قبائلی عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی
توقع تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد ان علاقوں میں سول قوانین کے توسیع کو نہ صرف جلد از جلد بلکہ مقامی لوگوں کے توقعات کے مطابق ممکن بنائیں گے ،مگر بدقسمتی سے ایساممکن دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے تمام تر قبائلی علاقوں میں پولیس کے نظام کے خلاف نہ صرف مخالفت بلکہ مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
چند روز قبل سب سے پہلے مہمند ایجنسی میں اعلیٰ پولیس افسران کے دورے کے موقع پر سینکڑوں کی تعداد میں مقامی قبائل نہ صرف احتجاج پر اُتر آئے تھے بلکہ قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے اُن کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ بھی کی تھی۔عین اُسی روز اسی طرح ملاکنڈ ڈویژن کے اعلیٰ پولیس افسران پر مشتمل ایک وفد نے باجوڑ کا بھی دورہ کیاتھا مگر باجوڑ میں نہ ان کے خلاف مخالفت کی گئی تھی اور نہ مزاحمت ۔مگر بعد میں تمام تر سابق قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے روایتی مشران نے پولیس کے نظام کو توسیع دینے کی مخالفت شروع کی۔اسی ہفتے پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی کے دورہ کرتے وقت پشاور کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جمرود خیبر ایجنسی پہنچنے پر پولیس عہدیدار کے خلاف درجنوں کی تعداد میں نہ صرف ایک سرکاری عمارت کے اندر مظاہرہ کیا بلکہ پولیس افسر کو فوری طور پرمقامی سول انتظامیہ نے حفاظت میں لے کر ایک کمرے کے اندر بند کر دیا ،بلکہ اسی طرح کا صورتحال اور کزئی ایجنسی کے مرکزی قصبے کلایہ میں بھی سامنے آیاہے۔جہاں پر مقامی رہنماؤں نے بھی پولیس نظام کے خلاف مظاہرہ کیا ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ نوکر شاہی میں بھی کچھ عناصر قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوامیں انضمام کے خلاف ہیں کیونکہ عرصہ دراز سے سول اور ملٹری کے نوکر شاہی کیلئے بھی قبائلی علاقے سونے کے کان بنے ہوئے ہیں ۔اسی طرح ان تمام قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک خاص طبقے جس کو عام اور مقامی زبان میں مراعات یافتہ طبقہ کہا جاتاہے کی اکثریت بھی حکومت کے اس فیصلے سے متفق نہیں،لہذا ان حالات میں حکومتی اداروں کا فرض بنتا تھاکہ وہ جلداز جلد انضمام کے فیصلے کے بعدکچھ اس قسم کے اقدامات اُٹھاتے کہ مقامی لوگ مطمئن ہوکر کسی بھی فیصلے بالخصوص پولیس ،عدلیہ وغیرہ کے نظام کے توسیع میں رکاوٹ بننے کے بجائے حمایت کرتے،مگر ایسا نہ ہوا۔
ویسے تو پچھلے ڈیڑھ دہائی سے قبائلی علاقوں میں برطانوی حکمرانوں کے نافذ کردہ نظام میں اصلاحات کیلئے باقاعدہ طور پر کوشش جاری تھی۔مگر پچھلی حکومت کے بالکل آخری دنوں میں اچانک حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں شامل تمام سیاسی جماعتیں ماسوائے مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلماء اسلام (ف)اور محمود خان اچکزئی کی پختوانخوا ملی عوامی پارٹی نے متفقہ اور متحدہ طور پر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام تمام سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز کو باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔اس انضمام کے فیصلے کے خلاف متذکرہ دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام تر سیاسی جماعتوں،دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے خیر مقدم کیا جبکہ بعض مراعات یافتہ طبقے نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے مظاہرے بھی کئے۔
انضمام کے وقت سابق حکومتی جماعت اور موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قائدین نے اعلان کیا تھاکہ قبائلی عوام کے مرضی اور منشاء کے مطابق تمام تر سول اداروں کی توسیع کی جائیگی۔ایک مخصوص مدت تک قبائلی علاقوں کو تمام تر ٹیکسوں سے مستثنیٰ رکھا جائیگا جبکہ ملک کے دیگر کے علاقوں کے برابر لانے کیلئے قبائلی علاقوں کے تعمیر وترقی پر 100ارب روپے خرچ کی جائیگی۔ گورنر خیبر پختونخوا کے سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دیا گیا ہے ،مگر ابھی تک ٹاسک فورس نے کام شروع بھی نہیں کیاتھا کہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں نے ملحقہ سابق قبائلی ایجنسیوں میں پولیس کے نظام کو توسیع دینے پر کام شروع کیا جس کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
چونکہ سابق قبائلی علاقوں میں امن وامان قائم رکھنے کیلئے سابق برطانوی حکمرانوں نے اُنیسویں صدی کے اواخرمیں خاصہ دار اور لیویز فورسز کانظام عین پختون روایات کے مطابق ہے اور اس نظام میں خاصہ دار فورسز کے اہلکار مقامی مشران یا جرگہ کے مشورے کے مطابق تعینات کئے جارہے تھے۔اور ان اہلکاروں کے فرائض اپنے ہی علاقے میں امان وامان قائم رکھنا اور اپنے ہی قوم یا قبیلے کے لوگوں کو پُر امن اور حکومتی اداروں کے وفاداری کو یقینی بنانا ہوتاتھا۔خاصہ داری بعدمیں ایک وراثتی سلسلے میں تبدیل ہوگیا۔اسی طرح خاصہ دارفورس میں کام کرنے والے افراد اور خاندان کو سول انتظامیہ میں قدروعزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔لہذا بیک قلم جنبش خاصہ دارفورس نظام کے خاتمے کی مخالفت اور مزاحمت ایک قدرتی امر ہے۔سب سے پہلے پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں خاصہ دار فورسز کے اہلکاراور افسران اپنے مستقبل کی خاطر میدان میں نکل آئے اور اب یہ سلسلہ تمام تر سابق قبائلی علاقوں میں پھیلا ہواہے۔
ان تمام علاقوں میں خاصہ دار اور لیویز فورسز میں پہلے سے لگ بھگ 30ہزار نفری امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔ماضی میں خاصہ دار فورسز میں اہلکاروں کی بھرتی کیلئے تعلیم کی شرط لازمی قرار دیاگیا۔اب تعلیم کے علاوہ ان اہلکاروں کو باقاعدہ ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔9/11 کے بعد جب قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا سلسلہ شروع ہوگیا توا ن اہلکاروں نے دہشت گردی کے واقعات کو ناکام بنانے میں خیبر پختونخوا پولیس اور پاک فوج کے جوانوں اور افسران جیسے قربانیاں بھی دی۔
ماضی قریب یعنی 1969ء میں دیر،سوات اور چترال کے ریاستوں کو باقاعدہ طور پر پاکستان میں ادغام کا اعلان ہوگیاتو اُس وقت بھی ان تینوں ریاستوں میں امن وامان قائم رکھنے کیلئے پولیس کا اپنا اپنا نظام قائم تھا مگر پولیس کے ان اہلکاروں کو بعد میں صوبائی پولیس میں ایڈیشنل پولیس کے نظام کے طور پر حصہ بنوادیا گیا جو اہلکار اہل تھے ان کو بعد میں باقاعدہ طور پر صوبائی پولیس سروس میں کھپایا گیا اور جو کوائف پر پورے نہیں اُترتے تھے ان کو انہی کے سابق عہدوں پر ریٹائرمنٹ تک کام کرنے دیا گیا۔اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو پنشن کا حق بھی دیا گیاتھا۔
اسی طرح سابق قبائلی علاقوں کے خاصہ دار اور لیویز فورسز میں تعلیم یافتہ اور جسمانی طور پر اہل افراد کی کمی نہیں ہے خیبر پختونخوا میں پولیس کو پہلے ہی سے افرادی قوت کی کمی کاسامناہے لہذا ان اہلکاروں اور ان کے رشتہ داروں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے خاتمے کیلئے حکام کو کھل کر پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے۔اسی طرح قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد شروع کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان علاقوں کے تعمیر وترقی کیلئے اعلان کردہ 100ارب کو بروئے کارلانے کیلئے مختلف قسم کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جائے۔9/11 کے بعدپیش آنے والے حالات وواقعات کے وجہ سے قبائلی لوگ بہت پریشان ہیں،دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائیوں میں ان لوگوں کو کافی مالی اور جانی نقصانات اُٹھانا پڑے ہیں لہذا اب ان لوگوں کی صبر کا مزید امتحان لینے سے قبل حکومت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے کئے گئے وعدوں کو ایفا کرنے کی ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے