صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
محترمہ کلثوم نواز مرحومہ کی نماز جنازہ میں عوام کی کثیر اور سیاسی خواص کی وسیع الجہت شرکت کے باعث سماجی رویوں اور پھر سیاسی حرکیات میں تبدیلی کا استعارہ بنا دیا گیا ہے چنانچہ دوسری جانب سے نئی صف بندی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔نیب نے جمعہ کے روز(14ستمبر) کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں اپنے دلائل سے گریز کیا تھا ، اس کا جواز جو بھی تھا لیکن نیب پراسیکیوٹر نے سوموار(17 ستمبر) کو دو گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کرلینے کی واضح یقین دہانی کرائی تھی مگر نئی صف بندی کے مطابق ہفتے کے روز(15ستمبر) کو نیب نے سپریم کورٹ میں متذکرہ صدر سماعت کے خلاف رٹ پٹیشن جمع کرادی ہے جس میں اسلام آباد میں زیر سماعت مقدمے کی سماعت روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
معاملہ انتہائی نازک ہے اور معزز عدلیہ کے زیر سماعت بھی ہے اس حوالے سے تبصرہ کرنا مناسب تو نہیں مگر چونکہ درپیش مقدمہ خالصتاً ملکی سیاست کو متاثر کررہا ہے لہٰذا اس اعتبار سے سماجی سطح پر اس کے امکانات بارے قیاس آرائی کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔
نیب کے نئے موقف کو محترمہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ کے ساتھ جوڑنے کی منطق بھی یہی ہے کہ نیب نے قبل ازیں اختیار سماعت کو چیلنج نہیں کیا تھا۔یہ درست ہے کہ ہائیکورٹ کے معزز بنچ کے روبرو اعتراض اٹھایا گیا لیکن وہ جناب جسٹس اطہر من اللہ کی موجودگی پر تھا کہ چونکہ وہ(جناب جسٹس) وکلا تحریک میں ملزم نواز شریف کے ہم رکاب رہے ہیں لہٰذا نیب نے ان کی غیر جانبداری پر شبہ کا اظہار کیا تھا۔
جناب جسٹس اطہر من اللہ نے یہ اعتراض معقول دلیل کے ساتھ مسترد کردیا تھا کہ’’احتساب عدالت کے جج بھی بحیثیت وکیل اسی تحریک میں شامل تھے جن کے فیصلے کو نیب تسلیم کررہی ہے‘‘۔
اختیار سماعت بارے بھی کچھ جزوی نکتہ اعتراض اٹھایا گیا تھا مگر اب مقدمہ اس مرحلے میں ہے جب نیب پراسیکیوٹر اپنے حتمی دلائل17ستمبر کو مکمل کرنے والے تھے۔اس دوران سپریم کورٹ سے رجوع کے معنی بدل گئے ہیں۔
قرین قیاس امکان یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے زیر حراست ملزمان کی ممکنہ رہائی کا تاثر پیدا ہورہا تھا جبکہ اسی دوران محترمہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں عوامی و سیاسی قائدین کی بکثرت شرکت نے واضح کردیا ہے کہ تمام تر مقدمات کے باوجود نواز شریف کی عوامی،سیاسی ساکھ نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔
دریں حالات اگر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز،جو احتجاج و مزاحمتی سیاست کی پرعزم علامت بن کر ابھر رہی ہیں اگر اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر عوام کے ساتھ رابطہ مہم شروع کردیں تو کیا اس کے اثرات ان تمام کاوشوں کیلئے متحمل ہوسکتے ہیں جو گزشتہ سال سے بالخصوص اور2013ء کے بعد سے بالعموم با اہتمام پایہ تکمیل تک پہنچائے جاچکے ہیں؟
میرے خیال میں اس سوال کا جواب نفی کے علاوہ ممکن نہیں۔سو میں اس قیاس آرائی سے یہ نتیجہ اخذ کررہا ہوں کہ نواز شریف و مریم کی رہائی کے سامنے ریاست پھر دیوار بن رہی ہے۔اس دیوار کی قانونی شکل بظاہر تو موجود ہے لیکن احتساب عدالتی فیصلے اور ہائیکورٹ کے معزز بنچ کے سوالات کے تناظر میں منہدم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔اخلاقی بنیاد بہت سے دیگر عوامل کی بنیاد پر بہت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب آئندہ واقعات کس سمت آگے بڑھیں گے؟
ممکن ہے کہ سپریم کورٹ نیب کی استدعا کو پذیرائی بخشے اور یوں ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کی کارروائی رک جائے تاہم صورتحال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے،علاوہ ازیں مقدمے کا التوا منفی اثرات بھی مرتب کرسکتا ہے۔
ثانی الذکر صورتحال میں ہائی کورٹ اپنے قانونی تقاضے نبھائے گی اور نیب کو پابند کرے گی کہ وہ عدالت کے روبرو اپنے دلائل پیش کرے بصورت دیگر معزز عدالت یکطرفہ کارروائی آگے بڑھانے کی مجاز ہے۔17ستمبر کے دن کے اجالے میں مذکورہ قانونی مخمصہ واضح ہو جائے گا اور جبکہ اسی شام نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر پیرول پر اپنی رہائی کی مدت مکمل کرکے شام4بجے اڈیالہ جیل کی طرف جارہے ہوں گے۔ڈھلتے سورج میں یہ منظر مزید کربناک دکھائی دے رہا ہوگا۔
اگر حالات میں کوئی بڑی تبدیلی(سپریم کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں) نہیں آتی اور ہائی کورٹ مقدمے کی سماعت مکمل کرکے اپنا فیصلہ صادر کردیتی ہے نیز ایک امکانی قیاس آرائی کے طور پر فرض کریں کہ معزز عدلیہ سزا معطل کردیتی ہے تو پھر سیاسی اعتبار سے کیا منظر بنے گا؟اس پہ بات کرتے ہیں لیکن آگے بڑھنے سے پیشتر ایک دوسرے ممکنہ سیاسی منظر نامے کو بھی بحث کا حصہ بنا لیتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے سربراہ سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری آج16ستمبر کو جاتی امرا جائیں گے جہاں وہ شریف فیملی سے اظہار تعزیت کریں گے اور انہیں پرسا دیں گے۔ان کے صاحبزادے اور پی پی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔پارٹی کے چند دیگر قائدین کی موجودگی بھی ہے۔جناب زرداری چند مقدمات اور بعض دیگر اسباب کی وجہ سے اس وقت زیرِ عتاب دکھائی دے رہے ہیں اور یہ بات بھی قومی مباحثے میں سامنے آچکی ہے کہ بعض اہم سیاسی معاملات پر پی پی کے متنازعہ فیصلوں کا سبب یہی دباؤ رہا ہے۔چنانچہ ریاستی طاقت کے دباؤ کا شکار ملکی سیاست کے دو اہم اور مرکزی قائد یقیناًتعزیتی ملاقات کو باہمی مشاورت کیلئے میسر آنے والے ان لمحات کو موثر طور پر بروئے کار لائیں گے۔اس بات کا امکان قیاس کیا جاسکتا ہے کہ تعزیت اور پرسے کا یہ موقع دونوں جماعتوں کے درمیان پارلیمانی اور جمہوری سیاست میں باہمی تعاون و اعتماد کا وسیلہ بن سکے۔اگر ایسا ہوا تو پھر پارلیمنٹ میں متحدہ حزب اختلاف کے قیام اور اس کے امکانی نتائج کا وسیع منظر کھل سکتا ہے جو جلد یا بدیر پورے سیاسی منظر نامے کو بدل بھی سکتا ہے۔
ادھر دوسری بات جہاں بحث کا مرحلہ عدالتی فیصلوں کے امکانی پہلوؤں کے سیاسی اثرات میں داخل ہوا تھا،کہا جاسکتا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ اگر وہ ملزمان کے حق میں سامنے آتا ہے تو ایک نئے سفر کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
یوں امکان ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اور مریم عدالتی حکم پر اڈیالہ سے رہا ہوں اور وہ ایک دن اسلام آباد میں بغرض آرام قیام کے بعد یا پھر براہ راست اڈیالہ جیل سے رہائی ملتے ہی جی ٹی روڈ کے ذریعے ایک بار پھر لاہور جانے کا فیصلہ کریں تو اس بار ان کے مزاحمتی بیانیے کا انداز اور مواد پہلے سے زیادہ واضح،جوشیلا اور پرعزم ہوگا کیونکہ اب ان کے سامنے کھونے کیلئے کچھ نہیں رہا اور پانے کیلئے سب کچھ ممکن ہے۔مگر کیا طاقت و اختیار کے مالک ایسے کسی دن کو طلوع ہونے کی اجازت دیں گے؟ اسی لیے میں نے نئی ریاستی صف بندی کی بات ابتدائی سطور پر لکھی تھی۔
فیس بک پر تبصرے