راولپنڈی کے پارسی محسنین
کولونیل عہد کے دوران برصغیر کی پارسی برادری ملک کے ہر کونے میں پھیل گئی ۔ قسمت کے متلاشی کے یہ لوگ ہندوستان کے ترقی پذیر شہروں میں آباد ہوئے ۔ برطانوی ہند کے مختلف شہروں اور ان کی ثقافتوں میں ضم ہوتے ہوئے بھی ان لوگوں نے اپنے ساتھ اپنی منفرد بنیاد، رہن سہن اور عقائد کو ترک نہیں کیا ۔ یکلخت ایسی بہت سی عمارات تعمیر ہوئیں جو آج انہی پارسیوں کی میراث کہلاتی ہیں ۔
یہ جہاں کہیں بھی آباد ہوئے انہوں نےاپنی عبادتگاہیں ، مرنے والوں کے لئے مینار خموشاں اور قبرستان تعمیر کئے ۔ تقسیم کے بعد اس پھیلی ہوئی برادری کے آثار مٹنے لگے ۔ جنوبی ایشیا کی پارسی برادری آج بہت مختصر رہ گئی ہے اور معدوم ہوتی جارہی ہے ۔ وہ ایک حوالہ جس کے سبب اس برادری کی شناخت آ ج بھی باقی ہے وہ اس کے مخیر حضرات کی جانب سے بنائے گئے خیراتی ادارے ہیں جنہوں نےآج بھی ان کے نام زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔
انہی میں سے ایک نام کوموریڈ فقیر جی دھن جی بھائے کا بھی ہے جو راولپنڈی اور لاہور میں ایک مشہور شخصیت تھے ۔ ان کی شخصیت سے متعلق تلاش کے میرے تین سال اس وقت ختم ہوئے جب میری ملاقات عادل جساوالہ سے ہوئی ۔ میرے لئے یہ بہت حیران کن امر تھا کہ وہ شاعر اور مصنف جس کی تحریروں اور شاعری کا میں ایک عرصے سے دلدادہ تھا ان کا دھن جی بھائے سے گہرا تعلق تھا اور میں اس سے بے خبر تھا ۔
اس کے متعلق میں بعد میں بیان کرتا ہوں ۔
راولپنڈی کی پارسی میراث کو محض ان کے قبرستان تک محدود نہیں کیا جا سکتا اگرچہ یہ ڈیڑھ صدی سے بھی زائد پر محیط ایک اہم مقام ہے اور ان کے عہد رفتہ کی ایک بڑی یادگار ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس شہر کے اکثر باسیوں کے لئے مری روڈ پر موجود یہی جگہ راولپنڈی کے پارسیوں کی واحد میراث کے طور پر باقی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان لوگوں کے لئے یہ ایسا ہی ہو اور کیونکہ اس برادری اور اس سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے جو خدمات راولپنڈی کے لئے انجام دیں ان کے متعلق آج کے لوگوں کے لئے زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں ۔ ہم کوموڈور دھن جی بھائے جیسی ہستیوں کے متعلق بات کررہے ہیں ۔
وقت گزر چکا ہے ۔ وہ ورثہ جو کبھی یہاں تھا اب نئی تعمیرات کے ساتھ بدل چکا ہے اور پرانی جگہوں کے نام سماجی ، سیاسی اور مذہبی وجوہات کی بناء پر تبدیل کردیئے گئے ہیں ۔
یہ ایسا ہی ہے کہ اگر آپ ہاتھی چوک اور بابو محلہ میں ٹہلنے کو نکلے ہوئے ہوں تو آپ یہ شناخت نہیں کرسکتے کہ یہ جگہ کبھی بنگالی بابوؤں کا رہائشی علاقہ ہوتی تھی۔یہ اس چھاونی کے آس پاس کاروباری مرکز تھا جسے برطانوی راج نے ستلج کے پار (آج کا پنجاب) اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد 1849 میں بنایا تھا ۔ چھاونی کے آس پاس موجود یہ اس شہر کی ابتدا تھی ۔
آج یہاں کے بہت سے مقامی لوگ میسی گیٹ کے بارے میں جانتے ہیں لیکن کرنل میسی کے متعلق کم ہی لوگوں کو کچھ علم ہوگا ۔ اور کوموڈور فقیر جی دھن جی بھائے اور ان کی لائبریر ی کے متعلق تو کسی کو کچھ علم نہیں کہ وہ اس گیٹ کے عین اوپر واقع تھی ۔
میسی گیٹ کہاں تھا ؟
میرے سوال کے جواب میں راولپنڈی کے ایک عمر رسیدہ شہری نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے سڑک کے ایک کونے کی جانب اشارہ کیا ۔ اس کے پاس اس گیٹ کا ایک پرانا فریم شدہ فوٹو بھی تھا اور اس نے مجھے شہر کی اس تاریخی جگہ کے متعلق مقامی کہانیاں بھی سنائیں ۔ عین اس جگہ جہاں کبھی میسی گیٹ قائم ہوتا تھا وہاں اب اس کی تعمیراتی باقیات کا کوئی حصہ موجود نہیں تھا ۔ اب شائد اس کو آدھ صدی ہوچلی ہے جب اس گیٹ کو مسمار کردیا گیا ۔ لیکن پاس کے بازار میں آج بھی اس گیٹ کی نشانیاں نظر آجاتی ہیں ۔ دکانوں ، بینکوں اور دیگر عمارات پہ درج پتے اس گیٹ کا عندیہ دیتے ہیں ۔ میسی گیٹ، صدر ، راولپنڈی
یہ گیٹ 1880 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسے راولپنڈی شہر کے پہلے کمشنر چارلس میسی کے نام سے موسوم کیاگیا تھا ۔ یہ صرف ایک گیٹ ہی نہیں تھا بلکہ راولپنڈی کی تاریخ کا ایک باب تھا اور دلچسپی کا امر یہ ہے کہ یہ جگہ کتابوں کے شوقین علم دوست لوگوں کا بھی ایک مرکز تھی ۔ اس کے اوپر شہر کی پہلی عوامی لائبریری دھن جی بھائے جین پبلک لائبریری موجود تھی جسے شہر کے مشہور تاجر دھن جی بھائے نے قائم کیا ۔ جن کے ورثے کی مجھے تلاش تھی ۔
1845 میں جنم لینے والے دھن جی بھائے راولپنڈی کے مشہور تاجر اور مخیر تھے ۔ دیگر پارسیوں کی طرح ،پھلتے پھولتے شہروں میں کاروبار کے مواقع کی تلاش میں ، دھن جی بھائے راولپنڈی میں آباد ہوگئے۔
مقامی ثقافت کو جذب کرتے ہوئے اور اس دوران اپنے عقائد اور اجداد کی روایات کا تحفظ کرتے ہوئے باقی رہنا پارسیوں کی زندگی کا خاصہ تھا ۔ دھن جی بھائے کی شادہی بیگم اوند بائی سے ہوئی ۔ ان کے دوبیٹے ہورمسجی ہومی ور رستم جی کی وفات بچپنے میں ہی ہوگئی تھی ۔ ایک بیٹا اور تین بیٹے جوانی تک پہنچے۔ انہیں خان بہادر کا لقب ملا ۔ وہ اس کے بھی قریب تھے کہ انہیں اینگلو افغان جنگوں ، جنوبی افریقہ میں ہوئی بوئر جنگ اور چینی باکسر بغاوت کے دوران برطانوی راج کے ساتھ وفاداری نبھانے کے عوض سر کا خطاب مل جاتا ۔ انہوں تانگہ ایمبولینس ایجاد کی جس کی وجہ سے برطانوی راج کو دنیا بھر میں ہونے والی لڑائیوں کے دوران اپنے بہت سے فوجیوں کی جان بچانے کا موقع ملا ۔
تانگے ان کی کاروباری سلطنت کا اہم حصہ تھے : انہوں نے اپنے بیٹے سہراب دھن جی بھائے کے ساتھ مل کر اعلیٰ معیار کے تانگوں کی ایک کمپنی قائم کر رکھی تھی جو سامان اور خطوط کی ترسیل کا کام کرتی تھی جس کا نام دھن جی بھائے اینڈ سنز کو تھا ۔ یہ ان کی کاروبارمیں تخلیقی صلاحیت تھی جس کی وجہ سے راولپنڈی سے کشمیر کے دارلحکومت سری نگر تک کا 200 میل کا سفر آسان ہو گیا تھا۔ وہ سفر جسے طے کرنے میں 14 دن لگ جاتے تھے ان کی وجہ سے 24 گھنٹوں تک محدود ہوگیا تھا ۔ یورپی اور برطانوی مسافروں کی اکثریت کشمیر جانے کے لئے آسان رستہ اختیار کرتی تھی اور یہ رستہ وادی جہلم سے ہوکر جاتا تھا ۔ دھن جی بھائے کی کمپنی کے پاس رستے کی ہرطرح کی معلومات ہوتی تھیں اور وہ موسم کی صورتحال کا بھی درست تجزیہ رکھتے تھے ۔ سری نگر سے واپسی کے سفر میں بھی مسافر تانگے کی ایڈوانس بکنگ کرسکتے تھے اس مقصد کے لئے وہ دھن جی بھائے کی کمپنی کے سری نگر دفتر میں جا کے بکنگ کروا سکتے تھے یا بارہمولہ میں موجود ایجنٹ کو ٹیلیگراف بھیج سکتے تھے ۔
خان بہادر بھی ایک خاص شخصیت کے مالک تھے ۔ انہیں نت نئے انداز کی ٹوپیاں پہننے کاشوق تھا ۔ وہ ہندو ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ لاہور کے گورنر تھے ۔ وہ 25 سال تک مری میونسپل کمیٹی کے ممبر رہے اور 12 سال نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ ضلع راولپنڈی میں 9 سال تک فرسٹ کلاس پاورز کے ساتھ اعزازی مجرسٹریٹ کے عہدے پر فائزرہے ۔ اور انہیں کلکتہ لائٹ ہاؤس کا اعزازی طور پر تاحیات ممبر بنایا گیا تھا اسی لئے ان کے نام کے ساتھ کوموڈور لگتا ہے ۔
انہوں نے خان بہادر کے علاوہ بھی بہت سے اعزازات حاصل کئے ۔ انہیں ہندوستان میں آرڈر آف دابرٹش ایمپائر کے ساتھی کا خطاب ملا اور انہیں ان کی عوامی خدمات کی وجہ سے جنوری 1893 میں قیصر ہند فرسٹ کلاس گولڈ میڈل کا اعزاز بھی ملا تھا ۔
ایک امیر اور مشہور شخص کی حیثیت سے ان کا انتقال 1911 میں ہوا۔ انہوں نے اپنی جائیداد کو وسیع کیا اور ممبئی میں بھی زمین خریدی۔ تاہم ان کی ملکیت میں زیادہ تر اراضی مری اور سری نگر میں تھی ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ مجھے یہ جان کربہت خوشی ہوئی تھی کہ میرے دوست شاعر اور مصنف عادل جساوالہ کا خان بہادر سے ایک تعلق ہے ۔ وہ ان کے پڑپوتے ہیں ۔
اپنے ممتاز خاندان کا ذکر کرتے ہوئے وہ مجھے بتا رہے تھے ۔
” ایمی ، دھن جی بھائے کی ایک بیٹی میری دادی تھیں ۔ میں نے اپنے خاندان کے بارے میں اور اپنے اجداد کے بارے میں جاننا چاہا اور میں لاہور میں اپنے آبائی گھر کو بھی دیکھنے گیا ۔ میں نے پاکستان کا بہت مختصر سا دورہ 1993 میں کیا تھا تب میں درمیانی عمر کا تھا ۔ 53 سال ، اب میں 77سال کا ہوں ۔ میں نے اپنے ددھیال میں کسی کو نہیں دیکھا سوائے اپنی دادی کے ، انہوں نے اپنے پیچھے اپنے خاوند میر ونجی کو اور راولپنڈی ، لاہور کو ، اپنے خاندان کی وراثت کو ، اور شمالی ہند کی ثقافت کو یہاں چھوڑا اور پہلے ممبئی میں اور پھر پونا میں آباد ہونے کی کوشش کی ۔ وہ اپنے چاروں بیٹوں کو جن میں میرے والد جہانگیر بھی تھے ساتھ لے گئیں ۔ یہ 1914 کا سال تھا ۔ میرے خیال میں وہ ایک اکیلی ماں تھیں ۔ انہوں نے بہادری سے اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو اجنبی سرزمین پہ تعلیم دلوائی اور پال کر جوان کیا ۔
پارسی برادری ، جسے پاکستان کے شہری علاقوں میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں ، کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جا تا ۔
اسفن یار منوچر بھنڈارا ، سابق ممبر قومی اسمبلی اور راولپنڈی کی پارسی انجمن کے صدر نے اپنی بات میں اس ساری صورتحال کو سمیٹ دیا ۔ وہ کہتے ہیں ۔” ان تمام شہروں میں جہاں پارسیوں کی کسی قدر آبادیاں موجود تھیں وہاں ان کی برادری کی سماجی خدمات کے علاوہ بھی کچھ نشانیاں مثال کے طور پر ان کے قبرستان اور آتش کدے بھی ہوا کرتے تھے ۔ تاہم پاکستان میں پارسی برادری کے ورثے کو کبھی بھی محفوظ نہیں بنایا گیا ۔
دھن جی بھائے کی ممتاز زندگی اور خدمات انہیں راولپنڈی کی پارسی برادری کا فخر بناتی ہیں لیکن اس شہر کے بہت سےلوگ پارسی برادری کی جانب سے سماجی خدمات کے شعبے میں ان کی شخصیت سے نا واقف ہیں جنہوں نے اس برادری کی اس روایت کی مشعل روشن کئے رکھی۔
(اس مضمون کے مصنف عماد علی ہیں جنہوں نے اسے انگریزی جریدے فرائیڈے ٹائمز کے لئے تحریر کیا ۔ تجزیات آن لائن کے لئے اس کا اردو ترجمہ شوذب عسکری نے کیا ہے )
فیس بک پر تبصرے