابل امیدواروں کو ڈرانا دھمکانا اور جیلوں میں بند کرنا ۔

1997 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر بے نظیر بھٹو نے میاں محمد نواز شریف پرالزام عائد کیا کہ الیکشن آفیشلز کو خریدا گیا اور بیلٹس کو جعلی ووٹوں سے بھرا گیا۔ 2013 تک الیکشن میں دھاندلی کے طریقے کافی ایڈوانس ہو چکے تھے۔ان طریقوں میں پری پول رگنگ، الیکشن ڈے رگنگ، اور پوسٹ الیکشن رگنگ شامل ہے۔تاہم 2013کے عام انتخابات کے بعدالیکشن کمیشن حرکت میں آیا اور الیکٹورل ریفارمز کے ایجنڈے  پر کام کیا۔جس کے تحت نادرا کا تعاون حاصل کیا گیا اور ووٹروں کے شناختی کارڈ اور تصاویر کو رجسٹریشن کے عمل کے لیے استعمال کرنا شروع کیا گیا۔کاغذات نامزدگی  میں تبدیلی کی گئی اور ا یف بی آر اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور نیب کی مدد حاصل کی گئی لیکن پھر بھی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے سخت الزامات کا سامنا کر پڑا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...