مالک مکان،موبائل اور مبدائے عشق
’’اچھا سنو ! بندے میں تین ‘کوالیٹز ’ہونی چاہئیں۔ نمبر ایک دولت مند ہو (اپنا پرسنل موبائل ہو) نمبر دو تھوڑا بے وقوف ہو اور نمبر تین ‘‘ٹھرکی’’ہو۔ چالاک نہیں ہونا چاہیے
ویسے تو مالکان مکان کا وجود کسی بھی شہر کے ’’بے خانماں آباد’’ کرایہ داروں کے لیے نصیب کی چند سخت آزمائشوں میں سے ایک ہے لیکن اسلام آباد اس حوالے سے دیگر شہروں پر ایک خاص فوقیت رکھتا ہے۔ اسلام آباد اپنی کچی عمر کے باوجود شہروں میں ایک شہریار اور دارالخلافوں میں ایک ‘‘ دارالخلیفہ’’ ہے۔ یہ پاکستان کے ایسے ہزاروں پڑھے لکھے،قابل ،با شعور ، با روزگار، خوش ادا اور خوش پوشاک نوجوانوں کا مسکن ہے جنہیں سکونت کے لیے سرکاری کواٹروں کےایسےمسکین سے کمرے میسر آئے ہیں جو سرکار نے انہیں الاٹ نہیں کیے۔ اپنی ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی رہائش گاہوں میں وہ خود تو اپنے آپ کو چور چور سا محسوس کرتے ہی ہیں لیکن اس سے زیادہ دل آزاری کی بات یہ ہے کہ ان کے وہ مالک مکان بھی انہیں چوروں کی طرح ہی چھپا کر رکھتے ہیں جن کے لیے یہ الاٹ شدہ کوارٹر کم تنخواہوں میں زیادہ آمدن کی عجیب سی معاشی مساوات تشکیل دیتے ہیں۔
کرایہ دار ہونے کا تجربہ اگر سی وی (CV) پر کوئی وزن رکھتا تو اسلام آباد میں اپنے چھ سالہ تجربے کی بدولت میں اب تک ضرور کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے مشکل پسند ایگزیکٹو کی نظر میں آ چکا ہوتا اور کرایے داری سے مالک مکان تک کی مشکل منزلیں آسانی سے سر ہو چکی ہوتیں۔ لیکن کیا کریں کہ ہمارے ہاں تجربہ تجربہ شمار نہیں ہوتا۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ کبھی کبھی،خاص کر جب اخلاقیات کا غلبہ ہو، مالک مکان بننے کی خواہش سےبھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں قیامت کے روز اس گروہ میں نہ اٹھایا جاؤں جن کے سروں پر کرایہ داروں کی زخمی اناؤں کی موم پگھل رہی ہو اور جن کے سینوں میں بند کمروں کا حبس ٹھہر گیا ہو۔ اس سے پہلے کہ یہ غیبت طویل ہو جائے اور میں کرایہ دار ہونے کے باوجود آخرت میں اپنے اجر سے محروم رہ جاؤں میں اس اصل قصے کے بیان کی طرف آتا ہوں جس میں مجھے انسان کی بعض انوکھی صلاحیتوں کا کچھ ادراک ہوا ہے۔
گزشتہ چھ سالوں میں پچھترویں مرتبہ کرائے کے نئے کمرے میں شفٹنگ کے بعد رات کو میں بوجھل دل ، بوجھل قدموں اور جھلائے ہوئے ذہن کے ساتھ ایک خوبصورت فٹ پاتھ پر اس ارادے کے ساتھ چلا جا رہا تھا کہ قریب ہی کسی چھپر کانٹی نینٹل میں دال یا سبزی کے ساتھ ڈنر کیا جائے۔ حسن اتفاق سے قریب کی ایک مارکیٹ میں ایک ڈھابے کے سامنے ایک صاف ستھری سی پلاسٹک کی میز نظر آئی جس کے ارد گرد چار کرسیوں میں سے ایک خالی تھی۔ باقی کرسیوں پر تین خوش پوش نوجوان چائے کی چسکیوں کے درمیان خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ میرے وہاں بیٹھنے پر چند لمحوں کے لیے انہوں نے رک کر میری بے ضرر شخصیت اور اکتاہت بھرے انداز کا جائزہ لیا اور پھر مطمئن ہو کر اپنی گفتگو کا سلسلہ اسی طرح لیکن قدرے دھیمے انداز میں دوبارہ شروع کر دیا۔ کھانا آنے تک اگرچے مجھے ان کی چائے کی چسکیوں میں چٹخارے کا پہلو دکھائی پڑا لیکن اس وقت مجھے اپنے شکم کی آگ بجھانے کے سوا کسی چیز سے سروکار نہ تھا۔ کھانے کے تین بے ذائقہ لقموں کے بعد اچانک مجھے کھانے میں ذائقہ اور بے زاری میں کمی محسوس ہونے لگی لیکن دراصل یہ لذت کھانے میں نہ تھی بلکہ ان الفاظ میں تھی جو آہستہ آہستہ میرے کانوں میں پڑنا شروع ہوئے۔
اس طرح کسی کی باتوں پر کان لگانا اچھی بات نہیں لیکن اگر میرے لیے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر کھانا کھانا ممکن ہوتا تو شائد میں اس جرم کا مرتکب نہ ہوتا۔ دراصل میرے قریب بیٹھے دو نوجوان اپنے تیسرے ساتھی سے جس سے وہ بڑے مرعوب نظر آ رہے تھے کوئی ترکیب پوچھنے پر اصرار کر رہے تھے ۔ اور تیسرا انہیں سمجھا رہا تھا کہ ‘‘ دیکھو بھائیو! اللہ تعالی نے ہر بندے میں کوئی نہ کوئی خاص صلاحیت رکھی ہے اور ہر بندے کو دوسرے بندوں کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور کچھ بندوں پر تو اس نے دوہرا کرم کیا ہے کہ انہیں دولت سے بھی نوازا ہے اور ساتھ ہی ان میں تھوڑی سی بے وقوفی بھی پیدا کر دی ہے تا کہ ان سے دیگر لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا رہے ’’۔ میں اس نوجوان کی فراست سے بڑا متاثر ہوا لیکن میں نے کھانے سے سر اس لیے نہیں اٹھایا کہ مبادا وہ سمجھیں کہ میں کھانے کے بجائے ان میں یا ان کی گفتگو میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہوں۔ اسی اثناء میں اس ذہین و فطین نوجوان کے ہاتھ میں موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ پھر فوراً ہی ایک لڑکی کی دبی دبی سی آواز آئی، ‘‘ہیلو! ارے آپ، ذرا ٹھہریے، میں ابھی تھوڑی دیر میں خود آپ کو فون کرتی ہوں، دراصل کچھ گیسٹ بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہاں اچھا، بس تھوڑی دیر’’۔ میں نے اچانک حیرت سے سر اٹھایا کہ کہیں اس نوجوان نے اپنے کان کے بجائے میرے کان کے ساتھ تو فون نہیں لگا دیا۔ لیکن ایسا کچھ نہ تھا بلکہ وہ ہاتھ لمبا کر کے دوسرے دوستوں کو فون پر آیا ہوا نمبر دکھا رہا تھا۔ اور وہ دونوں اپنی آنکھوں میں انجانی خواہشوں کے دیپ اور ہلکا سا رشک لیے موبائل سیٹ پر جھکے ہوئے تھے۔ اچانک مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ نسوانی آواز فون میں سے نہیں بلکہ اس نوجوان کے منہ سے نکلی تھی جو دو مریدوں میں پیر بنا بیٹھا تھا۔ میرے لیے یقیناً یہ حیرت کی بات تھی کہ کوئی شخص اتنی کامیابی سے زنانہ آواز میں بھی بات کر سکتا ہے۔
نوجوان دوبارہ گویا ہوا: ‘‘یہ شخص میرا پرانا جاننے والا ہے۔ یہ روزانہ دن میں مجھے اپنی محبوبہ کے قصے سناتا ہے۔ اس کے فراق میں آہیں بھرتا ہے، اس کی دلربائی کے فسانے تراشتا ہے ، اس کی وفا شعاری کی قسمیں کھاتا ہے، اس سے ہونے والی گفتگوئیں حرف بہ حرف سناتا ہے اور روزانہ شام کو فون پر مجھے اپنے دل وحشی کا حال سناتا ہے، اپنی بے تابی کے واسطے دیتا ہے، جلد از جلد اپنا لینے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے’’۔ رفتہ رفتہ مجھے سمجھ آنے لگی کہ اصل قصہ کیا ہے۔ بات اتنی دلچسپ تھی کہ میں لقموں کے ساتھ ساتھ اپنے قہقہے بھی چبا رہا تھا۔ کھانے کی رفتار میں نے آہستہ کر دی تھی اور میری پوری توجہ ان کی باتوں کی طرف ہو گئی تھی۔ اس کا ایک دوست حسرت سے کہہ رہا تھا ‘‘یار ہم سے تو ایک لڑکی نہیں پھنستی اور تم پتہ نہیں کتنوں کو بے وقوف بنا چکے ہو۔ یار ایک موبائل کا کارڈ ہمیں بھی دلا دو کہیں سے ۔’’
میرا کھانا ختم ہو چکا تھا اور میں نے اب ایک کپ دودھ پتی کڑک کا آرڈر دے دیا تھا۔ پیر دوبارہ اپنے مریدوں سے کہنے لگا: ‘‘ سنو کوئی بندہ تلاش کرو۔ بندے میں ‘تین کوالیٹز ’ہونی چاہییں۔ پھر تم میرا کام دیکھو، تمہارے موبائل میں خود بہ خود کارڈ پنچ ہو جایا کرے گا۔ کوئی بندہ ایک یا دو دفعہ سے زیادہ ذبح نہیں ہوتا۔ میں نے ایک بندے کو چار دفعہ ذبح کیا۔ مانتے ہو پھر‘‘۔ دونوں نے بیک وقت اثبات میں سر ہلایا ’’اچھا سنو ! بندے میں تین ‘کوالیٹز ’ہونی چاہییں۔ نمبر ایک دولت مند ہو (اپنا پرسنل موبائل ہو) نمبر دو تھوڑا بے وقوف ہو اور نمبر تین ‘‘ٹھرکی’’ہو۔ چالاک نہیں ہونا چاہیے۔ اس کام میں بڑے بڑوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مجھے ایسے ایسے بندے بھی ملے ہیں جن کا 20،20 سال کا تجربہ تھا۔ جب وہ نمبر ڈائل کرتے ہیں تو مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس طریقے سے گھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک سے ایک فنکار پڑا ہے ۔ ایسے ایسے داؤ ہیں ان کے پاس کہ لڑکیاں کچے دھاگے سے بندھی آتی ہیں۔ میں انہی سے حربے سیکھتا ہوں اور پھر انہی پر آزماتا ہوں ۔
بڑےبڑے بے وقوف بھی ہیں۔ ایک بندے کو میں نے ایسا پھنسایا کہ بالکل لٹو ہو گیا۔ چالیس سے اوپر عمر ، موٹا، گنجا، توند نکلی ہوئی، چار بچوں کا باپ، کچھ عرصہ فون پر وہ مجھے لڑکی سمجھ کر اپنی شریف نفسی اور شیریں دہانی سے رجھانے کی کوشش کرتا رہا۔پھر ایک دن مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے کہا کہ باقاعدہ ملاقات تو مشکل ہے البتہ تم فلاں تاریخ اور وقت پر زیروپوائنٹ آ جانا ۔ میں وہاں سے گزروں گی تو مجھے دیکھ لینا۔ یہ بھی بتایا کہ میں نے کیسا لباس پہنا ہو گا اور کیا نشانی ہو گی۔ میں نے ساتھ ہی اپنی ‘‘فلاں’’دوست کو شرارت سمجھائی کہ اس کے پاس سے تھوڑی سی سمائل دے کر چلی جائے۔ میں خود بھی وہاں پہنچ گیا۔ دیکھا کہ خوب کلف شلف لگا کر ، بالوں کو کلر کر کے، چمک دمک کے آیا۔ لڑکی اسے سمائل دے کر تیزی سے گزر کر آگے کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی‘‘۔ میری چائے میں میٹھا تیز تھا لیکن میرا دھیان تو کسی اور طرف تھا ۔۔۔۔’’ بس جناب وہ تو پاگل نہ ہو گیا۔ شام کو مجھے دے فون پہ فون۔ کہنے لگا میں فوراً شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں پہلی بیوی کو طلاق دے دوں گا۔ علیحدہ گھر لے کر دوں گا۔ اسے تو جناب چین ہی نہ آئے ۔ میں نے سوچا یار اس حد تک نہیں جانا چاہیے، بندے کو اتنا ہی مارنا چاہیے جتنی اس میں جان ہو ’’۔ بہت ضبط کیا لیکن بالآخر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ ان میں سے ایک دوست بولا: ‘‘ یار دیکھ بھائی ہوری وی ہنس پئن’’۔ میں نے کہا یار آپ لوگ بہت دلچسپ باتیں کر رہے ہیں۔اور پھر دوبارہ اپنی چائے کے سپ لینے لگا۔ جیسے مجھے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ چند منٹ وہ تینوں وہاں بیٹھ کر ہنستے اور اٹھکیلیاں کرتے رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ اس تجربے کا المناک پہلو اپنی جگہ لیکن اگر مجھے رہائش تبدیل نہ کرنا پڑتی اور یہاں قریب کی مارکیٹ میں اس ہوٹل پر آکر میں کھانا نہ کھاتا تو شائد میں زندگی کی رنگارنگی کے اس پہلو سے اور انسان کی ان خفیہ صلاحیتوں سے، جو بیدار ہو جائیں تو بہت ستم ڈھاتی ہیں، نجانے کتنا عرصہ مزید نا آگاہ ہی رہتا۔ چنانچہ برائی سے بھلائی اور اندھرے سے روشنی پیدا ہونے کے ایک امکان کے تحت میں مالکان مکان کے بارے میں تمام گفتنی و نا گفتنی واپس لیتا ہوں۔ اور ان سب کی مغفرت کے لیے دعاگو ہوں۔
فیس بک پر تبصرے