گوادر ،نو آباد کاری پر بلوچوں کے تحفظات
سیاسی اعتبار سے گوادر میں نو آباد کاری حتمی طور پر بلوچستان کے سیاسی اقتدار پر بلوچ قوم کی حاکمیت پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے جبکہ لسانی و ثقافتی نوعیت کے منفی اثرات بھی نمودار ہوں گے
گوادر بندرگاہ اور اوبور(OBOR) کے اشتراک سے قائم ہونے والا عظیم الجثہ منصوبہ۔سی پیک بلاشبہ اپنے باطن میں بھی کئی تبدیلیوں کا حامل ہے اور عمومی یا ظاہری صورت میں،خطے کے معاشی سیاسی،سماجی حالات،بین الاقوامی سفارتی تعلقات و رشتوں کے ساتھ ہمہ گیر اثرات کے ساتھ فی الواقع گیم چینجر ثابت ہوگا۔یہ مسلمہ بات ہے۔سوال امکانی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کے مابعد اثرات کا جائزہ لے کر یہ طے کرنا ہے کہ مجوزہ و مفروضہ تبدیلیاں بلوچستان،پاکستان پر کس نوعیت کے اثرات مرتب کریں گی؟ نیز یہ کہ ،کیا امکانی تغیرات و تبدیلیوں کے متعلق ہماری اپنی امنگوں اور تقاضوں کے درمیان کوئی رشتہ ہوگا؟ کیا آنے والی تبدیلیوں کو کما حقہ خوش آئند کہا جاسکتا ہے؟
میرے سوال کا تعلق ممکنہ تبدیلیوں کی ہمہ جہت نوعیت سے ہے اور یہ بھی طے ہے کہ یہ مسئلہ لمحہ موجود سے زیادہ آنے والے دنوں سے متعلق ہے لیکن پالیسی و فیصلہ سازی کے مراحل میں جو اس وقت ہورہے ہیں۔ان سوالات کو اٹھایا جانا از بس ضروری ہے تاکہ درست سمت میں بروقت پیشرفت ہوسکے اور اگر مذکورہ سوالات کو نظر انداز کیا گیا تو اس کے نتائج کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جو اس وقت گوادر و سی پیک پر فیصلے کررہے ہیں۔
امکانی خدشات و اثرات کی دو جہتیں ہیں۔منصوبے کی اہمیت بتاتی ہے کہ گوادر اگلے چند سالوں میں اہم تجارتی مرکز بنے گا۔جہاں ملک بھرسے،نیز بیرونی ممالک سے بھی کثیر تعداد میں لوگ بسلسلہ روزگار آئیں گے اور ان افراد کی بڑی تعداد یہیں مستقل طور پر قیام گزین ہو جائے گی۔ نو آباد کاری کے مذکورہ عمل کے مقامی آبادی اور اس کے حجم و سیاسی ثقافتی مفادات پر کیا اثرات ہوں گے؟ یہ سوال بلوچستان کے عوام کےلئے انتہائی اہمیت اور تشویش کے پہلو رکھتا ہے۔سیاسی اعتبار سے گوادر میں نو آباد کاری حتمی طور پر بلوچستان کے سیاسی اقتدار پر بلوچ قوم کی حاکمیت پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے جبکہ لسانی و ثقافتی نوعیت کے منفی اثرات بھی نمودار ہوں گے۔کیا فیصلہ سازی حلقے اس امکانی خدشہ کے تدارت کےلئے حکمت عملی،اقدامات اور فیصلے کررہے ہیں؟یہ ہمارا بنیادی سوال ہے اور عملی صورتحال سے آگہی خوفناک تشویش کا سبب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلوچ مسئلہ اور گوادر کے مقامی افراد کی امنگوں،ترقی کے مواقع کی فراہمی کا بندوبست اور ان کی ضروریات کی تکمیل کےلئے کسی بھی سطح پر،مقامی سوالات کو اہمیت ہی حاصل نہیں۔اس سے تشویش،خوف کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔سی پیک کی شاہراﺅں کے روٹس اور صنعتی پارک کے متعلق تمام شکوک درست ثابت ہورہے ہیں تاحال جو کچھ بلوچستان میں بندرگاہ سے وابستہ جو رستے/شاہراہیں بنی ہیں وہ بندرگاہ کی آمدورفت کےلئے نامعقول ہیں۔لیکن صورتحال کی گھمبیرتا یہ ہے کہ آنے والے دنوں کے مسائل کو نمٹنے کی پالیسی کے خدوخال دکھائی نہیں دے رہے تو ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت بھی جس میگا سٹی گوادر کے نعرے بلند ہورہے ہیں اس کے عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کےلئے کوئی ٹھوس عملی کام نہیں ہورہا۔یہ بحرانی صورت اہل بلوچستان میں تشویش پیدا کرتی ہے۔
گوادر شہر میں اس وقت بھی پانی کی فراہمی کےلئے معقول انتظامات موجود ہیں۔ شہر سے دور میرانی ڈیم سے گوادر کو پانی مہیا ہوتا ہے۔ٹینکر کے ذریعے آنے والے اس پانی کی قیمت،ملک بھر میں سب سے زیادہ فی ٹینکر پندرہ ہزار روپے میں ملتا ہے جبکہ سیکیورٹی ادارے بھی اسی ڈیم سے ٹینکر کے ذریعے پانی لاتے ہیں جس کی حفاظت کو مزید ہزار روپے کے اخراجات ہوتے ہیں نہ ہی سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کےلئے کام ہورہا ہے اور نہ ہی میرانی ڈیم تک پائپ لائن بچھانے کا۔
مستقبل میں پیدا ہونے والے روزگار کے ممکنہ مواقع سے مقامی افراد کو ترجیحاً بہرہ بند ہونے یا کرانے کےلئے تاحال ہنر مند ،افراد قوت مہیا کرنے والے فنی و تکنیکی تربیت کے ادارے قائم نہیں ہوئے۔مذکورہ صورتحال مایوس کن ہی نہیں تشویشناک بھی ہے جو گیم چینجر منصوبے کے متعلق حکومتی حلقوں کی لاعلمی و غفلت بیان کرتی ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھانا کہ نو آباد کاری کے مراحل میں بلوچ قوم کے تحفظات کےلئے کیا انتظام ہوگا؟خود فریبی و خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
فیس بک پر تبصرے