کیلوں کی ریڑھی اور مملکت خدا داد

890

پچھلے  ہفتوں میں  اخبارات ، ٹی وی اور سوشل میڈیا میں   شیخو پورہ کی کیلوں کی ریڑھی کا بہت تذکرہ رہا۔    لکھا تو بہت گیا لیکن  کسی نے اصل بات  کا ذکر نہیں کیا۔ اس افسوس اور غصے کے اظہار تو کیا گیا کہ  کیلے لوٹ  کر کھائے  گئے لیکن مملکت خدا داد کی کسمپرسی  کا  کسی نے ذکر نہیں کیا۔حالانکہ شیخو پورہ  میں اس ظلم کے نام سے  فوراً عدل جہانگیری  اور اس کے حوالے سے مملکت خداداد  کی یاد آنا چاہئے تھی ۔لکھنے والوں نے  کیلے کھانے والوں کی نیک نیتی  پر تو حرف گیری کی،   کچھ نے یہ بھی کہا  کہ کیلے لوٹنے والےمجبور تھے۔ بھوکے  اور کیا کرتے۔ کسی نے یہ تجویز نہیں کیا کہ دھرنے کے منتظمین کو کیلوں کا بھی انتظام کرنا چاہئے  تھا۔  ایک خبر یہ بھی  چلی کہ یہ کیلے کسی درد مند کی جانب سے   عاشقین رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کئے گئے تھے۔ لیکن  کسی نے اس  خبرپر اعتبار نہیں کیا۔ بعض خبر نگار  وں نے اسے اتنا مشکوک سمجھا کہ تفتیش کرتے  ریڑھی کے مالک تک پہنچ گئے۔ حالانکہ  ایسے  بابرکت دھرنے  میں لوٹ مار کی نیت کا سوال  ہی بے معنی تھا۔ ثواب دارین  کے علاوہ اور کیا نیت ہو سکتی ہے۔ بعض نے اسے بھیڑ چال بتایا ۔ بھیڑ چال میں    بھی نیت  کا سوال بے معنی ہو تا ہے، یہ جواز   کافی ہوتا ہے کہ دوسرے ایسا کر رہے  ہیں تو میں کیوں نہ کروں۔ ثواب دارین نہ سہی،  پیٹ پوجا  ہی سہی۔

کسی نے یہ نہ سوچا کہ مملکت خداداد  میں بھیڑ چال  کی اجازت نہیں ہوتی  کیونکہ اس میں نقصان صرف  بھیڑوں کو پہنچتا ہے۔ یہ بھِیڑ چال  یعنی  مرگ انبوہ  جشنے دارد  کی کیفیت ہے۔  بِھیڑ چال  کا مقصد من مانی ہوتا ہے۔  اور من مانی یا  نیت کے بغیر ہوتی ہے یا بد نیتی   سے  پیدا ہوتی ہے۔علامہ اقبال  اسے ہجوم مومنین  کہتے ہیں۔ہجوم عربی میں حملے کو کہتے ہیں۔ اس کو جمہوریت کا نام  دے دیں   تب بھی  ہمیشہ مومنین خسارے میں رہتے ہیں۔ ہم اسی انتظار میں رہے کہ کہیں تو کیلوں کی ریڑھی کے تذکرے  میں مملکت خداداد میں مومنین کے  گھاٹے کا ذکر آئے گا ۔

ہم  بہت غور کے بعد  اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شیخوپورہ کے قصے میں  کیلوں کی ریڑھی  بہت ہی  اہم   علامت کے طور پر ظہور میں  آئی ہے کیونکہ یہ کام  وہ مومن کر رہے تھے جو ناموس رسالت  کے تحفظ کے لئے جمع ہوے تھے۔ ان سے  لوٹ مار جیسے غلط  کام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔

اب  ہم  اس سوال کی طرف آتےہیں  کہ  کیلوں کی ریڑھی مملکت خدا داد     کی علامت کیسے بنی؟

سب سے پہلے  لفظ خدا داد کو لے لیں ۔ یہ  فارسی  لفظ ہے۔  اب فارسی نہ ہماری قومی زبان ہے  اور  نہ سرکاری زبان ۔فارسی سے رشتہ  قصہ ماضی ہو گیا ۔ اب فارسی سے بہت عرصے سے  کٹّی ہے۔ تاہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں۔ ہم  ہر چیز کو خدا داد مانتے ہیں۔ ہماری زندگی خداداد ہے، ہمارا علم خداداد ہے، مذہب خداداد ہے اور عقل خدا داد ہے۔ ہماری صلاحیتیں خداداد  یعنی اللہ کی دی ہوئی ہیں۔جو چیز اللہ کی دی ہوئی نہ ہو اسے  ہم کسبی  کہتے ہیں۔ہم کسب کو عار  اور کسبیوں کو گناہگار  سمجھتے ہیں۔  ہم کسی چیز میں کسی کے محتاج نہیں اور کسی کو شریک کرنا  شرک  گردانتے   ہیں۔ ہم  صرف خداداد  علوم  کو مانتے ہیں  کہ یہ ہماری فطرت میں ودیعت ہیں۔     فطری علوم  کے لئے کسی محنت اور مشقت کی ضرورت نہیں۔ کوئی امتحان پاس نہیں کرنا پڑتا ۔ باقی سارے   علوم     غیر فطری ہیں ۔ ہم  علوم کو خداداد مانتے ہیں اس لئے ہم علمی اور فکری طور پر مکمل آزاد ہیں ۔

بقول علامہ اقبال

ہے کس کی یہ جرءت کہ مسلمان کو روکے              حریت افکار کی نعمت ہے خداداد

ماضی قریب تک ہمیں نوکری کے لئے کبھی کسی ڈگری کی ضرورت نہیں تھی ۔  یہ توجب  نوکری  کے لئے خاندانی  وجاہت کی جگہ ڈگری کا تقاضا کیا جانے لگا تو ہم نے اپنی خاندانی اور  خدااداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر یہ مسئلہ حل کرنا پڑا۔ حل  کر لیا تو بدخواہوں نے اسے جعلی بتا کے  رپھڑا ڈال دیا ورنہ  جسے  اصلی  ڈگری کہتے ہیں اس حاصل  کرکے  بھی ہمارے خدا داد علم  میں  کوئی کمی بیشی  واقع نہ ہوتی۔تحقیق سے پتا چلا کہ خداداد کا مطلب اللہ کی دی ہوئی  چیزہے۔ اردو میں اس کے لئے اللہ دتہ اور اللہ بخش کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ماں باپ بڑے چاو سے اپنے بچوں کے  یہ نام  رکھتے ہیں لیکن  جو بچے غیر فطری علوم پڑھ لیتے ہیں  وہ بڑے ہو کر اللہ دتہ کی بجائے اے ڈی اور اللہ بخش کی بجائے اے بی کہلانا پسند کرتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی مسئلہ مملکت خدا دادکے  نام کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ۔ کوئی کہتا ہے  کہ مملکت خدا داد کا مطلب ہے کہ یہ ملک  کسی  محنت کے بغیر ملا ہے۔ یعنی  اللہ  میاں نے چھپڑ پھاڑ کر دیا  ہے۔ اکثر شاعروں کا کہنا ہے کہ یہ ملک قائد اعظم کا احسان ہے۔ مشہور  مورخ  عائشہ جلال بھی    یہی کہتی ہیں کہ   یہ کام اکیلے قائد اعظم کا ہے۔  وہ اس تحریک کے واحد ترجمان تھے۔ تاہم  مزید تحقیق کے بعد وہ اب  اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ  اس ملک کا قیام  قائد اعظم کی نہیں بلکہ  جواہر لال نہرو  کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ان کی یہ تحقیق  اس ملک کے مملکت خدا داد     ہونے کےنظریے کی تائید   تو کرتی ہے   ۔لیکن   اس نظریے  کے مطابق  خداداد کا معنی حسن   اتفاق  یا  تاریخی حادثہ   بنتا ہے۔کسی مملکت   کا وجود بیک وقت  تاریخی حادثہ  اور خدا  داد کیسے ہو سکتا  ہے؟  یہ سوال ہمیشہ  خلش کی طرح   چبھتا رہا۔ بآخر یہ الجھن آتش  کے مندرجہ ذیل شعر  سے سلجھی۔

غیرت کے مارے  یار ہوا غیر سے خلاف                       یہ اتفاق  بھی ہے خداداد ہوگیا

اس شعر میں یار سے مراد جواہر لال نہرو اور غیر سے مراد پٹیل وغیرہم ہیں  جو  پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔    اتفاق سے  کعبے کو  صنم خانے سے ہی  پاسبان مل گئے۔اور یوں مملکت خدا داد قائم ہوگئی۔

دوسرےپاکستانی  مورخین غیر کا احسان  اٹھانے کے قائل نہیں۔ ان کے بقول یہ ملک مسلمانوں نے صرف  اپنی خدا داد صلاحیتوں سے حاصل کیا ہے اس لئے یہ مملکت خدا داد ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مملکت خدا داد صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ بعض مذہبی سیاسی جماعتیں  اس قاعدے سے یہ حکم لگاتی ہیں  کہ اس ملک پر حکومت کا حق  صرف ان کا ہے ۔۔ ڈاکٹر خلیل احمد  کہتے ہیں   اس ملک میں صرف اشرافیہ ہے جو   اسے صحیح معنوں میں مملکت خدا داد   سمجھتی ہے۔ان کے نزدیک   خداداد  شے کے دو  ہی مفہوم   ہیں  ایک تو نعمت خداداد پر قبضہ اشرافیہ کا  فطری حق ہوتا ہے ۔ دوسرے اس پر انسانوں کے بنائے قاعدے قانون لاگو نہیں ہوتے۔ پانی کی مثال ہی لے لیجئے ۔ یہ نعمت خداوندی ہے۔ کیاہم اس کے استعمال پر   کسی قاعدے یا پابندی   کے قائل ہیں؟۔ اشرافیہ   مملکت پر قبضہ ہی نہیں کرتی ۔ وہ  جس بے دردی سے وہ اس کا استحصال کرتی ہے  اس سے پتہ چلتا ہے  کہ وہ اس زمین کے  دہ خدا  اور اس کشتی کےناخدا سبھی   کچھ ہیں بلکہ اس   ناکتخدا دوشیزہ کے بلا شرکت غیرے  مجازی”  وہ” بھی وہی   ہیں۔ ان کی غیرت اجازت نہیں دیتی  کہ اس کی مال و دولت  ان کے اور ان  کے کنبے سے باہرکسی اور کے پاس جائے۔

پون صدی  اسی قیل و قال میں گذرگئی کہ مملکت خدا داد کا کیا مطلب ہے۔ یقین  تونہیں آتا کہ ان  سات  دہائیوں  میں پتا  نہ چلا ہو کہ مملکت  خدا داد کسے کہتے ہیں۔گمان یہی ہے کہ حقیقت  سب کو معلوم ہے لیکن بتانا نہیں چاہتے ۔ ہم سب گُھُنّے  بنے ہوے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو میاں محمد افضل کا  جنہوں نے نے اپنی کتاب  “پاکستان، ریاست مدینہ ثانی “میں یہ عقدہ کھولا  کہ اس  ملک کو  ۱۹۵۶  تک  مملکت خدا داد کہا جاتا تھا کیونکہ اس مملکت کا قیام   ۲۷  رمضان ۱۳۶۶ کو لیلۃ القدر میں ظہور میں آیا ۔اسی  لئے اسے مملکت خدا داد کا نام دیا گیا۔لیکن  یہ نام  ۱۹۵۶ کے بعد بدل گیا ۔ ملک کے پہلے آئین میں  اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔   اس کتاب میں یہ  وضاحت تو نہیں لیکن مصنف نے ۱۹۵۶ کے بعد کے  واقعات جس ترتیب سے بیان  کئے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ نام بدلنے کے بعد سے پاکستان محفوظ نہیں رہا۔ اس کتاب میں  ملک کو محفوظ رکھنے میں ا فواج پاکستان کی طویل  خدمات کو سراہا گیا ہے۔تاریخ کو اس زاویے سے دیکھا جائے تو خدا داد  کا  معنی محفوظ  ہی بنتا ہے۔  کہا جا سکتا ہے کہ  جو  نعمت  اللہ دیتا ہے اس کی حفاظت بھی وہ  اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ان تاریخی شواہد سے  مملکت خداداد  کا مفہوم خصوصاً     حفاظت اور سلامتی کے حوالے سے بہت اہم ہو گیا ہے۔ یہ کتاب   اس ملک  کی سیکیورٹی سٹیٹ کی حیثیت پر  مفید روشنی ڈالتی ہے۔

اگر زمان و مکان کے سیاق و سباق میں دیکھیں تو  کیلوں کی ریڑھی کے واقعہ کا مفہوم مزید واضح ہو جاتا ہے۔ مکان  کی نسبت سے اس کا شیخو پورہ میں ظہور  عدل جہانگیری  کو یاد دلاتا ہے۔زمان کے اعتبار سے اقتدار کے برج میں تحریک انصاف کی موجودگی بھی عدل اور انصاف ،  ظالم  کو ظلم سے روکنے اور مظلوم سے انصاف کی    یاد دہانی کراتی ہے۔جنتری کے لحاظ سے ماہ صفر بہت اہم ہے جس میں یہ واقعہ پیش آیا یہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت  اور وصال سے پہلے کا مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کو  ہمیشہ کسی اہم امر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ۔اس سیاق و سباق میں  اس واقعے کا ظہور معمولی نہیں۔  یہ کسی بہت ہی اہم  امر  کی طرف توجہ کا طالب ہے۔

کیلوں کی ریڑھی  مملکت خداداد کی نسبت  سے  ایک بہت ہی بلیغ اشارہ  نظر آتا ہے ۔ریہڑی کے استعارے سے  مملکت خداداد   کے  بارے میں کئی مطالب یوں عیاں ہوے ہیں  کہ چھپائے نہیں بنتی۔ اول تو یہ کہ  ریہڑی   انتہائی غیر محفوظ  ذریعہ نقل و حمل کی علامت ہے۔ اس واقعے میں  ریہڑی  کے  محافظ بچے کی بے چارگی  سامان عبرت ہے  جو  کیلےچور ظالموں کی بجائے گدھے کو  چھڑی سے پیٹ کر بھگا  رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح  ان  ظالموں سے اور ان کی لوٹ مار سے بچ جائے گا۔ در اصل یہ مملکت خداداد کی معیشت  کے بارے میں یاد دہانی  کا اشارہ ہے ۔  اشارہ متقاضی ہے کہ  نہ صرف  مملکت کو مضبوط ہاتھوں میں دیں بلکہ اس کی  معیشت  کے نقل و حمل کے ذرائع  کو بھی  محفوظ  بنائیں۔ غیر محفوظ  سرمایے اور سامان تجارت کی چوری  بلکہ ڈاکے کو   قانون بھی چوری اور ڈاکہ   ثابت نہیں کر سکتا۔  اسی لئے اگر مال محفوظ   نہ ہو تو  اسلا می  حدود  اورقوانین  میں بھی چوری کی سزا  مشکل سے نافذ ہوتی ہے۔ذرائع نقل و حمل میں  بکتربند گاڑی کو   سب سے زیادہ محفوظ سمجھا  جاتا ہے۔ اسی لئے بنک  قیمتی مال اور نیب وی آئی پی کی نقل و حمل کے لئے  ریہڑی  کی بجائے بکتر  بند گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ غریب اس لئے مارے جاتے ہیں کہ وہ کیلے جیسے قیمتی  مال تجارت کو  ریہڑی پر لئے پھرتے ہیں۔  نہ اس کے گرد  مضبوط باڑ ہوتی ہے  نہ پہرہ۔کیلا کتنا قیمتی ہے یہ تو جاپانیوں سے پوچھئے۔ یا حکیموں اور ہومیو پیتھ سے۔  کیلا  مردانگی اور قوت کی صرف علامت ہی نہیں ، مردانہ کمزوریوں کا علاج بھی ہے۔ ایسے  قیمتی مال کو  ریڑھیوں  پر لئے پھریں گے اور چور کو  چور کہیں گے تو چور تو برا ہی منائے گا۔

المختصر  اس  بلیغ اشارے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرانا مقصود تھا  کہ اس مملکت خدادا کو  کیلوں کی ریڑھی نہ بنائیں۔  ورنہ لوگ   حسب توفیق  اس نعمت   خداداد کو لوٹ کر کھا جائیں گے۔ اسے لوٹ مار سے بچانے کے  لئے  بے چارے کیلوں کو مکمل  حفاظت  مہیا کریں۔ ریڑھی کو  ہر طرح سے محفوظ بنائیں۔ کیلوں کو محفوظ کرنے کے لئے   محافظو ں کو  ضرور مضبوط بنائیں۔ چوروں اور ڈاکووں کی تعداد میں کمی کے لئے  قانون  کی کمزوریوں کو ضرور دور کریں۔ لیکن چوری اور ڈاکے کو ختم کرنے کے لئے  سماجی انصاف کی ضرورت ہے۔سماجی انصاف کے  لئے  قانون  کی حکمرانی درکار ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لئے جبر نہیں اخلاقی داعیہ درکار ہے ۔ اخلاقی داعیہ کےلئے قومی اور دینی  شعور چاہئے ۔  یہ شعور تعلیم سے زیادہ تربیت کا متقاضی ہے۔ اگر یہ نہیں تو مملکت خداداد کیلے کی ریہڑی کی طرح یوں ہی  سر بازار لٹتی رہے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...