فہم دین میں زمان و مکان کے عناصرکی اہمیت

1,417

علمائے اسلام کے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ پوری تاریخ انبیاءمیں دین اپنی کلیات کے اعتبار سے تبدیل نہیں ہوا لیکن شریعتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں

دین کے بعض پہلو تو ایسے ہیں جہاں زمان و مکان اثر انداز نہیں ہوتے، ہاں البتہ معارف اور فہم کی گہرائی اور وسعت میں فرق آسکتا ہے، جیسے علوم کی بنیادیں ہوتی ہیں۔ علوم کی کلیات عام طورپر نہیں بدلتیں، جیسے علم الحساب پرائمری سطح کے بچے کے لیے جو بنیادیں فراہم کرتا ہے، وہی اگلے مرحلے پر وسعت اور گہرائی کے ساتھ طالب علموں پر کھلتی رہتی ہیں۔ مڈل کا طالب علم ایک قدم آگے بڑھتا ہے ،علم الحساب میں میٹرک کاطالب علم ایک قدم اور آگے بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ پی ایچ ڈی تک علم الحساب کی وہ بنیادیں اور کلیات تبدیل نہیں ہوتیں جو پرائمری کے طالب علم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔

دینی معارف بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں اور انسانوں کی ان تک رسائی بھی مختلف درجے کی ہوتی ہے، حتیٰ کہ انبیاءکی بھی۔

ہماری پہلی بات کہ انبیاءو رسل کے لیے معارف کی کلیات تبدیل نہیں ہوتیں ، کی تائید قرآن حکیم کی اس آیت سے ہوتی ہے:

ہم اپنے رسولوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ (بقرہ:285)

دوسری بات کہ فہم کی گہرائی اور وسعت میں فرق آ سکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں معرفت کی گہرائی اور وسعت میں فرق آسکتا ہے، کے لیے اس آیہ مجیدہ سے شہادت لی جاسکتی ہے:

یہ رسول ہیں جن میں بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔  (بقرہ:253)

بعض روایات میں مختلف آسمانوں پر معراج کی رات آنحضرت ؐ کا مختلف نبیوں سے ملاقات کرنا شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ پہلے آسمان سے لے کر ساتویں آسمان تک آنحضرت ؐ کی ملاقات مختلف انبیاءسے ہوئی۔

پہلے آسمان پر آپؐ کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور پھر مختلف آسمانوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جب کہ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آسمان دراصل انبیاءکے مدارج و مراتب کی طرف اشارہ ہیں۔ اس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ فرق درجہ معرفت کے فرق پر منتج ہوتا ہے جس میں حقیقت معرفت تبدیل نہیں ہوتی۔ چنانچہ قرآن حکیم میں انبیاءکی معرفت کے ایک سرچشمے اور اس کی ایک حقیقت کی طرف مختلف آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

ہم نے آپ پر یوں وحی کی جیسے ہم نے نوح اوران کے بعد کے نبیوں پر وحی کی اور اسی طرح ہم نے وحی کی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ ، ایوب،یونس، ہارون اور سلیمان پر اور داﺅد کو ہم نے زبور عطا کی۔ ( نساء: 163)

اس سلسلے میں ایک اور آیت میں لفظ دین کے ساتھ اس مسئلے کی صراحت کی گئی ہے:

اس نے تمھارے لیے دین میں سے وہی کچھ مقرر کیا جس کی وصیت نوح کو کی گئی تھی اور جسے (اے محمد!) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی وصیت ہم ابراہیم ، موسی اور عیسیٰ کو کرچکے ہیں۔(شوریٰ: 13)

جب کہ کمال کے مرحلے طے ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی:

آج کے دن ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔ (مائدہ:3)

البتہ ہماری آج کی گفتگو زیادہ تر دین کے دوسرے حصے سے متعلق ہے جو تبدیلیوںکا میدان ہے۔

علمائے اسلام کے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ پوری تاریخ انبیاءمیں دین اپنی کلیات کے اعتبار سے تبدیل نہیں ہوا لیکن شریعتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ توحید اورآخرت کا عقیدہ تبدیل ہونے والا نہیں۔ اسی طرح اخلاقیات، انسانوں کے باہمی تعاون اور شرف انسانیت کا قانون و اصول بھی تبدیل ہونے والا نہیں۔ کسی معاشرے میں دوسروں کے قبول شدہ حقوق پر تجاوز کو بھی ہر دور میں ظلم ہی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے بندے اس کی معرفت حاصل کریں اور اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں اس کی طلب پیدا ہو جائے جس کا اظہار وہ عبودیت اور بندگی سے کریں، دین کا یہ تصور بھی تبدیلی کی گنجائش نہیں رکھتا۔

تبدیل ہونے والے قوانین معاشرے سے متعلق ہی ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ نبیوں کے ادوار میں اس تبدیلی کوشریعت کی تبدیلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر جذبہ بندگی غیر متبدل ہے تو اظہار عبودیت کا انداز ضرور تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال آخری پیغمبر کے دور میں قبلہ کا تعین ہے۔ گزشتہ اقوام میں قبلہ کا تصور کچھ ایسا مضبوط دکھائی نہیں دیتا۔ بعض میں ہے، بعض میں اس کے تصور کی تاریخ شہادت نہیں دیتی۔ اسی طرح روزے کے تفصیلی احکام بھی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ نماز کا انداز نیز نماز میں پڑھی جانے والی عبارتیں بھی مختلف رہی ہیں اور ہو سکتی ہیں۔اللہ کو یاد کرنے کے لیے اوراحکامِ دین کو بیان کرنے کے لیے زبانیں بھی مختلف رہی ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ عبادت کا طریقہ انبیاءہی تعلیم دے سکتے ہیں اور وہی امتوں کے لیے حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے تو اس پر ہمارے نزدیک کلام کی گنجائش کم ہے البتہ اس کم گنجائش کو ہم اجتہادی معیارات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور ایسے مسائل کو اجتہادی مسائل میں سے سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں علماءکے استنباط میں فرق اس امر کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ یہ مسائل زیادہ تر اجتہادی حدود کے اندر ہیں۔ اس کی مثال قبلہ کا رخ واضح نہ ہونے کی صورت میں نماز کے لیے رخ کا تعین ہے۔

جہاں تک سماجی مسائل اور معاملات زندگی کا تعلق ہے تو اس میں شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہی تغیرات کا محل ہے۔ کبھی زمانہ اثر انداز ہوتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ حکم بدل جائے تو کبھی مکان،جغرافیہ اور علاقہ کی تبدیلی حکم کی تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہے۔

انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاءاور تیز رفتار تبدیلیوں نے حکم کی تبدیلیوں کے تقاضے بڑھا دیے ہیں۔ کائنات کی معرفت کی وسعت نے، انسانی علوم کے ارتقاءنے، تجربات و شواہد کے پھیلاﺅ اور تنوع نے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوش ربا ترقی نے، ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک انسان کی رسائی نے اورنئے جہانوں کی دریافت نے دنیا ہی بدل دی ہے۔

میڈیکل سائنس کے متنوع شعبوں کی پیش رفت نے، علم نفسیات اور بشریات و سماجیات کے علوم کے ارتقاءنے انسانی فکر کے انداز کو تبدیل کردیا ہے۔

عالمی اداروں اور عالمی قوانین کے بننے سے، تجارت کی نئی شکلوں کے پیدا ہونے سے، لین دین کے طریقوں کی تبدیلی سے، ریاستوں کے جدید تصورسے، آئین وقانون کی بنیادوں پر معاشروں کے چلن سے، فلسفہ قانون و فلسفہ تعلیم میں پیدا ہونے والے تصورات سے بھی بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔

زبان و بیان کے علوم نے نئی جہتیں پیدا کر دی ہیں۔ متون کی پرکھ کے لیے نئے نئے علوم وجود میں آچکے ہیں۔ زبانوں کے ارتقاءکے بارے میں نظریات اور فلسفوں میں گہرائی پیدا ہو گئی ہے۔ حروف اور لفظوں کی شناخت کا چند صدیاں پہلے کا علم جو پہلے آسمان پر ٹھہرا ہوا ہے، جب اوپر کے دیگر آسمانوں کی طرف دیکھتا ہے تو حیرت میں کھو جاتا ہے۔

پوری دنیا میں بچوں، عورتوں اور مردوں کے حقوق اور قانونی مساوات کی طرف پیش رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ تشکیل خاندان کے معاملات بھی طرح طرح سے زیر بحث ہیں۔

ایسے میں دین کے حقائق پر ایمان رکھنے والوں کو انسانیت کے لیے کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام حقائق کو سامنے رکھیں۔ جمود، تحجر ، رجعت پسندی اور ٹھہراﺅ کا رویہ اپنانے سے ارتقاءکے تیز رفتار قافلوں اور کاروانوں کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔

انسان کی کلوننگ کے امکانات نے تو سوچنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ خدا جانے کلوننگ سے تیار کردہ افراد کی قانونی حیثیت پر کیا سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کے سماجی کردار کا تعین کیسے ہوگا اور بڑی طاقتوں نے اپنی ٹیکنالوجی کی قوت سے ایسے ہزاروں ، لاکھوں انسان بنا لیے تو وہ موجود انسانیت کے ساتھ کیا کھلواڑ کریں گے۔ انسان جتنا سوچتا چلا جاتا ہے حیرت کی نئی دنیا نمودار ہوتی چلی جاتی ہے۔

انسان جمادات کی الیکٹرونک ٹرانسمیشن کرکے اب حیات کی ٹرانسمیشن کے امکانات پر تجربات کررہا ہے۔ جنس کی تبدیلی کے تو بہت سے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔

اگر ہماری ان باتوں میں سچائی کا عنصر موجود ہے تو پھر جمود پر اصرار تنزل اور پستی کی طرف لے جانے کے سوا کسی نتیجے پر نہیں پہنچائے گا۔ کسی ایک مسئلے کی مختلف جہتوں کے پیش نظر، ہر جہت کے ماہر کو اس مسئلے کے حل کے لیے شریک مشورہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ثبوت واثبات اور حقائق تک پہنچنے کے طریقے مختلف ہو گئے ہیں۔ اب اگر زبان نہ بولے تو اسی دنیا میں ہاتھ شہادت دینے لگے ہیں۔ ایسے میں قدیم قانون شہادت کے طریقوں پر جم جانا علم و دانش کے کس اصول کے تحت روا ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ اہل مذاہب کی ایک بڑی تعداد اجتہاد کی ضرورت و اہمیت کی قائل ہے بلکہ زیادہ تر علماءکی رائے ہے کہ وہ اجتہاد سے ہی گزر کر کسی حکم تک پہنچتے ہیں، تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ جزوی طور پر اس بات میں صداقت ہونے کے باوجود جاری اور مروج اجتہاد، علوم کے ارتقاءاور دریافت شدہ حقائق کی وسعت اور تاثیر سے بڑی حد تک بے گانہ ہے۔ اگر ہر شعبے کے متعلقہ ماہرین سے مسئلے میں رجوع نہیں کیا جاتا، اگر مسئلے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے مشاورت اور مذاکرہ سے نہیں گزرا جاتا اور اگر کہیں کوئی مجلس فقاہت قائم بھی ہے تو وہ زمان و مکان کی گو نا گوں تبدیلی اور علوم میں ہونے والی پیش رفت پر نظر نہیں رکھتی تو وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نتیجوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے۔

اہل مذہب کو اس حوالے سے اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ دنیا کی بیشتر جمعیت اور بڑی تعداد میں ممالک ان کے نتائج فکر پر نظر کیے بغیر کاروبارِ حیات میں مگن ہیں اور ریاستوں اور اداروں کا نظام چلا رہے ہیں۔ خود مسلم دنیا میں بھی علمائے دین کہلانے والے محترم احباب کے مبلغِ علم اور طرزِ تفکر کی طرف اعتناءنہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، بعض معاشروں کا استثناءالبتہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مذہب کے نام پر شدت پسندی بلکہ تشدد و دہشتگردی نے مذہب کو نئے چیلنجز سے دوچار کردیا ہے۔ بڑی تعداد میں ایسے لوگ دین اور مذہب کی ترجمانی کے منصب پر آ بیٹھے ہیں جو تمام تر عصری پیشرفت اور تہذیبی مظاہر کو ملیا میٹ کر دینے کو ہی دین کا تقاضا سمجھتے ہیں۔

ہماری ناچیز رائے میں دانشِ فقہ کی حدود اور رائج اصولوں کی بازنگری اور ان پر ایک نگاہ بازگشت بہت ضروری ہو گئی ہے۔ وہ دور بدل گیا جب استنباط کے فقہی اصول اخذ کیے گئے تھے اور جنھیں اب بھی اجتہادی عمل میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اصول فقہ کی تاریخِ ارتقاءپر نظر ڈالی جائے تو ماضی میں یہ اصول تبدیل ہوتے رہے ہیں اور ان کے اندر داخلی شرائط اور قیود میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے۔ قواعد بھی نئے سے نئے بنتے رہے ہیں اور تبدیل ہوتے رہے ہیں، جب ماضی میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے تو اب کیوں نہیں ہو سکتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود اصول فقہ کے ڈھانچے اور استنباط کے معیارات اور طرز عمل پر ازسرنو غوروفکر کی ضرورت ہے۔

یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ انبیاءکے ادوار میں اورخاص طور پر آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں معاشرتی اور سماجی قوانین کا ارتقاءکس طرح سے ہوا۔ کن اصولوں کی بنیاد پر موجود قوانین کو اپنا لیا گیا اور کس فلسفے کی بنیاد پر ان میں تبدیلی کی گئی۔ کیاکسی رائج قانون کا اپنایا جانا یا کسی موجود قانون میں تبدیلی پیغمبر کی معرفت کلی کی بنیاد پر تھی یا ڈکٹیشن کی بنیاد پر؟ پیغمبر کی معرفت کلی اور باطنی حقائق کے ادراک کا سرچشمہ یقینی طورپر باطنی تھا اور عالم غیب سے ان کے اتصال کا نتیجہ تھا لیکن ان کی عقل و خرد اور فہم و فراست کو اس اتصال نے معطل نہیں کردیا تھا۔ہاں البتہ عالم قدس و غیب سے ان کے ارتباط کی وجہ سے ان کے فیصلے کی نہج یقیناً الٰہی تھی۔

ایک اور پہلو سے دیکھیں تو وہ دین جسے ہر دور اور ہر علاقے کے لیے بھیجا گیا ہے اور جسے ہمیشگی و دوام حاصل ہے، اس کا دارومدار کلیات اور اصولوں پر ہی ہو سکتا ہے۔ زندگی کی ہر تفصیل اور ہر جزئی کے بارے میں دائمی فیصلہ نہ فقط انسانی عقل و خرد کو معطل کردینے اور معاشرے میں جمودکا باعث بنتا ہے بلکہ بدلتی ہوئی حقیقتوں کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے سماج سے غیر متعلق ہو جاتا ہے اور ایسا خالق کائنات کی طرف سے پسندیدہ دین کے لیے فرض نہیں کیا جاسکتا جو خود انسان کی عقل و فطرت کا خالق ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...