حقوق کی تحریکوں کا تشدد کی طرف میلان اور ریاستی سانجھے داری!!

1,080

رواں ماہ کے اوائل میں پشتون تحفظ تحریک کے رہنما ابراہیم ارمان لونی گرفتاری پیش کرنے کی کوشش کے دوران مبینہ طور پر پولیس تشدد کے باعث جان کی بازی ہار گئے ۔ ارمان لونی کے قتل کے بعد نہ صرف  پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کئی بڑے  شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں واقعے کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کے مطالبات کیے گئے۔ اس واقعے کو عالمی ذرائع ابلاغ پر غیر معمولی اہمیت دی گئی ۔

منظور پشتین اور ان کے رفقا قبائلی علاقوں میں ضربِ عضب کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کے حقوق اور ان کی ازسرِ نو بحالی کے لیے میدانِ عمل میں آئے تھے ، اس دوران ان کی یہ سرگرمیاں صرف  قبائلی علاقوں تک محدود تھیں تاہم کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں ایک پختون جوان نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل نے اس تحریک میں نئی روح پھونکی اور دیکھتے ہی دیکھتے  منظور پشتین  اور ان کے رفقاملک بھر  میں ایک منظم اور پر جوش تحریک کی صورت ملکی افق پر نمودار ہوئے ،انہوں نے نقیب اللہ محسود سمیت تمام پختون مقتولین  کے لیے انصاف اور جبراً گمشدہ افراد کی بازیابی کا نعرہ لگایا اور کراچی، لاہور ، اسلام آباد سمیت ملک بھر کے تمام  بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دینے کا آغاز کیا۔  سماجی و سیاسی سطح پر جہاں منظور پشتین کی اس تحریک کو سراہا گیا اور جوق در جوق لوگ اس میں شریک ہوئے ،وہاں  ملک بھر کے سکیورٹی اداروں اور عوام کی  خاصی  بڑی تعداد نے اس تحریک کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔

بدقسمتی سے حسبِ معمول  ہمارے ریاستی اداروں نے ہمیشہ کی طرح حقوق کے لیے اٹھنے والی اس تحریک کو کلیتاً ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف زور زبردستی اور طاقت کے ذریعے اس کو کچلنے کی غیر علانیہ  حکمتِ عملی  اپنانا شروع کردی۔ تحریک کے افراد کو گرفتار کرنا شروع کیا، جلسے جلوسوں اور کھلی آمد ورفت پر پابندی عائد کر دی  گئی،  ذرائع ابلاغ  پراس تحریک کو بلیک آؤٹ  کرنے کے طرزِ عمل کا آغاز ہوا۔ ان غیر محسوس اقدامات نے مسائل کو زیادہ گھمبیر کردیا اور جو مدہم اور دھیمی آواز اپنے حقوق کے لیے اٹھی تھی، اس میں غم و غصہ، نفرت، بے چینی اور ریاست سے مایوسی جیسی جہات بھی شامل ہو گئیں ، اب تو تلخی بھی در آئی ہے۔ ریاست  نے جبری ہتھکنڈے مزید تیز کردیے۔ حال ہی میں ابراہیم  ارمان لونی کے قتل پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے مختلف کارکنان اور قائدین کی گرفتاری  اسی ریاستی سوچ کی عکاسی کرتی ہے، جس کے ذریعے ریاست ہر قسم کی آواز کو بزورِ طاقت دبانا چاہتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی کارروائیاں اور پر امن نہتے شہریوں کی گرفتاریاں  حالات کو مزید گھمبیر نہیں کردیں گی؟ کیا ریاست اپنے شہریوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے اپنی رٹ قائم رکھنے کی ضد پر اڑی رہے گی تاوقتیکہ کوئی سانحہ  وقوع پذیر نہ  ہوجائے؟ کیا ہم  سقوطِ ڈھاکہ جیسے واقعات سے سبق نہیں سیکھ سکتے؟  کیا وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں مذہبی انتہا پسندی کے عفریت سے جان چھڑانے کے بعد وہاں ہم ایک اور طرح کی انتہا پسندی کے بیج بونے کا باعث بن رہے رہے ہیں؟ کیا  یہ گھن چکر ہم یوں ہی چلائے رکھنا چاہتے ہیں کہ اس سے ہمارے مفاد وابستہ ہیں یا پھر واقعتاً ہم ملکِ پاکستان کو ایک فلاحی، ہمہ گیر اور پر امن ریاست بنانے کے خواہاں  ہیں؟  اگر ہم  قیامِ امن  میں مخلص ہیں تو کیا  تشدد، نفرت، جبر اور بالادستی کی نفسیات کے ساتھ امن قائم کیا جاسکتا ہے؟  سب سے اہم سوال یہ کہ ہم کب تک عوام کے حقوق کی آوازوں کو دباتے رہیں گے اور ہم یہ کب سیکھیں گے کہ  مسائل کو حل کرنے کے لیے مکالمہ و مفاہمت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ جبر و ستم کی؟  اس پر غور کرنا کس قدر ضروری ہے کہ حقوق کی کسی بھی تحریک کو تشدد کی طرف مائل کرنے میں ریاست کتنی سانجھے دار ہوتی ہے؟

قاریینِ تجزیات اس بارے اپنی آرا کا اظہار اسی صفحے پر نیچے جا کر کرسکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...