پاک افغان تجارت تنزلی کی جانب گامزن
پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت سے نہ صرف ڈیورنڈلائن کے دونوں جانب آبادپختون قوم بلکہ کراچی سے لے کرطورخم اورچمن تک دیگراقوام اورقبیلوں کے لاکھوں لوگ بھی مستفیدہوتے رہتے ہیں روزاول سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت بالخصوص افغانستان کے لیےکراچی کے راستے ٹرانزٹ کاسلسلہ بغیرکسی رکاوٹ اورتعطل کے جاری رہاحتی کہ9/11کے بعدبھی اس دوطرفہ تجارت میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ ہوامگر2005کے بعدرفتہ رفتہ اس دوطرفہ تجارت کودیمک لگناشروع ہوگیااوراب یہ تجارت تقریباحالتِ نزاع میں ہے۔
چندروزقبل افغانستان کے صدرڈاکٹراشرف غنی نے مغربی شہرہرات میں لاپس لازولی کاریڈورکاافتتاح کیا. کوریڈوراکتوبر2017کوافغانستان،ترکی،ترکمانستان،آذربائیجان اورجارجیاکے مابین ہونے والے ایک معاہدے کے تحت تعمیرکیا جارہا ہے اورایران کی ساحلی بندرگاہوں سے افغانستان کے طورغنڈی میں داخل ہونے کے بعدشمالی صوبہ فاریاب کے اقیبہ بندرگاہ کے ذریعے ترکمانستان،آذربائیجان،جارجیااورترکی کے استنبول سے ہوتاہوایورپ تک جاپہنچے گا۔سردست اس کوریڈورکے پہلے مرحلے میں افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے مختلف اشیاء،مثلاًخشک میوہ جات،ہاتھوں سے بنی اشیاء،ہربل دوائیوں میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں،معدنیات اوردیگراشیاء پرمشتمل لگ بھگ180ٹن برآمدات کے لیےتیارہے۔ ماضی میں یہ تمام تراشیاءپاکستان ہی کے راستوں دیگرممالک بشمول ہندوستان برآمدکیے جاتے تھے جبکہ کوریڈورکی تکمیل سے اس خطے میں عالمی تجارت کومزیدفروغ ملے گاجس سے نہ صرف پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کومزیددھچکالگنے کاامکان ہے بلکہ اس سے اس خطے میں رہائش پذیرپختونوں کی معاشی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
افغانستان کے صدرڈاکٹراشرف غنی جس روزہرات میں لاپس لازولی کوریڈورکاافتتاح کررہے تھے توعین اس روزطورخم میں افغانستان سے پھلوں سے لدے لگ بھگ 70ٹرالروں کو رکے ہوئے20دن مکمل ہوچکے تھے۔ سوائے سیب باقی پھل اورسبزیاں تقریباگل سڑچکے تھے جس سے بیوپاریوں کوکروڑوں روپے کے نقصانات ہوئے جبکہ سرحدپارکھڑے ہوئے ٹرکوں کوواپس کابل اورافغانستان کے دیگرشہروں کی طرف روانہ کردیاگیاجہاں ان اشیاءکوتقریباًمفت یاخیرات کے طورپرلوگوںمیں تقسیم کیاجارہاہے۔ معاملہ صرف70ٹرکوں اورٹرالروں تک محدودنہیں بلکہ یہ روزانہ کامعمول بن چکاہے۔ روزانہ کے حساب سے درجنوں گاڑیوں اورٹرالروں کوہمسایہ ممالک کے مختلف اداروں کے اہلکارمختلف حیلوں بہانوں سے واپس کردیتے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے پاکستانی تاجروں اورٹرانسپورٹروں کے ہزاروں کی تعدادمیں ٹرک اورکنٹینرزبھی افغانستان میں رکے ہوئے ہیں جہاں مختلف سرکاری اداروں کے اہلکاران سے مرضی کے ٹیکس اورجرمانے وصول کرناچاہتے ہیں۔
پاکستان فیڈریشن آف کامرس اینڈانڈسٹری کے سابق صدراورسابق سینیٹرالیاس احمدبلورکے مطابق کسی وقت دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کاحجم 10ارب ڈالرسالانہ تھامگراب دونوںممالک کے درمیان تعلقات میں ابتری کے باعث یہ تجارت صرف300ملین ڈالرسالانہ رہ گئی ہے ۔الیاس بلورکے مطابق لاپس لازولی کوریڈورکے کھلنے سے نہ صرف دونوںہمسایہ ممالک میں دوطرفہ تجارت بالکل ختم ہوجائے گی بلکہ کراچی کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈکاسلسلہ بھی تقریباختم ہوجائے گا۔پاکستان اورافغانستان کے مشترکہ فیڈریشن آف کامرس اینڈانڈسٹری کے نائب صدراورکسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے رہنماضیاالحق سرحدی نے چندمہینے قبل بتایاتھاکہ2011کے بعدپاکستان کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈمیں کمی آرہی ہے اورلگ بھگ70فیصدٹرانزٹ ٹریڈکراچی کے بجائے وسط ایشیائی ممالک کی طرف منتقل ہوچکاہے۔اور اب الیاس احمدبلورکاکہناہے کہ بقیہ رہی سہی ٹرانزٹ ٹریڈاب لاپس لازولی کوریڈورکے ذریعے ایران کے بندرعباس اورچاہ بہارمنتقل ہوجائے گی ۔دراصل چندبرس قبل افغانستان نے پاکستان کے راستے ہندوستان کے ساتھ تجارتی راہداری کی درخواست کی،افغانستان کے اس موقف کی تائیدامریکہ نے بھی کی مگرپاکستان کسی بھی قیمت پرہندوستان اورافغانستان کے درمیان تجارتی راہداری کی اجازت اورسہولیات دینے کےلئے تیارنہیں ہے ۔افغانستان کی اس درخواست کے بدلے افغان حکومت کوشدید قسم کے مشکلات کاسامناہے۔ تاہم امریکہ اورافغان حکومت نے اس راہداری میں ہندوستان کوپاکستان کی شرکت پرراضی کرلیاتھامگرپھربھی پاکستان اس راہداری کے لیےسہولیات فراہم کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔
کئی سال قبل جب پاکستان میں نیٹوکے لیے سامان لے جانے والے اورٹرانزٹ ٹریڈمیں مصروف گاڑیوں پرہلاکت خیزحملے شروع ہوئے توافغان حکومت نے ایک اورہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تجارتی راستے کھولنے پرمعاہدے کیے اوراب ان معاہدوں کے تحت ایران کی بندرعباس اورچاہ بہاربندرگاہوں سے سامان افغانستان لایاجارہاہے۔ پاکستان کے انکار کے بعدایران کی بندرگاہوں کے ذریعے اب افغانستان اورہندوستان کے درمیان دوطرفہ تجارت دن بدن مستحکم ہوتی جارہی ہے اوراس میں مزیداستحکام سے نقصان کسی اورکانہیں بلکہ پاکستان بالخصوص پاک افغان سرحدکے دونوں جانب رہائش پذیرپختونوں کاہی ہوگا۔دہشت گردی اورمذہبی انتہاپسندی سے متاثرہونے والے خیبرپختونخوااوربلوچستان میں پختونوں کے زیرتسلط علاقوںمیں پہلے ہی سے معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابرہیں۔ بتایاجاتاہے کہ صرف رواںسال خیبرپختونخوامیں لگ بھگ362کارخانے بندہوچکے ہیں جس سے ہزاروں کی تعدادمیں لوگ بے روزگارہوگئے ہیں ۔مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی غیرتربیت یافتہ پختون مزدوروں کی واپسی کے سلسلے میں اب تیزی آرہی ہے۔ سابق سینیٹرالیاس احمدبلورنے کہاہے کہ پاکستان اورافغانستان کے مابین دوطرفہ تجارت اورسفارتی تعلقات میں خرابی کے انتہائی منفی اثرات بالخصوص خیبر پختونخوا پرمرتب ہوں گے جوان کے بقول کسی بھی طورپاکستان کے بہترمستقبل کے حق میں نہیں ہے۔
فیس بک پر تبصرے