ووٹ کی نفسیات

1,161

خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ الیکشن ووٹ کی عزت کے لئے ہورہے ہیں۔ فوج بھی یقین دلا رہی ہے کہ جمہوریت کی بقا اس کی ذمہ داری ہے۔ سیاست دان بھی  اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ، عوام حتمی عدالت ہیں اور الیکشن تطہیر یا لانڈری کا بہترین نظام ہیں۔ خوشی اس لئے ہے کہ دیر سے سہی لیکن آخر کار ووٹر کی نہ سہی ووٹ کی عزت نفس کا تو اعتراف کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل سارے گلے شکوے فوجی آمریت کے نام کرکے  اور مذہب اورسیاست کی آمریت کو ستر خون معاف کرکے اس بات کو قبول کرنے لگے ہیں کہ کمزورجمہوریت غیرمنتخب آمریت سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ یہ اعتراف اس الیکشن پر کتنا اثر انداز ہوگا یہ تو الیکشن کے بعد کے دھرنوں سے پتا چلے گا لیکن غیر منتخب آمریت کے لئے کمزور جمہوریت کتنی قیمتی ہے اس کا کچھ کچھ اندازہ الیکشن مہم سے ہی ہو رہا ہے۔

ووٹ کی نفسیات کا اندازہ ماہرین کے تجزیوں سے نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے تجزیے، سروے، سیاسی بیانات اور ماضی کے الیکشنوں کے نتائج سے موازنوں میں محدود رہتے ہیں۔ میڈیا کے سروے میں یہ تو پوچھا جاتا ہے کہ ووٹ کس کو دوگے؟ یہ نہیں سوچا جاتا کہ یہ سوال کرکے ہم کیا چھپانا چاہتے ہیں۔

ہمارے خیال میں ووٹ کی نفسیات کا بہتر اندازہ الیکشن کی تشہیری مہموں سے ہوتا ہے۔ ان میں پاکستانی سیاست کے ماہرین جنہیں عام زبان میں ایلیکٹ ایبل یا جیتنے کی اہلیت کے حامل سیاستدان کہا جاتا ہے جو نعرے ترتیب دیتے ہیں ان سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے مطابق ووٹر کس بات پر ووٹ دے گا، دوسرے یہ کہ ان کے خیال میں ووٹر کو ووٹ دیتے وقت کیا سوچنا چاہئے کہ اس کا فرض کیسے ادا ہوتا ہے؟

ہم نے تشہیری مہموں کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ حالیہ الیکشن میں مندرجہ ذیل پانچ امور پر توجہ مرکوز ہے۔ انسانی جذبات اور رویوں کے انہی پانچ محرکات کو ہدف بنایا جارہا ہے تاکہ کمزور ہی  سہی، ملک میں رہی سہی جمہوریت قائم رہے۔ اسی میں سب کا فائدہ ہے۔

۱۔ ہمدردی کی اپیل۔  اس محرک پرہمیشہ سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ہر انسان  دوسروں سے ہمدردی رکھتا ہے اور نیکی کرکے خوش ہوتا ہے۔ غلطی کس سے نہیں ہوتی لیکن چھوٹے اور بڑے کی غلطی میں فرق کرنا ضروری ہے۔ نیک اور شریف لوگ  لٹھ لے کر ہر کسی کےپیچھے نہیں پڑ جاتے۔ دین و دنیا عفو و درگذر پر قائم ہے۔چھوٹے غلطی کریں تو اس کو سزا دینا ضروری ہے ورنہ چھوٹوں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ چھوٹے لاکھوں ہیں. ان کو سزا نہ دینے سے نظام گڑبڑ ہو جاتا ہے۔ بڑوں  کی سزا کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کو سزا دینا بہت بڑی غلطی ہے۔اول تو ان کی تعداد هی کتنی هے کہ ان کو سزا دینے سے نظام سدھر جائے گا. بڑوں کی چوری چکاری، رشوت اور قتل و غارت ویسے بھی بڑوں تک محدود ہوتی ہے۔ ان سے عوام کو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس لئے ان کی غلطیوں میں ہما شما کو دخل نہیں دینا چاہئے۔

اس محرک کو بیدار کرنے کے لئے امیدوار کی قربانیوں، خاندان کی شہادتوں، قید و بند کی صعوبتوں، عدالتوں میں گھسیٹے جانے، اور عوام کی خدمت کرنے سے روکے جانے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یاد رہے  کہ یہاں حسن سلوک اور عفو و درگذر اور ہمدردی کا تعلق عام اخلاقیات سے نہیں۔ بظاہر ووٹ خیرات کے طورپر مانگا جاتا ہے اور اس سے ووٹر کا احساس کمتری کسی حد تک دب بھی جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ووٹ خیرات کے طور پر دیا نہیں جاتا۔ اس لئے اس بات سے قطع نظر کہ کچھ حقیقت پسند ثمن قلیل میں ووٹ بیچ کر نقد دنیوی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں،  ووٹ کی عزت کا بھرم رکھنے کے لئے اس کو صدقات، خیرات ، غربت مٹانے اور سماجی انصاف اور معاشی استحصال وغیرہ کی بحث سے دور رکھنا ضروری ہے۔

۲۔ خون کی پکار۔ الیکشن میں ذات برادری کا رشتہ بہت اہم ہے۔ اس کا حوالہ دے کرغیرت جگا نے سے بہت سے امیدواروں کا بھلابھی ہوتا ہے۔ تاہم اس میں احتیاط ضروری ہے۔ اس پر زیادہ زور دینے سے خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے، خصوصا جب دونوں جانب  امیدوار ایک ہی برادری سے ہوں۔ بعض لوگ پارٹی کو برادری کا درجہ دے کر لوگوں میں خواہ مخواہ کی گھڑ دوڑ لگواتے ہیں لیکن اس سے بھی خون خرابے کا اورآخر کار ووٹوں کی تعداد کم ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات امیدوار کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ اس لئے احتیاط لازم ہے۔  آج کل تو سنا ہےجہاد کے نام پر اس کام کے لئے ٹرینڈ خود کش بمبار بھی دستیاب ہیں۔ تجربہ کار سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ انتقامی جذبے کو اس انتہا تک لے جانا محض بے وقوفی ہے کیونکہ جمہوریت خود بہت بڑا انتقام ہے۔

۳۔ میثاق جہوریت۔  آسان زبان میں اسےباری باری کا معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہاوت ہے اتر کاٹو میں چڑھاں۔ پہلے یہ بچوں کا مقبول کھیل تھا۔اب یہ کھیل سیاست دان بھی کھیلتے ہیں۔’اب میری باری‘ کی نفسیات الیکشن کی بنیادی نفسیات  بن گئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ تو نئے امیدوار اٹھاتے ہیں۔ ان کی یہ اپیل بظاہر پُر اثر لگتی ہے کہ آپ نے دوسروں کو آزما لیا اب ہمیں موقع دیجیے۔ تاہم اس کے فلسفے میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ مخالف یہ پراپاگنڈا کرنے لگتے ہیں کہ یہ اناڑی سیاست دان کیسے کامیاب ہوگا۔ یہ بیساکھی والا امیدوار ہے۔ جب غیر آزمودہ کی تشہیر میں مخالفین کی ناکامیوں یا زیادتیوں کا ذکر کیا جا ئے تو کہا جاتا ہے کہ یہ شریف اور مالدار لوگوں پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ اس نفسیاتی مہم کے ماہر باری باری کو مفاہمت کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ ووٹر کے لئے یہ اطمینا ن بخش ہوتا ہے۔ کیونکہ انقلاب کے لئے وقت درکار ہے جو نہ عمر رسیدہ ووٹرکے پاس ہے نہ سوشل میڈیا کے پُر عزم نوجوان کے پاس۔

۴۔ نظریاتی۔ تشہیری مہم میں نظریات، قانون، آئین، جمہوریت وغیرہ کا نام لئے بغیر چارہ تو نہیں لیکن ووٹ اور ووٹر کی نفسیات کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ خالص نظریاتی نعرے  دو دھاری تلوار ہیں‘ الٹے بھی پڑ سکتے ہیں۔ اسے مارکسی جدلیات کا رنگ تو دیا جائے لیکن اسے انقلابی سیاق و سباق سے الگ رکھنے کے لئے جنگ میں فتح اور شکست کے قدیم استعاروں میں محدود رکھنا ضروری ہے۔ تیر، تلوار، تاج، تخت، شیر، عقاب، بادشاہ، رانی، راجہ کے استعارے نہ صرف فتح اور شکست کو حتمی بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس پر انگلی اٹھانے کو قابل مذمت بتاتے ہیں بلکہ جیتنے والے کو مطلق العنانی کا حق عطا کرکے عوام سے بے نیاز کرتے ہیں۔ ووٹ کی عزت  کا تقاضا ہوتا ہے کہ عظیم فاتح کو غلطی اور جرم سے پاک مانا جائے۔

۵۔ بچوں کا مستقبل۔ ووٹ کی نفسیات میں بچوں کے مستقبل کا حوالہ سب سے اہم محرک ہے۔ بچے سب کی کمزوری ہیں۔ ماں باپ جوانیاں اپنے بچوں کے مستقبل پر قربان کردیتے ہیں۔ سکولوں اور ٹیوشن کی فیسوں کے علاوہ امتحانوں میں نمبر لگوانے اور نوکریوں کے لئے سفارشیں کرنے تک ہر جتن کرکے ریٹائر منٹ تک پہنچتے ہیں تو ان کو جرم اور ندامت کا احساس گھیرے ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو وہ مستقبل نہ دے سکے جو ان کا سپنا تھا۔ الیکشن کی تشہیر میں جب امیدوار کی طرف سے بچوں کے مستقبل کا وعدہ کیا جاتا ہے تو وہ ووٹر کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو جاتا ہے۔ وہ د یوانہ وار ووٹ دیتا ہے۔ وفور جذبات میں یہ نہیں سوچتا کہ امیدوار کے بھی بچے ہیں ،ان کا بھی مستقبل ہے۔ وہ خود سے یہ نہیں پوچھتا کہ امیدوار  کو اپنے بچوں کا مستقبل زیادہ عزیز ہوگا کہ ووٹر کے بچوں کا۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ امیدوار اپنے ماں باپ کے گُن اس لئے گا تا ہے کہ امیدوار کا حال اور مستقبل ان کے دم یا شہادت سے محفوظ ہوا۔ ووٹر یہ نہیں دیکھتا کہ اس الیکشن میں بھی امیدوار نے اپنے ہی بچوں کو امیدوار کھڑا کیا ہے کہ ان کا مستقبل محفوظ ہو۔

ووٹ کی نفسیات کے اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ سوال صرف اپنے بچوں کے مسقبل کا  نہیں ، سب کے بچوں کے بلکہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کا نام ہے۔ لیکن اس بات کو سمجھنے  کے لئے بہت وقت درکار ہے۔ الیکشن کی گہما گہمی میں یہ سوچ توعارضی طور پر ابھرتی ہے اور عارضی ہی ختم ہوجاتی ہے۔  ہماری ساری عمر تو ہمیشہ دوسرے بسر کرتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...