پختون تحفظ تحریک کا المیہ

862

لگ بھگ 11 مہینے قبل معرض وجود میں آنے والی پختون تحفظ تحریک نہ صر ف ملک بھر کے پختون نوجوانوں کا ایک مقبول پلیٹ فارم بن چکا  ہے بلکہ اس تحریک سے منسلک دو نوجوانوں نے پچیس جوالائی 2018 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کی نششتوں پر  کامیابی بھی حاصل کی ہے ۔ تاہم اب اگرایک طرف اس تحریک کے سرکردہ اہم رہنما مستقبل کے حوالے سے اختلافات اور تضادات کا شکار ہیں تو دوسری طرف تحریک کے بارے میں اہم پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

پچیس جولائی کے عام انتخابات کے نتائج کے بارے میں سوائے پاکستان تحریک انصاف  کے تمام تر سیاسی جماعتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ نتائج ایک ایسے منظم اور مخصوص طریقے سے تیا ر کیے گئے کہ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی سے ہمکنار کردیاگیا اور دوسری طرف اس کے غیر مقبول امیدوارں کے ذریعے مقبول سیاسی رہنماؤں کو خیبر پختونخوا میں شکست سے دوچار کردیاگیا۔ان رہنماؤں میں پختون قوم پرست سیاسی رہنماؤں اسفندیار ولی خان اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے علاوہ مذہبی سیاسی شخصیات جیسے مولانافضل الرحمن ، سراج الحق اور روایتی جمہوری سیاسی رہنماؤں میں بلاول بھٹو زرداری ، شہباز شریف اور انجینئر امیر مقام سرفہرست ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے مقبول قوم پرست اور مترقی سیاستدانوں میں محمود خان اچکزی، حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری بھی منظم اور مخصوص طریقے سے تیار کیے جانے والے انتخابی نتائج کے متاثرین میں شامل ہیں۔ رواں سال جنوری کے وسط میں کراچی کے ایک جعلی پولیس مقابلے میں جنوبی وزیرستان کے جواں سال نقیب اللہ محسود کے قتل نے ملک بھر کے پختونوں کو متحرک کردیا۔ نقیب اللہ محسود کی تجہیزوتدفین سے فراغت کے بعد جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے کے چند نوجوانوں نے منظور پشتین کی قیادت میں26 جنوری کو ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک قافلے کی صورت میں سفر کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ بنوں کوہاٹ، کرک، پشاور، مردان، صوابی اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے وہ اسلام آباد پہنچ کر ایک احتجاجی دھرنا دینگے اور یہ دھرنا اُس وقت تک جاری رہیگا جب تک نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی شروع نہ ہو۔ اس احتجاج کے دوران نہ صرف پختون تحفظ تحریک کا نام اُبھر کر سامنے آیا بلکہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے اس احتجاجی دھرنے سے  پختون  و دیگرمعروف سیاسی رہنماؤں نے خطاب بھی  کیا۔ سابق وفاقی وزیر پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر انجینئر امیر مقام نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے نمائندےکی حیثیت سے پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ معاہدہ کرکے ان کے تمام مطالبات حل کرنے کی تحریری یقین دھانی کرائی۔ اس معاہدے کے تحت پولیس افسر راؤ انور اور دیگر کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا۔

احتجاجی دھرنے کے خاتمے کے بعد پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں نے خیبر پختونخوا اور کوئٹہ کے رہائش پذیر پختونوں کو متحرک کرنے کیلئے جلسے اور جلوسوں کا آغاز کردیا۔ دراصل اس سیاسی حکمت عملی میں ان عناصر کے مشورے نمایاں تھے جو عوامی نیشنل پارٹی سے باہر تھے۔ جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں اور عہدیداروں کا خیال تھا کہ پختون تحفظ تحریک کے متحرک ہونے سے ان کی راہ میں حائل عوامی نیشنل پارٹی زیادہ متاثر ہوسکتی ہے۔ لہذا ان دونوں جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں نے پختون تحفظ تحریک کے ہر ایک احتجاج، دھرنے سیاسی جلسے اورجلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنما اور عہدیدار اب پختون تحفظ تحریک کی سرگرمیوں کے بارے میں محتاط دکھائی دیتے ہیں۔

پختون تحفظ تحریک میں شامل اکثریت ان مترقی اور قوم پرست خیالات رکھنے والے لوگوں کی ہے جو کسی دور میں عوامی نیشنل پارٹی میں شامل رہے ہیں مگر بعد میں وہ اے این پی کے قائدین کیلئے ناقابل برداشت ہوگئے۔ اسی طرح اس تحریک کی حمایت کرنیوالے پہلے ہی سے مترقی اور سوشلسٹ نظریات کی حامل جماعتوں اور گروپوں میں شامل ہیں۔ ابتداء ہی سے افراسیاب خٹک اور ان کے اہم ساتھی پختون تحفظ تحریک کی ہر ایک سرگرمی میں پیش پیش رہے ہیں۔ اب جبکہ افراسیاب خٹک نے ساتھیوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی سے علیحدگی احتیار کرلی ہے تو پختون تحفظ تحریک میں ان کی مخالفت بھی شروع ہوئی ہے ۔ ماضی میں ان کے ساتھ نیشنل پروگرسیوں اور قومی انقلابی پارٹی میں اکھٹے کام کرنے والے پختون تحفظ تحریک میں افراسیاب خٹک کو اہم حیثیت دینے کے خلاف ہیں اور اسی بنیاد پر اب پختون تحفظ تحریک مکمل طورپر دھڑے بندی کا شکار ہے۔ اگر ایک طرف حکومت اور حکومتی اداروں نے پختون تحفظ تحریک کے کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کرنا شروع کردیے ہیں تو دوسری طرف اس تحریک کے بعض رہنماؤں کے ملکی اور غیر ملکی اداروں کے ساتھ تعلقات اور رابطوں پر بھی اُنگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں۔ انتخابات کے بعد دونوں ممبران قومی اسمبلی نے بغیر شرط کے پاکستان تحریک انصاف کا حکومت سازی میں ساتھ دے کر قوم پرست جماعتوں کے شکوک و شہبات کو یقین میں تبدیل کردیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پختون تحفظ تحریک مستقبل میں کیا لائحہ عمل مرتب کرے گی جس سے وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا سکے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...