احتساب اور مقدار احتساب کا مسئلہ

1,159

احتساب یا اکاؤنٹبلیٹی کے بارے میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ احتساب کرنے کا حق کس کا ہے اور احتساب کی درست اور مطلوبہ مقدار کا بھی کوئی تصور ہے کہ نہیں؟ بحث کا رخ کچھ اس طرح سے ہے کہ احتساب کی اہمیت اپنی جگہ ہے مگر حکومتوں کا احتساب کرنا کس کا حق ہے؟ شخصی حوالے سے آپ سے یہ سوال کرنے کا حق کس کس کو ہے کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟ فون پر کس سے مخاطب تھے، تاخیر سے کیوں آئے وغیرہ وغیرہ؟ ظاہر ہے آپ یہ سوالات کرنے کا حق ہر شخص کو برابر نہیں دے سکتے۔ اسی طرح حکومت اور اس کے اداروں سے یہ سوال کرنے کا حق کسے حاصل ہے کہ آپ نے آئی جی کا تبادلہ کیوں کیا ہے؟ فلاں ادارے کا سربراہ مخصوص شخص کو کیوں لگایا ہے؟ فلاں ادارے کی نجکاری کیوں کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ حق عدالت کو ہے؟ میڈیا کو حاصل ہے؟ ٹی وی اینکرز کو حاصل ہے؟ عوام کو حاصل ہے؟

بات آگے بڑھائیں تو دستوریت (constitutionalism) کی مباحث بھی اس بحث میں شامل ہوجاتی ہیں کہ عوامی احتساب مقدم ہے یا غیر منتخب شدہ عدالتی و انتظامی افسران کے کیے گئے احتساب کو بھی قبولیت حاصل ہے۔ کیا پاکستان الیگزینڈر بکل کے بیان کردہ شہرہ آفاق تصور کی counter-majoritarian difficulty عملی تفسیر بنا ہوا ہے ،جہاں عدالتی فعالیت نے انتظامی امور میں تصرف کر کے جملہ معاملات کو شل کر کے رکھ دیا ہے۔

حد اعتدال سے بڑھے ہوئے احتساب (Over-accountability) کے بارے میں پاکستان میں معروضیت کے ساتھ غوروخوص کی ضرورت ہے۔ یہ سوال کہ احتساب بس احتساب ہوتا ہے یا پھر اس کی کی کوئی مناسب حد یا مقدار کا سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے؟ احتساب کی درست مقدار (Right Amount of Accountability) کی بات کی جائے تو ہارورڈ لاء اسکول کے دو پروفیسر صاحبان کا ایک بہت ہی دلچسب مقالہ سامنے آتا ہے۔  Over-Accountability کے عنوان سے یہ مقالہ Journal of Legal Analysis میں 2014 میں شائع ہوا تھا اور Jacob E. Gerson اور Matthew C. Stephenson نے مل کر اس مقالے کو تحریر کیا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت احتساب کی جو لہر چہار سو چل رہی ہے اور اس میں سرگرم اداروں (عدلیہ، حکومت، سیاسی جماعتیں، میڈیا، نیب وغیرہ)  کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس مقالے کو سبقاً سبقاً پڑھا اور پڑھایا جائے تاکہ احتساب کے عمل کے وہ پہلو بھی ہمارے سامنے آسکیں جو پوری بحث میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

آپ یقینا اس مقالے کے مصنفین سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر ایسا کرنے کے لیے بھی اس مقالے میں بیان کردہ دلائل ہی کو پڑھنا ہوگا اور اس کے جواب میں اپنا کیس پیش کرنا ہوگا۔ اس مقالے کا خلاصہ یہ ہے کہ Over-Accountability سے جو مسئلہ اور مشکل درپیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایجنٹس (حکومتی ذمہ داران و کارندے وغیرہ) اپنے پرنسپل (عوام جو ایجنٹس کو منتخب کرتے ہیں) کے مفادات کے تحفظ اور اضافے کی بجائے ان میں کمی کا باعث بن جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

“Yet accountability also has a dark side. In particular, recent work in political economy has identified and elucidated an important class of situations in which effective accountability mechanisms can decrease, rather than increase, an agent’s likelihood of acting in her principal’s interests. The problem, which we call “over-accountability,” can arise even if—in fact, precisely because—both the principals and the agents act rationally. The over-accountability problem is essentially an information problem: sometimes even a fully rational but imperfectly informed principal (e.g., the citizens) will reward “bad” actions rather than “good” actions by an agent (e.g., the President).”

یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ حد اعتدال سے بڑھے ہوئے احتساب (میں نے over-accountability کا یہی ترجمہ مناسب جانا ہے) کی وجہ سے مشکلات و مسائل اس صورت میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں، جب پرنسپل اور ایجنٹس سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کریں۔ پاکستان کے مخصوص تناظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احتساب کی لہر جب چلتی ہے تو اس کی زد میں حکومتی مشنری کی چھوٹے بڑے سارے پرزے ہی آجاتے ہیں جس سے خوف اور سنسنی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کیفیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ احتساب کے خوف سے کچھ ایجنٹس اپنا کام چھوڑ بیٹھتے ہیں اور فیصلہ سازی کو ٹرخاتے ہیں کہ کہیں پکڑے ہی نہ جائیں۔

پنجاب میں وائس چانسلرز کی جس انداز میں گرفتاریاں (چاہے وجوہات کتنی ہی درست  کیوں نہ ہوں) کی گئیں اس سے ملک بھر کی جامعات کے سربراہان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور انہوں نے فیصلہ سازی کے عمل سے ہاتھ روکنا شروع کر دیا تھا۔ یہی کچھ بیوروکریسی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس مقالے کے مصنفین اسی قسم کی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ احتساب بذات خود منزل مراد نہیں ہے بلکہ یہ گڈ گورننس کے حصول کی طرف ایک قدم ہے۔ اب اگر اس کے نتیجے میں گڈ گورننس تو دور کی بات گورننس ہی کے انہدام کا خطرہ پیدا ہوجائے تو احتساب کی مقدار و کمیت کا سوال اٹھتا ہے۔

اس مقالے کا ایک بہت ہی دلچسپ حصہ وہ ہے جس میں مصنفین نے احتساب کے نام پر کی جانے والی سطحی حرکتوں اور کارروائیوں کو بیان کیا ہے۔ احتساب کے نام پر کچھ ایجنٹس اپنے کھوکھلے وجود کو چھپانے کے لیے تین قسم کے سگنلز دیتے ہیں اور ان سگنلز کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ خود کو اہل اور قابل ثابت کیا جائے۔ Signaling Competence: Pandering, Posturing, and Persistence کے عنوان کے تحت اس مقالے کے مصنفین نے دراصل احتساب کے پورے عمل کو دیکھنے اور جانچنے کے لیے تھیوریٹیکل فریم ورک مہیا کردیا ہے۔

احتساب کے نام پر pandering سے یہ مراد ہے کہ کس طرح ایک مخصوص گروہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے درست کام کرنے کے بجائے پاپولر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ عوامی مقبولیت قائم رہے اور قابلیت کا تاثر قائم ہو۔ Posturing سے مراد یہ ہے کہ اپنی قابلیت کا سکہ جمانے کے لیے  بولڈ اقدامات اٹھائے جائیں، چاہے اس کے نتیجے میں ستیاناس ہی ہوجائے۔

Persistence کا اظہار اس وقت کیا جاتا ہے جب دوسروں کو یہ باور کروانا ہو کہ احتساب پر مامور افراد و ادارے بہت قابل ہیں اور اس کے لیے وہ پوری تندہی اور زور سے اپنے موقف پر قائم ہیں۔

یہ تین سگنلز دے کر ایجنٹس اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ Over-Accountability کا شکار ہو کر پورے نظام کو خراب کر بیٹھتے ہیں۔ مصنفین نے اس مقالے میں آگے چل کر حد اعتدال سے بڑھے ہوئے احتساب سے پیدا ہونےوالے مسائل کے تدارک کا بھی ذکر کیا ہے۔

اس مقالے پر گفتگو کرتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا  جا سکتا ہے کہ کہیں یہ A Case in Favor of Corruption and No-Accountability کے مترادف تو نہیں ہے؟ ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ مصنفین نے Under-Accountability کی مشکل کا ذکر بھی کیا ہے۔ آج پاکستان میں اس بات کی ضرورت ہے کہ Over-Accountability کی بحث کو سامنے لایا جائے تاکہ احتساب کے عمل کو زیادہ کارآمد و مفید بنایا جاسکے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...