سوشل میڈیا کا غیر محفوظ استعمال ایک ‘‘نیا خطرہ’’

1,010

ایک ایسا معاشرہ جہاں انصاف ملنے میں دیر لگے یا اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔۔۔ وہاں کچھ احتیاطی تدابیر ضروری ہیں، تاکہ نا کردہ غلطیوں کی سزاؤں سے بچا جا سکے۔

پاکستان کے شمالی مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں تشدد کے ایک ’بے رحمانہ‘ واقعہ نے جہاں ایک طرف ملک کو جھنجوڑ کر رکھا دیا،  وہیں کہیں دبے اور کہیں کھلے عام یہ بھی کہا جانے لگا کہ اس مرتبہ کسی اور نہیں بلکہ جدید و اعلیٰ تعلیم کے ادارے میں پڑھنے والوں نے خود ہی قانون کو ہاتھ میں لے کر محض الزام کی بنیاد پر مشال خان کی زندگی کا ’چراغ گل‘ کر دیا۔

اس تیز رفتار دور میں کیا انصاف ایسے بھی ہوتا ہے، الزام لگے، صفائی کا موقع نہ ملے اور ایک خاندان و معاشرے کو بدلنے کا خواب دیکھنے والا نوجوان سر عام مار دیا جائے۔

جرنلزم کے طالب مشال خان کو عبدالوالی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے جانے کے بعد جہاں معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے یہ کہتے نظر آئے کہ یہ فعل معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے۔۔۔۔۔وہیں برداشت کا ایک نمونہ بھی نظر آیا۔۔۔ مشال خان کے والد اقبال خان کا صبر اور تحمل بہت سے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔

‘‘نہ غصہ، نہ گلہ، بس اپنے بیٹے کی صفائی اور انصاف کی طلب’’ یہ ہی کچھ تھا اقبال خان کی زبان پر۔

لیکن وہ مطالبات جو ایک مقتول نوجوان بیٹے کے والد کو ان حالات میں کرنے چاہیئے تھے، زبان زد عام ہوئے۔

شاید یہ ہی فتح ہے، مشال خان کی سوچ کی۔

توہین مذہب کے خلاف قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کی تجویز ایک ایسے ایوان میں چند ہی منٹوں میں متفقہ طورپر منظور کر لی گئی جہاں اس معاملے پر بات کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔

لیکن اسے ایک درست سمت کی جانب محض پہلا قدم ہی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اگر مشال خان کے قتل کا معاملہ بھی نئی خبروں اور مسائل کی بھیڑ میں کہیں دھندلا گیا تو پھر شاید ایسے اقدامات جلد تجویز نہ کیے جا سکیں جن سے قانون کے غلط استعمال کے راستے بند ہو سکیں گے۔

مشال کے قتل کی روداد نے صرف قانون کو موثر بنانے اور اس کے نفاذ ہی کی نشاندہی نہیں کی بلکہ ایک ایسے پہلو کو بھی اجاگر کیا جس پر پہلے پاکستانی معاشرے میں اتنی بات نہیں کی جاتی رہی۔

وہ یہ کہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر کیسے کسی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

وہ ‘سوشل میڈیا’ جو بہت سے لوگوں کے لیے محض معلومات کے حصول اور تبادلے کا ذریعہ ہے اور اس کے استعمال و مقبولیت میں حالیہ برسوں میں پاکستان میں تیزی سے اضافہ ہوا، لیکن سوشل میڈیا صارفین کے لیے ‘جعلی اکاؤنٹس’یقیناً ‘خطرے کی گھنٹی’ ہیں۔

مشال خان نے بھی چند ماہ قبل فیس بک پر اپنے ایک پیغام میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی شخص جعلی اکاؤنٹ بنا کر اُنھیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ آواز بروقت نہ سنی جا سکی۔

فرضی یا جعلی اکاؤنٹ بنا کر کسی کی آواز بننے کی کوشش کتنا ‘‘بڑا خطرہ’’ ہے، اس کی تکلیف کوئی مشال کے خاندان کی آنکھوں سے با آسانی پڑھ کر محسوس کر سکتا ہے۔

چند ہفتے قبل جب ایک ایسی تقریب میں بیٹھنے کا موقع ملا جہاں ‘سوشل میڈیا’ کے محفوظ استعمال پر بات کی جا رہی تھی تو بعض دیگر شرکاء کی طرح یہ موضوع میری توجہ کا محور نہ بن سکا۔

لیکن حالیہ واقعہ کے بعد اتنا کہنا تو ضروری ہو گیا ہے کہ جب اپنی دیگر قیمتی اشیاء کو حفاظت یا اُنھیں ‘لاک’ میں رکھنے کو اہم سمجھا جاتا ہے وہیں اپنے موبائل فون، سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر اپنے اکاؤنٹس کے محفوظ استعمال کو بھی یقینی بنانے پر توجہ دیںا اس دور کا تقاضا بن گیا ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں انصاف ملنے میں دیر لگے یا اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔۔۔ وہاں کچھ احتیاطی تدابیر ضروری ہیں، تاکہ نا کردہ غلطیوں کی سزاؤں سے بچا جا سکے۔

نوٹ :محمد اشتیاق گزشتہ لگ بھگ 20 سالہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور اس دوران بین الاقوامی اور مقامی نشریاتی اداروں کے لیے اہم ملکی و عالمی اُمور کے بارے میں لکھتے رہے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...