نئی افغان صورت حال اور انڈیا

847

افغانستان میں امریکی عمل دخل میں کمی اورطالبان کے کردارمیں اضافہ کالازمی اثرخطے پرپڑرہاہے۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اوراس کے تناظرمیں امریکی صدرٹرمپ کے فوجی انخلاء نے خطے میں ایک نئی صورتحال پیداکی ہے۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندرمودی کیلئے مضحکہ خیزصورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب امریکی صدرٹرمپ نے کہاکہ مودی پانچ گھنٹہ کی  ملاقات میں بارباراسے بتاتے رہے کہ انڈیانے افغانستان میں لائبریری بنائی ہے۔ امریکی صدرنے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ افغانستان میں اس لائبریری کوکون استعمال کررہاہے۔ صدر ٹرمپ  نے  مزید کہاکہ انڈیا نے افغانستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔

دوسری طرف یہ دعویٰ کیاجاتاہے کہ اگرچہ انڈیانے افغانستان میں فوج نہیں بھیجی مگرفوجی مشیروں اورجنگی ہیلی کاپٹرزکی فراہمی کے ساتھ ملک کی تعمیروترقی میں بھرپورکرداراداکیا۔ انڈیا، افغانستان کی تعمیرمیں کراداراداکرنے والے ممالک میں پانچواں بڑا ڈونرہے اورتین بلین ڈالرز سے زائد مدددی ہے۔ انڈیا نے دوسوسے زائد پبلک اورپرائیوٹ اسکول بنائے اورافغان طلبہ کے لیے  داخلے اوراسکالرشپ کااجراء کیا۔ افغان پارلیمان کی تعمیرکرنے کے ساتھ ایک محل اورایک گرلزاسکول کوپھرسے آبادکیا۔ دی ڈپلومیٹ کے مطابق ایک ڈیم کی تعمیرکی اورپل خمیری تا کابل بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی۔ کابل میں انڈیا نے بچوں کےلیے  اندرگاندھی چلڈرن اسپتال بنایا۔ یہی نہیں بلکہ قندھارمیں کرکٹ اسٹیڈیم اورکولڈاسٹوریج ہاؤس بنایا۔ بعض صوبوں میں مواصلاتی نظام کو  اپ ڈیٹ کیا ہے۔ پانی کے کنویں کھودنے کے علاوہ  پانی محفوظ رکھنے کا بندوبست بھی  کیا۔ اس طرح انڈیا اپنا کردارتعمیرنوکی کارروائیوں سے منسلک کرکے اپنے لیے ایک مثبت کردارکےتاثرکواجاگرکرنے کی کوشش کرتاہے۔

یہ امرقابل ذکرہے کہ حالیہ تاریخ میں بیرونی مداخلتوں کے بعدانڈیا کاافغانستان میں بڑھتے ہوئےکردار کونوٹ کیاجاسکتاہے۔ اورسب سے اہم یہ کہ اس دوران اس کے حریف پاکستان کاکردارکم ہوگیا۔ جب افغانستان میں  پاکستانی علاقوں سے مداخلت  ہونے لگی تواس کااثرکشمیرپربھی پڑا۔ یوں افغان حکومت اورانڈیا کاجہادی تنظیموں اورپاکستان کے خلاف سانجھا بن جاتاہے۔ 1980کی دہائی میں جب روسی افواج افغانستان پرقبضہ جمانے کی کوششوں میں مصروف تھیں توانڈیا کاکرداریوں بڑھاکہ پاکستان میں افغان مہاجرین اورجہادی تنظیموں کے مراکزبنے اوریہاں سے امریکہ اورعرب ممالک کےساتھ مل کرجہادافغانستان شروع کیاگیاتوافغان حکومتوں اورپاکستان کے درمیان تناؤبڑھ گیا۔بھارت کوموقع ملاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکی قبضہ اورجنگ کے دوران ایک بارپھرانڈیا کوموقع ملاکہ وہ افغانستان میں اپنااثرورسوخ بڑھائے۔ روسی قبضہ کے خاتمے اورنجیب حکومت کے انہدام کے بعد1990کی دہائی میں افغانستان میں اسلام پرست جہادی تنظیموں اورطالبان کے دوراقتدارمیں ایک بارپھرپاکستان کاکرداراداربڑھاتوانڈیا کاکردارختم ہوگیاتھا۔

امریکی افواج کے انخلاء اورطالبان کے افغانستان میں اثرورسوخ میں اضافہ انڈیا کیلئے کوئی نیک شگون نہیں۔ انڈیا نے امریکہ کے  زیراثرافغانستان میں ویسے توپاکستان کے اندیشوں میں اضافہ والے تمام اقدامات کئے۔ کئی افغان شہروں میں قونصل خانوں  کے کھلنے سے پاکستان میں تشویش پھیلی، لیکن دواہم پروجیکٹوں نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ ایک تو ایرانی بندرگاہ چاہ بہار تا افغان صوبہ نمروز تک روڈ کی تعمیرہے۔ یہ سڑک انڈیا کی ایک فوجی تنظیم نے تعمیرکی۔ دراصل پاکستان کوامریکہ نے مجبورکیاتھاکہ وہ واہگہ کے ذریعے سے افغانستان اورانڈیاکے درمیان تجارت کے لیے راستہ دے۔ مگرپاکستان بارباراس میں رخنہ اندازی  کرتارہااوراب یہ راہداری بند کردی گئی ہے۔ اس مسئلہ کاحل انڈیا نے ایرانی بندرگاہ سے افغانستان کومنسلک کرنے کی صورت میں نکالا۔ اس سے انڈیا کے دومقاصدپورے ہوئے۔ ایک توچاہ بہارکی بندرگاہ کوپاکستان کے بلوچستان میں واقع گوادرپورٹ کے مقابل پیش کیے جانے کے تصورکومضبوط کرناہے اوردوسرا یہ انڈیا سے افغانستان سے سمندری رابطہ پیداکرناہے۔ دوسرااہم پروجیکٹ دریائے کابل پرافغان علاقہ میں ڈیم کی تعمیرہے۔ اس ڈیم کی تعمیرسے پاکستان کی طرف پانی کابہاؤ کم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یوں انڈیا، کشمیراورافغانستان کے راستے پاکستان کے آبی وسائل کی قلت پیداکرنے کے منصوبوں پرعمل پیرا ہے اوریہ پروجیکٹ اس کاایک حصہ ہے۔

بیرونی افواج کے افغانستان پرقبضے کے دوران افغان خفیہ ایجنسیوں اورانڈین تنظیم را میں تعلقات اورروابط بن جاتے ہیں۔ روسی قبضہ کے دوران افغان خفیہ ایجنسی خاد اوررا میں اتحادتھا۔ حالیہ امریکی قبضہ کے دوران ہی بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک شروع ہوئی توانڈیا کوافغانستان کے راستے اس میں کرداراداکرنے کاموقع ملا۔ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور انڈیاکی را کے درمیان تعلقات اب واضح ہوکرسامنے آئے ہیں۔ افغانستان میں شورش کے بڑھنے کے ساتھ ہی افغانستان اورپاکستان کے تعلقات میں تناوپیدا ہونے کاتمام ترفائدہ انڈیانے اٹھایا۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ، افغانستان اورانڈیا کے پاکستان کے خلاف خطے میں دہشت گردی پھیلانے کے الزامات میں یکسانیت اورپوری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ کشمیراورافغانستان میں جاری شورش کوپاکستان کے سرڈالاجاتاہے۔ پاکستان پرکشمیری مجاہدین اورطالبان کوسپورٹ کرنے اورمحفوظ پناگاہیں دینے کاالزام لگایاجاتاہے۔

امریکی صدرکی طرف سے بھارت سے مایوسی کااظہاراورطالبان کے کردارمیں اضافہ انڈیاکے لیے قابل تشویش ہے۔ یہ واضح ہے کہ طالبان، کشمیری مجاہدین کے کاز سے ناصرف سہمت ہیں بلکہ دونوں طرف لڑنے والوں میں باہمی تعلقات بھی ہیں، خاص کرالقائدہ کے جنوبی ایشیاء کی تنظیم کے ذریعے سے روابط مضبوط بھی ہوئے تھے۔ اسی طرح امریکی قبضہ کے دوران انڈیا کا کردار طالبان کے مفادات سے براہ راست متصادم ہے۔ طالبان کسی بھی طرح افغان حکومت کوتسلیم کرنے پرتیارنہیں، یوں اس دورمیں انڈیاکے ساتھ کیے گئےمعاہدے خطرے سے دوچارہوتے نظرآرہے ہیں۔ دوسرااہم نکتہ یہ ہے کہ انڈیاکی توقعات کے عین برخلاف پاکستان نے امریکہ اورطالبان کے باہمی رابطہ کاری اوربات چیت میں اہم کرداراداکرنے کافیصلہ کرکے انڈیا کیلئے ایک حیران کن صورتحال پیداکرلی۔ روس اورچین پہلے ہی پاکستان کی طرف جھکاؤرکھتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان، طالبان اورامریکہ کے لیے بات چیت کی راہ ہموارکرتانظرآرہاہے تودوسری طرف یہ روس کے کردارکوبھی بڑھانے میں اہم کرداراداکررہاہے۔ اس طرح تین بڑی طاقتیں امریکہ، روس اورچین موجودہ حالات میں پاکستان کے کردارکومثبت اندازمیں سہراتے نظرآرہے ہیں۔ بظاہر انڈیاکیلئے امید کی واحد کرن افغان حکومت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان اس کے ساتھ بات چیت پرتیارنہیں۔ اس لیے قطرمیں امریکہ ،طالبان بات چیت میں افغان حکومت کونظراندازکیاگیا۔ دوسری طرف روس میں طالبان اوراپوزیشن کے مذاکرات سے بھی یہ باہرہے۔ افغانستان میں امریکی شکست اورطالبان کے کردارمیں اضافہ کشمیری مجاہدین کے لیے امیدافزاثابت ہوگا۔

انڈیاکاافغانستان کے حالات میں کبھی بھی اہم کردارنہیں رہا۔ لیکن طالبان کے اقتدارمیں آنے سے رہاسہاتھوڑابہت اثربھی ختم ہونے کے امکانات ہیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...