کمرہ نمبر ایک کی کارروائی کون باہر لایا ؟

861

پانچ معززججز صاحبان نےاپنے الگ الگ نوٹ تحریر کیئے۔ سب نے ایک دوسرے کے نوٹ پڑھے اور ان پر کسی نہ کسی طور پر تبصرہ بھی کیا لیکن ہر ایک نوٹ کا احوال الگ الگ حکومتی ایوانوں تک بھی پہنچتا رہا

فیکا گھر کے سامنے موٹر سائیکل کو رواں رکھنے کے لئیے کک لگا چکا تھا لیکن میری آواز سن کرکچھ دیر مزید رک گیا- اس کے ہنس مکھ چہرے پرآج شرارت سے زیادہ سنجیدگی جھلک رہی تھی- میں نے دریافت کیا سب خیریت تو ہے نا؟

میرے سوال کا جواب بھی اس نے سوال ہی کو صورت دیا-

وقت ضاَئع کئیے بغیرفیکے نے کہا کہ یہ جو کل  پانامہ کا فیصلہ آیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی-

موٹر سائیکل کے انجن کی آواز بتا رہی تھی کہ فیکا کچھ جلدی میں ہے- میں نےوقت بچاتے ہوےَ کہا کہ اگر کچھ سمجھ نہیں آیا تو پھر مٹھائی ضرورکھا لیں- مجھے مزید امتحاں میں ڈالےبغیرفیکا ‘‘ہوا کے گھوڑے’’ پر سوار چلتا بنا-

شا ئد میری طرف سے اس نے انکار ہی سمجھا-

میں نے اس مشکل کے بعد گرمی کی شدت کے بہانے ایک گلاس پانی اور پی لیا-

فیکے کے سوال پر سنجیدگی سےسوچنا شروع کر دیا تھا- میرے سامنے سب سے پہلے سماجی میڈیا پر ہونے والے وہ تبصرے آےَ جو اس حکم نامے کی منفرد تشریحات کر رہے تھے- شائد فیکا ان سے پریشان ہو۔ پھر ان تبصروں پر غور کیا جو قانونی ماہرین سے بطور صحافی حاصل کئیے تھے-

زاہد بخاری کا وہ ویڈیو کلپ بھی میرے موبائیل میں اسی طرح محفوظ ہے جس طرح خود پانامہ کا فیصلہ کچھ عرصہ ‘‘محفوظ’’ رہا- ویڈیو کے پہلے حصے میں موصوف نے صاف صاف بتا دیا کہ فیصلے میں ایسا کچھ نہیں جو صدیوں تو کیا دنوں تک بھی یادرکھا جاسکے-

فوٹیج کا ذیادہ حصہ اب بھی میرے فون میں محفوظ ہے- لیکن پانامہ فیصلے کے بارے میں تو بہت کچھ زیر بحث رہا ہے- شائد یہ فیصلہ اتنا محفوظ نہیں رکھا جا سکا-

ایک بڑے ادارے کے پانچ معززججز صاحبان نےاپنے الگ الگ نوٹ تحریر کیئے۔ سب نے ایک دوسرے کے نوٹ پڑھے اور ان پر کسی نہ کسی طور پر تبصرہ بھی کیا لیکن ہر ایک نوٹ کا احوال الگ الگ حکومتی ایوانوں تک بھی پہنچتا رہا اور من کے پکے صحافی بھی آگاہی کی اس دوڑ سے باہر نہیں رہے-

وزیر اعظم کے قریبی ساتھی نے تو ایک مہینہ پہلے ہی حکومت کی پریشانی سے آگاہ کر دیا تھا اور ساتھ ہی کچھ ایسے حقائق بھی بتا دئیے تھے جو من وعن درست ثابت ہوےَ۔ شاید سب سے ذیادہ خامی اس فیصلے میں یہی تھی کی اس کی ذیادہ حفاظت یقینی نہیں بنائی جا سکی –

فیصلے نےاحتساب کےاداروں کی کمزیوریوں کو تفصیل سے گنوایا لیکن اب اس بڑے ادارے کی کمزوری کا کون محاسبہ کرے- اورتو اور کمرہ نمبر ایک کی عدالتی کاروائی بھی من کے پاپی باہر لے آےَ جو اب سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن فیکے کا سوال اب بھی حل طلب ہے-

اس پہیلی کو سلجھانے کے لئیے میں نے ٹھان لی کہ اب کی بار میں یہ فیصلہ پڑھ کر فیکے کو لیکچر دوں گا-

خدا پناہ میں نے تو یہ ناول پڑھا ہی نہیں ہے- پہلی لائن چھوڑ آگے دوڑکی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر میں نے کچھ نکات خود بھی اپنی ڈائری میں قلمبند کرلئیے-

جسٹس کھوسہ کی منصفی کا ذکر کس نےنہیں سنا ہوگا-

ان کا نوٹ قابل ذکر ہے- وہ پانچ ججزبنچ کے سربراہ بھی تھے- شاید اسی لیے ان کے نوٹ سےفیصلے کی شروعات ہوئیں- جسٹس کھوسہ کے نوٹ میں اٹھاےَ گےَ کچھ نکات قابل ذکر ہیں- وزیراعظم گیلانی نااہلی کیس میں بھی خلیل جبران کی یادجسٹس کھوسہ نے ہی تازہ کی تھی-

موصوف لکھتے ہیں کہ جب متعلقہ ادارے ناکام ہو گےَ تھے اور وہ اس کیس کی تفتیش کرنے سے عاری تھے تو پھر یہ کیس ہماری طرف فیصلہ کرنے کے لیے بھیچا گیا- لہٰذا اب اس پر فیصلہ کرنا ہی عین انصاف ہو گا-

شائد کچھ عرصہ پہلے جس طرح ایک دفعہ پھر فوجی عدالتوں کے قیام کا عمل ایک خاص مقصد کے حصول کے لیےلایا گیا- اس میں بھی وجہ یہی بنی کہ ریاستی انصاف کا نظام ناکام ہو چکا ہے اور یہ انصاف کی فراہمی یقینی نہیں بنا رہا ہے-

اب عدلیہ کوبھی یہی گلہ ہے کہ دیگر ملکی ادارے صیحح کام نہیں کر رہے ہیں-

جسٹس کھوسہ سے اختلاف کرتے ہوےَ جسٹس اعجاز افضل خان نے لکھا کہ ان ہی اداروں کو ہی کام کرنا ہے اور ہم آئینی اور قانونی سکیم کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں ورنہ ملک میں انتشارہوگا-

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے اگر یہی فیصلہ آنا تھا تو پھراتنی امیدیں کیوں بندھوائی گئیں- ایک منقسم فیصلے کو صدیوں یاد رکھنے والا فیصلہ کس بنیاد پر قرار دیا گیا- فیصلہ محفوظ کرنے سے پہلے، وزیر اعظم اور دوسرے فریقوں کو صفائی کے سارے مواقع کیوں نہیں دئیے گےَ؟

جسٹس کھوسہ نےآئین کے آرٹیکلز 62، 63 پر بھی تفصیل سے بحث کی جو ہر لحاظ سے ان شقوں کے عملی پہلووں کا احاطہ کرتی ہیں- ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جن قوانین پر عمل نہ کیا جاسکے وہ دوسرے مفید قوانین کو بھی بے کمزورکر دیتے ہیں-

انھوں نےقانون شہادت کی خامیوں پر بھی روشنی ڈالی- ان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ثبوت بھی وہی دے جو الزام لگاےَ- اور پھر مثالوں سے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت بھی کی- وہ اس بات پر مطئمن ہیں کہ وزیر اعظم کو گھر بھیج کرتحقیات آگے بڑھائی جا سکتی ہیں-

وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے سے پہلے انھوں نے ہر پہلوسے جائزہ پیش کیا اور بتا یا کہ کس طرح وزیر اعظم بچوں سمیت بار بارسنگین جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوےَ- انھوں نے وزیر اعظم سے اداروں کی وفاداری کے ناقابل فراموش واقعات بھی گنواےَ-

ان واقعات میں ایک اصغرخان کیس کا حوالہ بھی شامل ہے- جسٹس کھوسہ نے بتایا کہ ادارے اس کیس جس میں وزیر اعظم کا نام بھی شامل ہے آگے نہ بڑھا سکے- لیکن پھر بھی پانامہ کیس ان ہی اداروں کو بھیج دیا گیا- وزیر داخلہ جوہدری نثار کے ہوتے ہوےَ مشترکا تحقیاتی ٹیم سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کےخلاف غداری کیس میں بھی سول اور فوجی محاذوں پر ناکامی کا شکار ہو کر پاش پاش ہوئی-

کچھ عرصہ قبل وزیر داخلہ نے نادرہ ہیڈ آفس کا دورہ کیا اوراصغر خان کیس میں تحقیقات آگے نہ بڑھنے کی وجہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کی نظرثانی کی درخواستوں کوقرار دیا۔ اب یہ بھی معلوم کرنا باقی ہے کہ کیا وزیر داخلہ یہ جانتےتھے کہ محفوظ فیصلے میں یہ سوالات اٹھاےَ گےَ ہیں؟ یا پھرمحض گمان کی بنیاد پروہ یہ پیش بندی کر  رہےتھے؟

حزب اختلاف کی جماعتیں اور وکلاء کی تنظیمیں فیصلے کے بعد وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں- معروف قانون دان اعتزاز احسن نےمشترکا تحقیات کےفیصلے کو ہدف تنقید بنایا- انھوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی محتاط رہنے کا مشورہ دے ڈالا- فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے تشویشی ٹویٹ کیا تو اعتزاز پھر گویا ہوےَ کہ مؤقف پر قائم ہوں اور یہ کہ اس ملک میں کوئی مقدس گاےَ نہیں ہے-

فوج نے کور کمانڈرزکی بیٹھک کے بعد یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ سپریم کورٹ کے اعتماد پر پورا اترا جاےَ گا اورشفاف تحقیقات کے لیے ہر ممکن تعاون کیا جاےَ گا- یہ بیان اہم ہے- کیونکہ اس سے قبل جنرل راحیل شریف کے وقت میں مشرف غداری کیس میں تحقیقاتی ٹیم کو فیض آباد سے آگے آنے کی اجازت بھی نہیں مل سکی تھی-

سپریم کورٹ نے عملدرآمد کا بنچ بنا کر اس کیس کا فیصلہ ابھی کرنا ہے- کہتے ہیں کہ فیصلہ پبلک پراپرٹی ہوتا ہے اس پر تنقید ہو سکتی ہے- اگراس مقدمے میں کوئی فیصلہ آیا تو اس حوالے سے تنقید بھی ضرور ہو گی-

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...