ناکامی کچھ نہیں ہے
انسان اپنے طے کردہ ہدف کو حاصل نہ کر پائے تو اسے”ناکامی” کا نام دیتا ہے۔ انسان اپنے ارادوں سے اپنی ایک دنیا تخلیق کرتا ہے،اس کے بالکل عین مطابق،جب وہ حاصل نہیں کرپاتا تو اِسے ناکامی کا نام دے دیتا ہے ۔۔ایسے مقام پہ حضرت علیؓ کا یہ قول خوب سمجھ آتا ہے”میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ”۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،انسان اس زخم کو بھول بھی جاتا ہےجسے ناکامی سمجھ کر کچھ عرصہ غمگین و دکھی رہتا ہے،”ناکامی” کی شدت دل سے اترہی نہیں جاتی بلکہ وہ خیال کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اُس سے کہیں بہترانتخاب، راستہ یا منزل اُسےعطا کی گئی ہے۔
علامہ اقبال سے متعلق یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کی سول سروس آئی سی ایس کا امتحان پاس نہ کر سکے تھے، یقیناً علامہ اقبال آئی سی ایس امتحان میں کامیاب نہ ہونے پہ دل گرفتہ ہوں گے لیکن قدرت نے اُن کے لیے کیا فیصلہ کر رکھا تھا اُسے آج اُن کے مقام و مرتبہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔
ایسی تاریخ میں بہت سی شخصیات ہیں جن کی زندگی پہ ایک ”ناکامی” نے ترقی و کامیابی کے دروازے کھول دئیے۔ میٹرک میں انگلش کے مضمون میں ایک کہانی تھی جس میں بادشاہ کو پے درپے ناکامی ہوتی ہے وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے لیکن وہ ایک مکڑی کو دیکھتا ہے جو بار بار گرنے کے باوجود چڑھنے کا ارادہ ختم نہیں کرتی آخر کار وہ کامیاب ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد، بادشاہ نے بھی عزم و ہمت کے ساتھ دشمن پہ حملہ کیا اور کامیاب ہو گیا۔
ناکامی فقط ایک صورت میں واقعی ناکامی کہلاتی ہے جب انسان عزم و ہمت اور حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے۔ تاریخ رقم نہیں کرتا۔ تاریخ رقم وہی کرتے ہیں جنہیں شکست اوربعض اوقات پے درپے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے قائداعظم محمد علی جناح کہتے تھے میری ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہے۔ مشکل کا لفظ ڈکشنری سے مٹایا نہیں جا سکتا لیکن عزم و استقلال سے مشکل کوآسان کیا جا سکتا ہے۔ شورش کاشمیری اور مولانا عبدالستار خان نیازی قادر الکلام خطیب تھے۔ وہ بھی پہلی بار سٹیج پر تقریر کرنے سے گھبرائے تھے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کے بارے میں ہے کہ وہ پہلی بار سٹیج پر نام پکارنے پہ غائب ہو گئے تھے لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے لاکھوں کے مجمع سے بھی خطاب کیا۔ حادثاتِ زندگی کی وقوعِ پذیری میں زمانے کی پرورش سال ہا سال پہ محیط ہوتی ہے۔
انسان مسلسل آگے قدم بڑھانے سے تھک بھی جاتا ہے قدرت اس کے لئے ”آرام کا وقفہ” بھی مقرر کرتی ہے۔بعض اوقات ہم اُس وقفے کو ناکامی کا نام دےدیتے ہیں حالانکہ وہ ناکامی نہیں بلکہ اپنے حوصلے اور اوسان کو مجتمع کرکے،منصوبہ بندی کرنے کا وقت ہوتا ہے۔۔
مذہب نے بھی کامیابی کا ایک معیار مقرر کیا ہے اور وہ ”جہنم کی آگ سے دوری اور جنت میں داخلہ” ہے۔ اس کامیابی کا انحصار ایمان و عمل پہ ہے۔ حقیقی کامیاب شخص وہ ہے جو عطا کردہ زندگی میں خدا اور بندگانِ خدا کے حقوق کا خیال رکھے کسی انسان کے لئے اذیت و تکلیف کا باعث نہ بنے ۔ خدا نے بھی اپنی رضا اور خوشنودی اپنے بندوں کو راحت اور سکون پہنچانے میں رکھ چھوڑی ہے۔ایک طرف پیغمبرانِ خدا ہیں جن کی نبوی مساعی کے لیے ہم ناکامی کا لفظ نہیں بول سکتے کیونکہ اُن کے نتائج بتاتے ہیں کہ وہ کامیاب ہیں۔ دوسری طرف ان ہی کے دور کے دشمنانِ خدا ہیں جن کا انجام بتاتاہے کہ وہ ناکام انسان ہیں۔کامیابی و ناکامی میں زندگی کے چند حادثات اہمیت نہیں رکھتے اس معرکہ میں ہمیشہ انجام دیکھا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ نے انبیاء کرام اور دشمنانِ دین کے انجام کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ کامیاب کون ہے؟
مذہب دنیوی کامیابی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انسان کو وہ ماحول مہیا کرتا ہے جو اس کی دنیوی ترقی کا ضامن اور اس کا وسیلہ ہے۔ مذہب اِن جذبات وارادے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جب کامیابی نخوت،تکبر اور دوسروں کی تحقیر کا سبب بنے۔بالفاظ دیگر، جب کامیاب انسان خود کو خدا سمجھ بیٹھے۔ یہ وہ آغاز ہے جس کے اختتام سے پہلے زمین اور زمین پر رہنے والے لوگ اس کامیابی کی بہت بڑی قیمت تخریب وفساد کی صورت میں ادا کر بیٹھتے ہیں۔ ناکامی کو آزمائش اور کامیابی کو خدمت کا ذریعہ خیال کیا جائےتو دنیا و آخرت کی کامیابی کا اس سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔
فیس بک پر تبصرے