کیا پاک ایران تعلقات میں کشیدگی کی وجہ ‘‘جنداللہ ’’ ہے؟
ایران کے انٹیلی جنس اور سیکورٹی عہدیداروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ جند اللہ کے پاکستان میں موجود سنی شدت پسند تنظیم ‘لشکر جھنگوی’ سے بھی روابط ہیں۔
پاکستان کی زمینی سرحدیں اپنے چار پڑوسی ممالک افغانستان، بھارت، ایران اور چین سے ملتی ہیں۔ایک ایسے وقت جب پاکستان کے افغانستان اور بھارت سے تعلقات کشیدہ ہیں، اسلام آباد کی یہ کوشش رہی ہے کہ تہران سے اُس کے روابط میں گرمجوشی رہے۔لیکن دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے منفی اثرات پاکستان اور ایران کے تعلقات پر بھی منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ سرحد لگ بھگ 1000 کلو میٹر طویل ہے اور اس وقت ایک ہی سرحدی راستہ تفتان ، میرجاوہ کھلا ہے۔لیکن دونوں ملکوں کے درمیان طویل سرحد کی مکمل نگرانی نہ ہونے کے سبب نہ صرف عسکریت پسند بلکہ جرائم پیشہ عناصر اور اسمگلر بھی دشوار گزار راستوں کو سرحد آر پار نقل و حرکت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں نے حملہ کر کے ایران کے 10 سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ حملہ شدت پسند تنظیم ‘جیش العدل’ نے میرجاوہ کے علاقے میں کیا۔
جہاں یہ حملہ کیا گیا وہ علاقہ پاکستانی سرحد سے لگ بھگ 75 کلو میٹر ایران کے اندر واقعہ ہے اور ایرانی حکام کے مطابق شدت پسند حملے کے بعد دوبارہ پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے۔
اس واقعہ پر ایران کی طرف سے غیر معمولی ردعمل دیکھا گیا، نہ صرف ایران میں تعینات پاکستان کے سفیر آصف درانی کو طلب کر کے اُن سے احتجاج کیا بلکہ ایران کے صدر حسن روحانی نے وزیراعظم نواز شریف کے نام ایک خط میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ ایرانی سرحدی محافظوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ‘‘ پراکسی وار’’یعنی درپردہ جنگ میں ملوث بعض ممالک کی وجہ سے عالم اسلام کی وحدت اور یکجہتی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ایسے ممالک دہشتگردی اور انتہاپسندی کی پشت پناہی کرکے خطے میں امن، خوشحالی اور ترقی کی جگہ تشدد، غربت اور عدم استحکام کو ہوا دے رہے ہیں.
اگرچہ ایرانی صدر کے بیان میں کسی ملک کا نام تو نہیں لیا گیا، لیکن بظاہر اُن کا اشارہ سعودی عرب کی جانب تھا، کیوں کہ اس سے قبل بھی دونوں ممالک کی طرف سے ایک دوسرے پر ایسے ہی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
لیکن یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا، بلکہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے 12 رکنی اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ بدھ کو پاکستان کا غیر معمولی ہنگامی دورہ کیا، اس دورے کے ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستان کی وزارت خارجہ میں تو کوئی ملاقات ہوئی اور ماضی کی طرح کوئی نیوز کانفرنس۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ سفارتی اُمور سے متعلق نہیں بلکہ سکیورٹی معاملات کے بارے میں، خاص طور پر سرحد کی نگرانی اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے سے متعلق تھا۔
ایران کے وفد نے وزیراعظم نواز شریف، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ساتھ ملاقاتوں میں اپنے ملک کے اس موقف کو دہرایا کہ پاکستان ایران سے ملحقہ اپنی سرحد کی نگرانی کو بڑھائے اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
ایران کی طرف اس معاملے میں سنجیدگی کی غمازی اس بات سے ہوتی ہے کہ وزیر خارجہ جواد ظریف کے ہمراہ پاکستان آنے والے وفد میں ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف بریگیڈیر جنرل غلام رضا محرابی، نائب وزیر داخلہ برائے سیکورٹی امور محمد حسین ذوالفقاری، سرحدی پولیس فورس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل قاسم رضائی اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے گورنر جنرل علی اوسط ہاشمی بھی شامل تھے۔
پاکستان کی طرف سے سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے اور دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان رابطوں کے لیے ‘ہاٹ لائن’کی بحالی پر اتفاق تو کیا گیا، لیکن محض یہ ہی کافی نہیں ہو گا۔کیوں کہ اگر صرف یہ ہی ضروری ہوتا شاید ایران کے اتنے بڑے وفد کو یہاں آنے کی ضرورت نہ ہوتی۔لیکن تعلقات کو بچانے کے لیے پاکستان کچھ نہ کچھ عملی اقدامات تو کرنے ہوں گے۔
یاد رہے کہ عسکری تنظیم جنداللہ نے 2003 کے بعد سے ایران میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جب کہ جند اللہ کی ذیلی شاخ ‘جیش العدل’ بھی ایرانی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔
جنداللہ میں شامل افراد کا تعلق ایران کی سنی بلوچ برادری سے ہے، ایران کا مؤقف رہا ہے کہ جند اللہ اور جیش العدل کے جنگجو ایران میں حملے کے لیے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہیں۔
عسکریت پسند تنظیم جند اللہ کے رہنما عبدالمالک رِیگی کو 2010 میں دبئی سے کرغزستان جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور پھر اُنھیں پھانسی دے دی گئی۔ بعد ازاں پاکستان نے عبدالمالک ریگی کے ایک قریبی ساتھی عبدالستار ریگی کو بھی گرفتار کیا۔پاکستان اگرچہ اس تنظیم کے خلاف کارروائی کرتا رہا ہے لیکن ایران بظاہر اس سے مکمل طور پر مطمعن نہیں۔
ایران کے انٹیلی جنس اور سیکورٹی عہدیداروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ جند اللہ کے پاکستان میں موجود سنی شدت پسند تنظیم ‘لشکر جھنگوی’ سے بھی روابط ہیں۔
شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بارے میں پاکستان سے ایران کا مطالبہ اپنی جگہ لیکن اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں بھی ‘جند اللہ’ اور اس کی شاخ ‘جیش العدل’کے ہمدرد یا سہولت کار موجود ہیں، کیوں کہ اس کے بغیر ایرانی حدود کے کافی اندر تک جا کر عسکریت پسندوں کے لیے کارروائی کرنا آسان نہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے بھی کچھ تحفظات ہیں، جہاں ایک طرف پاکستان کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا کہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیا بھارتی انٹیلی جنس ‘را’ کے افسر کلبھوشن یادو ایران میں کچھ عرصہ قیام کے بعد پاکستان میں داخل ہوا وہیں کراچی کے ایک ‘‘گینگ وار’’ سرغنہ عزیر بلوچ کے ایران کے سفر کا بھی چرچا رہا۔
سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیاں اپنی جگہ لیکن دو پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ سعودی قیادت میں قائم مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی کمان کے لیے پاکستان کی طرف سے اپنی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کو سعودی عرب جانے کی اجازت دینا بھی ہے۔
پاکستان کی طرف سے بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جو ایران کے مفاد کے خلاف ہو۔جب کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے بھی گزشتہ ہفتے ایران کے دورے کے موقع پر اسی بات کی یقین دہانی کروائی۔
لیکن ایک بڑا سوال اب بھی باقی ہے، کیا پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان دوریاں کم کر سکے گا؟ اور کیا راحیل شریف اتنے با اختیار ہوں گے کہ از خود عسکری اتحاد سے متعلق فیصلہ کر سکیں؟خاص طور پر ایک ایسے وقت جب سعودی عرب کے نائب ولی عہد نے رواں ہفتے ہی ایک انٹرویو میں ایران کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کے امکان کو رد کیا۔
31 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ‘‘سب سے بااختیار’’ نوجوان شخصیت ہیں اور اُنھوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ایران ‘‘اسلامی دنیا کا کنٹرول’’حاصل کرنا چاہتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد سے کشیدہ ہیں۔ ایران اور مشرق وسطیٰ کی دیگر شعیہ اکثریت والے ممالک بشمول شام اور عراق سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد میں شامل نہیں۔پاکستان کے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں اور اس وقت حکومت پر یہ دباؤ ضرور ہے کہ وہ نازک صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی کسی پالیسی سے کسی ایک جانب جھکاؤ کا شائبہ نہ ملے۔
فیس بک پر تبصرے