پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کا علاج و تشخیص

801

گذشتہ دنوں  مراکش کے شہر کاسابلانکا میں صحت کے بین الاقوامی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے زیراہتمام ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی کی ادوایات و تشخیص تک رسائی کے بارے میں ایکسپرٹس کی میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا۔ ڈبلیو ایچ او کے EMRO ریجن سے نمائندہ ممالک سے مختلف نوعیت کی تخصصات کے حامل ایکسپرٹس کے علاوہ اس میٹنگ میں ڈبلیو ایچ او ہیڈ کواٹرز جنیوا سے بھی ایک ٹیم شریک تھی۔ مجھے میٹنگ کے دوسرے دن کے پہلے سیشن میں اپنی گذارشاتLegal and Regulatory Issues in Access to HCV Drugs & Diagnostics کے عنوان سے پیش کرنے کا موقع ملا۔

گفتگو کا محور بنیادی طور پر یہ بات رہی کہ گذشتہ چار سالوں سے ہیپاٹائٹس کے علاج میں جو انقلابی تبدیلیاں نئی اور موثر ادوایات کی دریافت سے رونما ہوئی ہیں، ان کا کماحقہ فائدہ غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کے مریضوں کو پوری طرح نہیں پہنچ پا رہا۔ یاد رہے کہ ہیپاٹائٹس سی کے علاج کی نئی ادوایات (سوفس بوویر، ڈکلا وغیرہ) کے مارکیٹ میں آنے سے قبل اس مرض کے شکار مریضوں کا علاج انٹرفیرون پر مشتمل تکلیف دہ ادوایات ہی سے ممکن تھا اور اس کے نتائج بھی بہت امید افزاء نہیں تھے۔ نئی ادوایات کی آمد نے بہت آسانی پیدا کر دی ،جس سے کروڑوں مریضوں کے لیے نئی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اس ضمن میں امریکی دوا ساز کمپنی گیلیاڈ کی دوا سوفس بوویر (برانڈز نام سوالڈی) کا چرچا پوری دنیا میں سنا گیا اور اسے امریکہ و یورپ کی مارکیٹ میں چوراسی ہزار ڈالر فی کس ٹریٹمنٹ کی بھاری قیمت پر مارکیٹ میں لایا گیا تو وہ امیدیں جو سائنسی ترقی و پیش رفت سے بندھی تھیں ، دواساز کمپنی کی لالچ کے سبب دم توڑنے لگیں۔انڈیا، پاکستان، مصر، چین اور دیگر کئی ممالک میں مقامی دواساز اداروں نے اس دواء (اور اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس کی دیگر نئی ادوایات) کے سستے جنرک ورژن تیار کیے جس کے نتیجے میں گیلیاڈ کی حد سے بڑھی ہوئی قیمتیں ہوا میں تحلیل ہوگئیں اور مریضوں کے لیے علاج کی سہولت پیدا ہوتی گئی۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کا شکار لگ بھگ دس ملین کے قریب لوگ  ہیں اور اس وقت ملک میں 27 کمپنیاں ہیپاٹائٹس کے علاج کی نئی ادوایات بنا رہی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں مریضوں اور کمپنیوں کی یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ مصر کے بعد دنیا میں اس مرض کے شکار سب سے زیادہ مریض پاکستان میں موجود ہیں۔ مقامی طور پر تیار کی جانے والی ادوایات کی بدولت دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کی سب سے زیادہ سستی ادوایات اس وقت پاکستان میں بن رہی ہیں۔ اس ساری جدوجہد کے باوجود ملک میں ابھی بھی کئی ملین مریض علاج نہیں کروا پا رہے اور یہ مرض پاکستان کے لیے ابھی بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

ملک میں 27 کمپنیوں کا سستی ادوایات تیار کرنا خوش آئند امر ہے مگر حالیہ مہینوں میں یہ شکایت سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں کہ پاکستان میں کچھ مریضوں میں ہیپاٹائٹس کی بعض نئی ادویات کے خلاف بھی مزاحمت (drug resistance) پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ نئی ادوایات کا مریضوں پر مزاحمت کی بناء پر بے اثر ہونا کسی طور اچھی بات نہیں۔ نئی دوا آسانی سے معرض وجود میں نہیں آتی اور اگر ہم اس کے غلط استعمال اور عدم احتیاط کی وجہ سے اسے ضائع کردیں تو یہ ایک انسانی المیہ بن جاتا ہے۔ پاکستان میں ادوایات کی سرعام دستیابی اور تشخیص کے بغیر استعمال کی وجہ سے اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پہلے سے ہی صحت عامہ کے میدان میں ایک درد سر بن چکی ہے۔ اگر یہی کچھ ہیپاٹائٹس کی نئی ادوایات کے ساتھ بھی ہونے جا رہا ہے تو یہ بحیثیت قوم ہماری نالائقی ہوگی کہ ہم کس طرح قیمتی متاع علاج کو بھونڈے اور غلط طریقہ استعمال سے ضائع کررہے ہیں۔ اس سے نقصان صرف اس شخص کا نہیں ہوتا جس میں دوا کے خلاف مزاحمت و مدافعت پیدا ہوچکی ہے بلکہ یہ وبال بن کر پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ ہیپاٹائٹس کے کیس میں تو یہ اور بھی بڑی مصیبت بن سکتی ہے کہ ایک مزاحمت کا حامل مریض چلتا پھرتا ایٹم بم ہےاور جہاں بھی اس کا انفیکشن منتقل ہوگا وہاں مزاحمت کی مصیبت بھی ساتھ ہی جائے گی۔

اس مشکل سے نپٹنے کے کئی طریقے ہیں مگر پاکستان کو فوری طور پر یہ کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام کمپنیاں معیاری ادوایات بنا رہی ہیں۔ انتہائی کم قیمتوں اور مسابقت کی فضا کے باعث ممکن ہے کہ کچھ کمپنیاں سستے خام مال کے حصول کے چکر میں اور لاگت کم کرنے کے لیے کچھ ایسے کام شروع کردیں جو معیار کے کم از کم قابل قبول پیمانے پر قطعی طور پر پورا نہ اترتا ہو۔ جب دوا کا معیار ٹھیک نہیں ہوگا تو اس سے مریض میں مزاحمت پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں کم قیمتوں کا حصول اچھی بات ہے مگر معیار کے بارے میں سوالات کھڑے ہوتے رہتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ معیار کو مقامی ادویات ساز کمپنیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا وطیرہ رہا ہے اور اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی کمپنیوں میں سے کچھ یقینا معیار پر سمجھوتہ کر جاتی ہیں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بھی ادوایات کی تیاری کے کم از کم بین الاقوامی معیارات کو ملک میں ابھی تک لاگو نہیں کر پائی۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔

دلچسپ بات یہ  ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائیٹس کا علاج سستا ہے مگر اس کی تشخیص بہت  مہنگی ہے۔ تشخیص کے آلات (Diagnostics) کی مارکیٹ پر کوئی حکومتی کنٹرول موجود نہیں ہے اور ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے۔ تشخیص کے ٹیسٹ میں استعمال ہونے والی اشیاء کے کوالٹی کنٹرول کا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کا خمیازہ اکثر مریضوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس تشخیص کے آلات کو ریگولیٹ کرنے کا مینڈیٹ تو موجود ہے مگر ابھی تک اس سمت میں عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

اسی طرح ملک میں رجسٹرڈ سستی ادوایات کی دستیابی کے باوجود سندھ اور خیبر پختونخوا میں حکومتی ٹینڈرز میں یہ شرط شامل کی گئی ہے کہ ہیپاٹائٹس کی ادوایات یا تو برانڈڈ کمپنی کی ہوں یا پھر ان کے لائسنس کے تحت بنی ہوئی ہوں۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او پری کوالفیکیشن کی شرط بھی بعض جگہوں پر لگائی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک کے اندر تیار ہونے والی ہیپاٹائٹس سی کی کوئی بھی دوا حکومتی ٹینڈر میں نہیں خریدی جاسکتی اور انڈیا کی کمپنیوں کو حکومتی سپلائی کے ٹینڈر ملنے کا راستہ کھل جاتا ہے۔ یہ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اس کا ایک پہلو دوا کے معیار کا ہے اور دوسرا  مہنگی قیمتوں کا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ستر فیصد سے زیادہ مریض ہیپاٹائٹس کا علاج اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے کرواتے ہیں۔ جن تیس فیصد مریضوں کو بمشکل حکومتی ذرائع سے علاج ملتا ہے ان کے لیے بھی حکومت نے مہنگی ادوایات ہی کو خریدنا ہے تو یہ دوہرا عذاب بن جاتا ہے۔ حکومت کو معیاری مگر مقامی طور پر بننے والی سستی ادوایات خریدنے کی پابندی کرنے چاہیے تاکہ کم بجٹ کے ساتھ زیادہ مریضوں کو علاج کی سہولت دی جاسکے۔

دیگر ممالک کے تجربات سن کر مجھےبار بار یہ احساس پیدا ہوتارہا  کہ صحت عامہ کو فوقیت دینے میں پاکستان ابھی بھی بہت پیچھے ہے۔ اکثر ممالک میں ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لیے حکومتی خدمات بڑے پیمانے پر دستیاب میں۔ مصر کی معیشت کے احوال ہمارے سامنے ہیں مگر ہیپاٹائٹس کے علاج کو ممکن بنانے کے لیے وہاں کی حکومت نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمیں اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...