کیا افغان مسئلہ کا حل قریب ہے؟

789

افغانستان کے صدر ڈاکٹراشرف غنی کے معاون خصوصی  اورافغان امن کمیشن کے سربراہ وسابق افغان سفیرمحمد عمر داؤدزئی  پاکستان کا پانچ روزہ دورہ مکمل کرکے کابل واپس روانہ ہوگئے ہیں ۔محمد عمر داؤدزئی عین اُس وقت پاکستان کے دورے پر تھے جس وقت پہلے طالبان کے رہنماووں نے سعودی عرب جانے اور بعد میں قطر ہی میں امریکی ایلچی ڈاکٹر زلمے خلیل زاد ہی سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کئی ممالک کا دورہ مکمل کرکے اُنہیں افغانستان کے بارے میں پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا ۔ جبکہ اسی دورا ن امریکہ نے افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں چین اور ہندوستان کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا ۔ امریکی ایلچی ڈاکٹر زلمے خلیل نے بھی جنوب ایشیاء ،چین اور روس کے دورے پر بھی پہنچ چکے ہیں ۔ اسی طرح پہلی بار ہندوستان نے بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کی ۔ حالانکہ ماضی میں ہندوستان نے طالبان کے ساتھ ہر قسم کی مذاکرات کی مخالفت کی ہے اور مذاکرات کے بجائے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی پر زور دیتارہا۔

ان حالات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے کوششیں آخری اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکی ہے ۔ افغان صدر کے خصوصی ایلچی اور سابق وزیر داخلہ محمد عمر داؤدزئی کا کہنا ہے کہ 2019 ہی  افغان مسئلے کے حل کا سال ہوگا ، لہذا تمام فریقین کی کوشش ہے کہ مسئلہ حل بھی ہوجائے اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی یقینی ہو ۔ عمر داؤدزئی نے دور ہ پاکستان کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ چیدہ چیدہ سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی ،جن میں اسفندیار ولی خان ، آفتاب احمدخان  شیر پاؤاور سراج الحق نمایا ں ہیں ۔ ان تینوں سیاسی رہنماؤں نے افغانستان میں قیا م امن اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام فریقین کے مابین مذاکرات پر زور دیا ہے جبکہ اسفندیار ولی خان اور آفتاب احمدخان شیرپاؤنے واضح الفاظ میں کہاہے کہ افغان مسئلے میں افغان حکومت سب سے بڑا اور مرکزی فریق ہے۔ لہذا افغان حکومت کے بغیرمذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا ۔

1988میں جب روس اور امریکہ کے درمیان بلاواسطہ معاہدہ افغان حکومت اور پاکستان کے ذریعے ہوا تو اُس کے بعد  ڈاکٹر نجیب اللہ نے تمام فریقین کو مذاکرات کی دعوت دی تھی مگر پاکستان میں مقیم جہادی رہنماؤں نے نہ صرف مذاکرات کی اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا بلکہ ڈاکٹرنجیب اللہ کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات اور ملاقات تک کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو نظر انداز کرکے پشاور ، جلال آباد ، اسلام آباد اور سعودی عرب میں ہونے والے  مذاکرات کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔

افغان صدر کے خصوصی نمائندے عمر داؤدزئی سے ملاقات کے بعد اسفند یار ولی خان نے ایک اخباری بیان میں واضح الفاظ میں بشمول افغان حکومت تمام فریقین کومذاکراتی عمل میں شامل کرنے کامشورہ دیا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان حکومت نہ صرف آئینی اورقانونی ہے بلکہ اس حکومت کو کروڑوں افغان عوام کی حمایت حاصل ہے ۔لہذا افغان حکومت کوکسی بھی طور پر مستقبل کیلئے معاہدوں سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ بھی اطلاعات ہے کہ امریکی حکومت نے ڈاکٹر زلمے خلیل زادکے دوروں اور مختلف فریقین سے مذاکرات کے بعد ایک ا من فارمولا طے کیا ہے اور ا ب اس فارمولے کے بارے میں مختلف فریقین کو اعتماد میں لینے کیلئے زلمے خلیل زاد علاقے کے دورے پر ہیں۔

دراصل سرحدپار افغانستان میں جاری حالات کے سب سے زیادہ اثرات خیبر پختونخوا پر بالخصوص اور پاکستان پر بالعموم پڑتے ہیں ۔ لہذا اسفندیار ولی خان ، آفتاب احمدخان شیر پاؤ، مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق کی آراء کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا فرض بنتاہے کہ وہ افغان مسئلے کے دیرپا حل کیلئے پختون سیاسی رہنماؤں کو ضرور اعتماد میں لیں ۔ ٹھیک ہے کہ حکمران جماعت میں قابل اور تعلیم یافتہ پختونوں کی کمی نہیں ہے مگر اسفندیار ولی اور آفتاب احمدخان شیر پاؤ کی نسبت یہ نوجوان کم تجربہ کارہیں ۔ ان نوجوانوں کا افغانستان میں اتنا تجربہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ ماضی کے غلط تجربات اور نامناسب اقدامات کومدنظر رکھ کر ایک ایسا لائحہ عمل اپنانا چاہیے جس سے نہ صر ف افغانستان میں پچھلی چاردہائیوں سے تباہی اور بربادی کا سلسلہ ختم ہو جائے اور جنگ سے تباہ حال ملک میں امن وامان قائم ہوجائے ۔یقینا ً افغانستان میں قیام امن سے پاکستان بھر بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالات بہتر ہونے کی توقع ہے۔افغانستان کے ساتھ ابتر حالات کے نتیجے میں اس وقت پختونوں کی سرزمین پر بے روزگاری ،غربت اور افلاس کا دور دورہ ہے اور افغانستان میں قیام امن سے نہ صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رحجان پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے ملک بھر میں معاشی ناہمواری ،غربت اور بے روزگاری میں بھی کمی آئیگی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...