ماڈرن منطق الطیر
منطق الطیر پرندوں کی بولی ہے، انسان بولے تو سوچ سمجھ کر۔ ورنہ اپنے ہی آشیانے کے تنکے بکھر جاتے ہیں۔
منطق الطیر کا لفظی معنی تو پرندوں کی بولی ہے جو بہت ہی خاص زبان ہے۔ اس بولی کو سمجھنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی سب سے ابتدائی شکل ہے جو صرف گانے کے لئے نہیں بلکہ پیغام پہنچانے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ پرندے آواز کے سب سے چھوٹے ٹکڑوں کو دہرا کر جملے بناتے ہیں۔ یوں کہئے کہ یہ ٹیلیگراف کی طرح کی کوڈ زبان ہے ۔ اس کی سب سے دلچسپ اور حیران کن مثال آسٹریلیا کا ایک پرندہ بیبلر ہے جو کئی سو آوازوں کے ٹکڑے جوڑ کر بولتا ہے۔ منطق الطیر مسلم فلسفیوں کی اصطلاح میں علامات پر مبنی ابلاغ کا طریقہ ہے۔ ادب کی دنیا میں نصیحت کی باتیں پرندوں اور جانوروں کی زبانی کہی جاتی تھیں۔ نامورفلسفی صوفی شاعر فرید الدین عطار کی کتاب منطق الطیر اسی اسلوب میں لکھی گئی۔ علم اور حکمت کی کتابوں میں آج بھی اس کا بڑا مقام ہے۔ یہ کتاب تیس پرندوں کی ایک خیالی پرندے سیمرغ کی تلاش کی کہانی ہے۔ کتاب یہ راز کھولتی ہے کہ سیمرغ کوئی ایک پرندہ نہیں بلکہ ان تیس پرندوں کی اپنی مجموعی طاقت کا علامتی نام ہے ۔
ماڈرن منطق الطیر اس کی نئی تعبیر ہے۔
تو دوستو، منطق الطیر کی کہانی اس وقت سے کہی جارہی ہے جب انسان پرندوں کی بولی سمجھتے تھے۔ کوا مہمانوں کی خبر دیتا تھا۔ چٹا ککڑ منڈیر پر بولتا تو مٹیار سجن کی اڈیک میں کواڑ کی اوٹ میں آ کرکھڑی ہو جاتی۔ فاختہ کی سریلی آواز میں اللہ ہو کی دھیمی گونج صبحدم سنائی دیتی تو لوگ بستر چھوڑ دیتے۔ تیتر حق ہو کی صدا دیتے۔ کویل کی کوک برہا کے گیت گاتی۔ پپیہا پی ہو پی ہوبولتا۔ اب یہ پتا نہیں کہ انسان جو سمجھتے تھے پرندے وہی بولتے تھے لیکن دونوں میں اعتبار تھا اس لئے انسان اور جانور اپنی اپنی بولیاں بولتے ہنسی خوشی زندگی گزار کر ایک دن کسی اور دنیا میں چلے جاتے۔
لوگ طوطا مینا کی کہانیاں اور گھگی تے کاں کے قصے شوق سے سنتے ، طوطے سے فال نکلواتے۔ انسان جانوروں کا احترام کرتے۔ جانورںصیحت کرتے تو انسان غور سے سنتے۔ سیانے سمجھاتے تو جانوروں کی کہانی سنا کر۔ عقل کی بات سناتے تو پرندوں کی زبانی۔ مرزا غالب بہار کی خبر دیتے تو بلبل کی زبانی۔
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
نکتہ چیں کہتے ہیں کہ یہ جبر کا زمانہ تھا۔ کہانی اگر تھی تو بادشاہوں، شہزادیوں اور شہزادوں کی۔ بادشاہ نہ غلطی کرتے نہ نا انصافی۔ بادشاہ کہانیوں کے دلدادہ تھے۔ لیکن کسی سوال کا جواب دینا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کام کے لئے وہ وزیر رکھتے تھے۔ کوئی ٹیڑھا سوال ہوتا تو وزیر کو تھما دیتے اسے ایک رات یا زیادہ سے زیادہ سات دن میں جواب دینا ہوتا تھا۔ ورنہ اس وزیر کو اس کے بال بچوں سمیت کولہو میں پسوا نے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ وزیر کے پاس تین ہی طریقے تھے۔ اول صبح سویرے شہر میں آنے والے پہلے اجنبی کی تلاش، کیونکہ بدیسیوں کی آمد سے کاروبار ترقی کرتا تھا۔ دوسرے وزیر کی ذہین بیٹی جسے بادشاہ اپنے حرم میں ڈال کر یا اپنے کم عقل بیٹے سے بیاہ کر بیٹے کی بادشاہت کو یقینی بنا لیتا، تیسرے طوطا مینا کی کہانی یا کسی پرندے کی زبانی نصیحت ۔ ان سارے طریقوں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا کہ سلطنت میں بادشاہ سے زیادہ کوئی انسان عقلمند نہیں۔
دیومالائی زمانے تھے۔ اسی طرح کی کہانیوں پر گذر بسر تھی۔ نہ وزیر جھوٹا پڑتا تھا نہ بادشاہ۔ لیکن ہوا یہ کہ وزیروں کی چالاکیوں سے فلسفہ ایجاد ہونے لگا اور منطق نے جنم لیا۔ فلسفیوں نے پرندوں اور جانوروں کے نام سے بادشاہوں کی ناک کے نیچے مزاحمتی فلسفہ تشکیل دیا۔ پرندوں اور جانوروں کی زبانی قصے کہانیوں میں عقل و حکمت کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں۔ فرید الدین عطار نیشا پوری کی منطق الطیر بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے۔
آج زمانہ بدل گیا ہے۔ لیکن پرندے آج بھی قابل اعتبار، بلکہ اعتبار کی علامت ہیں۔ آج کوئی ناقابل اعتبار بات کہے تو یہ کہ کر اس کی بھد اڑائی جاتی کہ میاں کیا بے پر کی اڑاتے ہو۔ انگریزی میں منطق الطیر کا ترجمہ برڈز کانفرنس کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا بھی ٹویٹ پر قائم ہے۔ ماڈرن منطق الطیر کی جو کہانی ہم سنا رہے ہیں یہ بھی ایک ٹویٹ کی داستان ہے۔
تو صاحبو ہوا یوں کہ سی ڈی اے نے درخت کاٹنے شروع کئے تو پرندے بہت مشکل میں پڑ گئے۔ رات کہاں گذاری جائے۔ دانہ دنکا کہاں تلاش کریں۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ برڈز کانفرنس کہاں کی جائے۔ کوئی بڑا درخت باقی نہیں رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے درخت رہ گئے تھے اور وہ بھی ایک دوسرے سے دور۔ ان پر جلسیا ں تو ہو سکتی تھیں لیکن کانفرنس نہیں۔ دن بھر اڑتے ہوے بھی کانفرنس نہیں ہو سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پرندے مختلف درختوں میں بٹ گئے۔
ہد ہد کو افسوس تھا کہ پرندوں میں منطق الطیر والی ملی یکجہتی ختم ہوگئی تھی۔ اندیشہ تھا کہ یہی حال رہا تو پرندے ایک دوسرے کا شکار کرنے لگیں گے۔ اس نے پرندوں کو ٹویٹ کئے کہ کانفرنس کے لئے ایک بڑے اور گھنے درخت کی تلاش میں نکلیں۔ ہد ہد آگے آگے اور باقی پرندے اس کے پیچھے۔ لمبا سفر۔ کئی موسموں کے بعد جس میں زیادہ تر پیچھے رہ گئے یہ پرندے ایک جنت نما جزیرے میں پہنچ گئے۔ جہاں بہت بڑے اور گھنے درخت تھے۔ ہد ہد نے نظر ڈالی تو صرف تیس پرندے یہاں تک پہنچ پائے تھے۔
ہد ہد نے ایک گھنے درخت کو کانفرنس کے لئے چنا۔ اجلاس شروع ہوا۔ ۔ کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اس لئے تقریریں لمبی ہو رہی تھیں۔ مایوسی چھا رہی تھی۔ اتنے میں کسی نے تجویز پیش کی کہ سیمرغ کو تلاش کریں اور اسے بادشاہ بنا لیں۔ کسی نے سیمرغ دیکھا نہیں تھا لیکن سنا تھا کہ سیمرغ میں بادشاہوں والی تیس خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ہد ہد نے کہا کہ سیمرغ کے لئے بہت لمبا سفر درکار ہے جس میں سات وادیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ پہلی وادی طلب اور جستجو کی، دوسری عشق اورجنون کی، تیسری معرفت اور عرفان کی، چوتھی استغنا اور قناعت کی، پانچویں توحید اور اتحاد کی، چھٹی حیرت اور استعجاب کی اور ساتویں وادی فنا اور نفس کُشی کی ہے۔ سب نے کہا کہ سیمرغ کی تلاش میں ہم یہ ساری گھاٹیاں عبور کرنے کو تیار ہیں۔
ہد ہد کی رہبری میں دوسرا کٹھن سفر بھی کٹ گیا۔ اس دوران ہر پرندے کی خصوصی صفات کھل کر سامنے آئیں۔ مور کی خود بینی ، بلبل کا غرور، بطخ کی کم ظرفی، باز کی لاف زنی، فاختہ کی انکساری، عقاب کی ہٹ دھرمی اور کوے کی احتجاجی نعرہ بازی کا سب کو پتا چل گیا۔
سات وادیوں کے پار ایک صاف و شفاف جھیل نظر آئی۔ سب پرندے تیزی سے اترے۔ ہد ہد نے بتایا کہ اس جھیل کا نام سراب ذات ہے۔ سیمرغ یہیں نظر آتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس جھیل میں غور سے دیکھو تو تمہیں سیمرغ دکھائی دے گا۔ شرط یہ ہے کہ جس کو نظر آئے وہ کسی کو نہ بتائے کہ اس نے سیمرغ کو دیکھ لیا ہے۔ تیس پرندے بہت غور سے جھیل میں دیکھ رہے تھے لیکن صرف اپنا عکس نظر آرہا تھا۔ سیمرغ کسی کو نظر نہیں آیا۔ اتنے لمبے سفر کے بعد کسی میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ ہد ہد کو جھوٹا کہے۔ ہر ایک نے دل میں سوچا کہ ہدہد کے کہنے کے مطابق اگر میرا عکس نظر آرہا ہے تو میں ہی سیمرغ ہوں ۔ ہدہد نے دوسروں کو بتانے سے اسی لئے منع کیا ہے کہ دوسرے حسد کریں گے۔ چنانچہ پیچھے ہٹے تو سب پرندے خوش تھے۔ مور نے رقص شروع کیا، کوے سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ باز اس پر جھپٹا تو فاختہ پتوں میں چھپ گئی۔ عقاب نے ایک لمبی اڑان بھری۔
اینگری برڈ ہد ہد کے اس فراڈ پر طیش میں تھی۔ اس سے رہا نہ گیا اس نے ٹویٹ کر کے اس راز کو فاش کردیا۔ مور کا رقص رک گیا ۔اس کی نظر اپنے پاؤں پر اٹک گئی تھی۔ مور کی آنکھ میں آٓنسو دیکھ کر فاختہ غٹرغوں کرتی نیچے اتر آئی۔ عقاب نے بلندی سے ٹویٹ پڑھنے کی کوشش کی۔ جھنجلا کر زمین پر اترآیا۔ اسے اپنی بینائی کمزور ہوتی لگ رہی تھی۔
ایک لمحہ سکوت اور پھر ایسے لگا جیسے طوفان برپا ہو۔ کوے شور مچا رہے تھے۔ ٹویٹ کو بریکنگ نیوز بتا کر لمحہ بہ لمحہ تبصرے کر رہے تھے۔ ٹویٹ نے سا ئیکلون برپا کر دیا تھا۔ درختوں پر بنے آشیانوں کے تنکے اڑرہے تھے۔ لگتا تھا طوفان نہ تھما تو درخت ٹوٹ کر زمین پر گر پڑیں گے۔ تیسوں پرندے پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ سب ہدہد پر لعن طعن کر رہے تھے۔
ہد ہد نے کہا میری بات خاموشی سے سنو۔ تم سب ایک عظیم حادثے سے گذرے ہو۔ ایک دوسرے کو اور مجھے الزام دینے کی بجائے اس بات پر غور کرو کہ اس تجربے سے تم نے کیا سیکھا۔ میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے سیمرغ کو پا لیا ہے۔ اسے دیکھ لیا ہے۔ سب نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔ ہم نے صرف اپنا ہی عکس دیکھا ہے۔ ہد ہد نے کہا یہ بات صحیح ہے کیونکہ تم ہی سیمرغ ہو۔ سیمرغ کا مطلب ہے تیس پرندے۔ تم ہی تیس پرندے ہو۔ تم نے سات وادیاں طے کی ہیں۔ تم سب میں سیمرغ کی صفات پیدا ہوچکی ہیں۔ کووں نے کہا: ہدہد جھوٹ بول رہا ہے۔ عقاب! آپ ہدہد کے اس جھوٹ کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟ عقاب بھی طیش میں تھا۔ اس نے کہا: یہ سب بعد میں ، پہلے یہ بتاؤ یہ ٹویٹ کس نے کیا تھا؟ کوے یقین دلانے لگے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ مور ابھی تک سکتے میں تھا۔ اس کی نگاہ اپنے پاؤں سے نہیں ہٹ نہیں رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ کام انہی کووں کا تھا۔
ہدہد نے سب کو خاموش کرایا۔ میری بات سنو۔ اپنی محنت اور جوجہد کو یوں ضائع نہ کرو۔ تم نے سات وادیوں کا سفر کیا ہے۔ تم سب سیمرغ کی صفات کے مالک ہو۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم میں سے ہر ایک میں سیمرغ کی صفات ہیں لیکن تم سب مل کر سیمرغ ہو ،اکیلے اکیلے نہیں۔ اگر تم الگ الگ سیمرغ بننے کی کوشش کروگے تو سب مارے جاؤگے۔ رہی بات ٹویٹ کی تو ٹویٹ تیر کی طرح ہے کمان سے نکلا واپس نہیں آتا۔ گولی ہے جو دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرتی۔ اکیلے اڑوگے تو تمہاری جداگانہ خصوصیات مجموعی صفت پیدا نہیں ہونے دیں گی۔ کسی کا غرور آڑے آئے گا، کسی کی ہٹ دھرمی۔ کسی کی لاف زنی بہکائے گی کسی کی کم ظرفی۔ تیس مل کر سیمرغ ہیں۔ الگ الگ رہوگے تو صرف مرغ جس کی نہ بانگ بانگ درا ہے نہ اذان حی علی الصلاة۔
منطق الطیر پرندوں کی بولی ہے، انسان بولے تو سوچ سمجھ کر۔ ورنہ اپنے ہی آشیانے کے تنکے بکھر جاتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے