مبالغہ ۔۔ ہمارا قومی مشغلہ
مجھے تو لگتا ہے یہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اسی سے اکابر پرستی جنم لیتی ہے جس سے مکالمے کا راسہر بند ہو جاتا ہے اور افتراق کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسی سے توہم پرستی پیدا ہوتی ہے، سوالات کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے، علم و تحقیق کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے
مسلمانوں بالخصوص بر صغیر پاک و ہند کے مذہبی طبقہ کا ایک بڑا مسئلہ معاملات، عقائد اور عقیدتوں کے اظہار میں غلو یا مبالغہ کا رجحان ہے۔ اس کا ایک واضح اظہار اکابر، قائدین اور چھوٹے بڑے صاحبان علم و منصب کے لیے مبالغہ آمیز القاب کا استعمال ہے۔ سب سے پہلے تو ایک اچھے بھلے سنجیدگی سے علم، فن اور کلام کی سیڑھیاں چڑھتے شخص کو مفکر اسلام، مدبر قرآن، شیخ العرب والعجم، برہان قاطع، مناظر اسلام، خطیب بے بدل، عالم اجل وغیرہ وغیرہ بنا کر اس میں خود پسندی، انانیت اور تکبر کے بیج بو دیے جاتے ہیں، پھر مسلکیت کی سان پر چڑھا دیا جاتا ہے اور نتیجے میں اس کے اندر موجود خود تنقیدی کے جوہر کا خون ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اس کے گرد عقیدتوں کا ایسا جال بن دیا جاتا ہے اور اس کے کہے کو حرف آخر کا ایسا درجہ دے دیا جاتا ہے کہ اس کے معتقدین کے لیے اس کے نتیجہ فکر کو حقائق اور سوالات کی کسوٹی پر پرکھنے کا آپشن ختم ہو جاتا ہے۔ مبالغہ دراصل وہ جھوٹ ہے جس میں سچ کی تھوڑی سی مقدار موجود ہوتی ہے جسے کھینچ تان کر کے ایک سے دس اور دس سے سو بنا دیا جاتا ہے۔
مجھے تو لگتا ہے یہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اسی سے اکابر پرستی جنم لیتی ہے جس سے مکالمے کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور افتراق کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسی سے توہم پرستی پیدا ہوتی ہے، سوالات کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے، علم و تحقیق کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے اور ہر نئی بات کہنے والا کفر و الحاد کو راہ دینے والا مفسد قرار پاتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ جناب، آئیے عقیدتوں کے غبار سے اپنی انا کشید کریں، جھوٹ کو اپنا پیراہن قرار دیں، منافقت کو اپنا طرہ بنائیں۔ رہا سچ، تو اس کا کیا ہے، یہ تو ہمیشہ سولی پر چڑھا ہے، چڑھا رہنے دیں، ہم اپنا نشہ کیوں کم کریں۔ کوئی اسے تہذیبی نرگسیت کہتا ہے تو کہتا رہے۔
کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ شائد ڈر یہ ہے کہ عقیدت سے اگر تقلید نکال دیں تو عقیدت کہاں رہے گی، اکابر سے اگر کبر نکال دیں تو اکابر کہاں رہیں گے، پیروں سے اگر مرید نکال دیں تو پیر کہاں رہیں گے۔ یہ تو سارا کاروبار ہی ٹھپ کرنے والی بات ہے۔ خدا بخشے میر کہہ گئے ہیں کہ
‘یہ توہم کا کارخانہ ہے؛ اں وہی ہے جو اعتبار کیا’۔
یا غالب کہہ گئے ہیں کہ
‘وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں’۔
چلیں چھوڑیں میر و غالب تو بڑے سیکولر قسم کے لوگ تھے، ممولے کو شہباز سے لڑانے والے مفکر پاکستان اور مدبر اسلام، حکیم الامت اقبال علیہ رحمتہ سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب قوم کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں تو وہ بھی سلطانی، ملّائی اور پیری تین امراض کی ہی تشخیص کرتے ہیں:
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی ملّائی و پیری۔
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ رجحان تبدیل کیا جا سکتا ہے تو بظاہر یہ اس کی خام خیالی نظر آتی ہے۔ لیکن رویّوں کی تبدیلی کے صد ہا سالہ عمل میں اس کے دو طریقے نظر آتے ہیں۔ یا تو یورپ کو مثال بنا کر کوئی نٹشے اور دانتے آئے، کوئی نشاۃِ ثانیہ یا اصلاح مذہب کی تحریک چلے، دستک سے نہیں تو دھکّے سے ذہنوں کی کھڑکیاں کھولے اور علم سائنس اور تحقیق کی بنیاد پر ایک نئے دور کی تعمیر کرے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مثال خود تخلیق کی جائے اور ایک تدریجی عمل کے ذریعے لکیر پر ڈولتے ذہنوں کو نسیم صبح گاہی کی طرح احتیاط اور محبت سے جگانے کی کوشش کی جائے، تنقید، تحلیل، تحقیق اور تجزیے کی صلاحیت کی آبیاری کی جائے، ذہنی اور فکری آزادی کی قدر کو رفتہ رفتہ تسلیم کرایا جائے، عشق اور عقیدت کے زور آور سمندر میں عقل کے بیڑے کو ڈالنے اور لنگر انداز ہونے کی اجازت دی جائے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر، سچ پر کسی ایک طبقے کی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے حقیقت پسندی کے ساتھ تعلیم وتحقیق کا ایسا سفر شروع کیا جائے جس میں کسی حتمی نتیجے کو پہلے سے سوچا نہ گیا ہو اور کسی بھی نتیجے کی پرواہ نہ کی جائے بلکہ جو تحقیق کی کسوٹی پر پورا اترے وہی تسلیم ہو۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ آخر میں پھر ایک فریاد (کہ ہمارے مزاجوں کو ایسا ہی جذباتی غلغلہ راس ہے):
اے صاحبان منصب و جاہ، پیران کلاہ در کلاہ، عالمان عالی جاہ، والیان عقیدت و درگاہ، اذن باریابی و جاں بخشی پاؤں تو عرض کروں۔ حضور والا، عالم پناہ، آپ کا اقبال بلند، آپ کے تاج پر ستارے چمکیں، آپ کی کلاہ پر نور کا ہالہ رہے، آپ کی ذات کا تقدس تا قیامت قائم رہے، ناگوار خاطر نہ ہو تو اس فقیر کو بھی اذن صدا ہو۔ اس قوم کو سوچنے کی مہلت دے دیجئے، بس ایک بار دے دیجئے۔ پھر ہم آپ سے کچھ نہ مانگیں گے، چاہے قیامت ہی کیوں نہ آجائے۔
فیس بک پر تبصرے