سعودی شاہی خاندان میں پھوٹ ،کیا شاہ سلمان تخت چھوڑنے والے ہیں؟

814

امریکی ادارہ برائے خلیجی امور کی رپورٹ کے مطابق شاہ سلمان اپنی حکومت اپنے بیٹے کو سونپنے کے لیے مکمل تیاری کر چکے ہیں، اور اپنے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

 

سعودی شاہی خاندان میں پھوٹ کی خبریں تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز تخت شاہی اپنے بیٹے محمد بن سلمان کے حوالے کرنے والے ہیں جس کی وجہ سے شاہی خاندان تشتت و افتراق کا شکار ہے۔اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو خطرہ ہے کہ جزیرہ عرب میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور ایران جو پہلے ہی سعودیہ کے دروازے پر پہنچ چکا ہے اسے یمن سے آگے بڑھنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔اس طرح خاکم بدہن بلاد حرمین میں بھی شیعہ سنی خآنہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کے بعد پورے عالم اسلام میں پہلے سے موجود اضطراب بڑھ جائے گا۔

امریکی ادارہ برائے خلیجی امور کی رپورٹ کے مطابق شاہ سلمان اپنی حکومت اپنے بیٹے کو سونپنے کے لیے مکمل تیاری کر چکے ہیں، اور اپنے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو برس قبل شاہ سلمان نے دیوان ملکی میں آتے ہی کابینہ میں جوہری تبدیلیاں کی تھیں اور اپنے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ولایت عہد سے برطرف کر کے اپنے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد بنا دیا تھا اور ساتھ ہی اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔مقرن بن عبدالعزیز کو معزول کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی والدہ یمن کی ایک باندی تھیں جبکہ بادشاہ بننے کے لیے ماں کا بھی سعودی ہونا ضروری ہے۔

دوسری اہم تبدیلی شاہ سلمان نے یہ کی تھی کہ سعودی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائب ولی عہد مقرر کیا تھا جو ان کا اپنا ہی بیٹا تھا۔چونکہ شاہ سلمان کے بھائی نائف بن عبدالعزیز اقتدار ملنے سے قبل ہی وفات پا گئے تھے اس لیے ان کے بڑے بیٹے محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کرنا طے ہوا تھا،اسی وقت سے شاہ سلمان نے کوشش شروع کر دی تھی کہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو آگے لایا جائے۔اس مقصد کے لیے جہاں ایک طرف انہیں وزارت دفاع کا اہم قلمدان سونپا گیا تو دوسری جانب نائب ولی عہد کا عہدہ بھی ان کے لیے گھڑ لیا گیا۔

تیسری تبدیلی یہ آئی تھی کہ سعود الفیصل کو یمن کی طرف جھکاؤ رکھنے کی وجہ سے وزارت خارجہ سے برطرف کر کے عادل الجبیر کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا اور اس طرح پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی وزارت آل سعود سے باہر کے کسی فرد کو سونپی گئی۔عادل الجبیر کو وزارت دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عرب بہار جیسی تحریک سعودیہ میں بھی نہ اٹھ کھڑی ہو اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے کہ دیوان ملکی میں داخلے کے لیے آل سعود کا ہونا ضروری نہیں۔

شاہی خاندان میں یہ تینوں تبدیلیاں نہایت اہم تھیں جن سے سعودی خاندان میں ہلچل مچ گئی اور خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے خلاف مختلف باتیں وقتا فوقتا میڈیا میں آنے لگیں۔خاندانی اختلافات میں اس وقت شدت آگئی جب ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو معزول کر کے شہزادہ محمد بن سلمان کو اقتدار سونپنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔سعودی حکومت میں کسی قسم کی تبدیلی امریکہ کے علم میں لائے بغیر ممکن نہیں اس لیے قرائن یہی بتاتے ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے حالیہ امریکی دورے میں امریکہ سے حمایت لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔بلکہ معروف عربی روزنامے ‘‘الشروق ’’کے مطابق شاہ سلمان نے نائب ولی عہد کا عہدہ ہی امریکہ سے منظوری کے بعد تخلیق کیا تھا۔

قاہرہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانے کی خبر کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے،وہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی اہم تبدیلیاں کر چکے ہیں اور شاید ان کا مقصد بھی اپنے بیٹے کے لیے راہ ہموار کرنا ہی تھا۔لیکن شاہ سلمان اگر ایسا کوئی بھی قدم اٹھائیں گے تو پہلے اپنے خاندان کو ضرور اعتماد میں لیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شاہی خاندان میں اختلافات سے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورا خطہ متاثر ہو گا۔حسن نافعہ نے کہا کہ سعودی دستور میں یہ بات شامل ہے کہ بھائی کے بعد بھائی ولی بنے گا نہ کہ بیٹا۔شاہ سلمان اگر باپ کے بعد بیٹا والی روایت جاری کرنا چاہتے ہیں تو وہ آل سعود کے ‘‘اجماع’’ اور اتفاق رائے سے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محمد بن نائف امریکہ کے زیادہ قریب ہیں اس لیے تاحال امریکہ نے دونوں محمدوں میں سے کسی ایک کی بھی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا ۔بہرحال امریکہ کس کی حمایت کر رہا ہے اور کس کی نہیں یہ سوال اہم نہیں،اس سے زیادہ اہم سوال اس وقت شاہی خاندان کی وحدت کا ہے اور شہزادہ محمد بن نائف نے بجا طور پر ایک بیان جاری کیا ہے کہ ‘‘اس وقت مملکت کو داخلی وحدت کا چیلنج درپیش ہے’’۔اس لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے شاہی خاندان میں اتفاق رائے کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے ۔

شاہ سلمان سعودیہ کے بانی شاہ عبدالعزیز بن سعود کے آخری بیٹے ہیں،ان کے بعد تخت پر متمکن ہونے کے لیے کوئی نئی روایت ہی ڈالی جائے گی۔باپ کے بعد بیٹے کی بجائے اگر خاندان میں سے سب سے بہتر ،باصلاحیت اور امور سلطنت کے ماہر اور اہل فرد کے انتخاب کی روایت ڈالی جائے تو یہ سعودی استحکام اور ترقی کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے شاہی خاندان کی حد تک ہی سہی ایک گونہ جمہوریت بھی قائم ہو سکتی ہے۔اگرچہ شہزادہ محمد بن سلمان ہی زیادہ مضبوط امیدوار نظر آرہے ہیں لیکن یہ فیصلہ فرد واحد کی رائے پر موقوف ہونے کی بجائے خاندانی کثرت رائے پر ہونا چاہیے،اسی میں سعودیہ کا استحکام بھی پنہاں ہے اور خطے کی سلامتی بھی۔امید ہے کہ اس نازک موڑ پر خادم حرمین شریفین اور بیس ہزار شہزادوں پر مشتمل سعودی شاہی خاندان تدبر اور ہوشمندی سے کام لے گا۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...