او آئی سی اجلاس: بھارت کی شرکت اور پاکستان کا ردِ عمل
جب بھارت اورپاکستان کے مابین لائن آف کنٹرول پرکشمیرکےعلاقے میں جنگی صورتحال پیدا ہورہی تھی، عین اسی وقت تنظیم تعاون اسلامی (اوآئی سی) کا46واں وزرا خارجہ اجلاس یکم تا دو مارچ متحدہ عرب امارات کے مرکز دبئی میں منعقد ہونے جارہا تھا۔ پاکستان کے لیے تشویش ناک صورتحال یہ تھی کہ اس کانفرنس میں بھارت کی امورخارجہ کی وزیرسشماسوراج کوبطور’مہمان خاص’ مدعوکیاگیاتھا۔ پاکستان کے تمام تراعتراضات کے باوجود مدعوئین نے اپنی پیش کش واپس لینے سے انکارکیاتوپاکستان کے وزیرخارجہ محمودقریشی کو اجلاس کے بائیکاٹ کاباقاعدہ اعلان کرناپڑا۔
بھارت کے لیے تنظیم تعاون اسلامی میں جگہ بنانے کی کوشش ڈھاکہ میں 45ویں اوآئی سی کی گذشتہ کانفرنس 2018 میں بنگلہ دیشن کے اصرار پران ممالک کوبطورمبصرمدعوکرنے کے نام پرکی گئی جہاں مسلمان بڑی تعدادمیں ہیں۔ اگرچہ دبئی اورڈھاکہ کانفرنس میں بھارت کو بطور مبصرکومدعوکر نے کافیصلہ کیامگرایسے ملک کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ وہ کسی مسلمان ملک کے ساتھ تنازعہ میں نہ ہو۔ جبکہ بھارت نے ناصرف یہ کہ کشمیرپرزبردستی قبضہ جمایا ہواہے اور اقوام متحدہ اوراوراوآئی سی کے قراردادوں کویکسرنظراندازکیا ہےبلکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان وجہ تنازعہ بھی بناہواہے۔ لیکن ڈھاکہ اوردبئی کانفرنسوں میں پاکستان کے احتجاج کے باوجوداس حقیقت سے صرف نظرکیاگیا۔ بھارت کااصراررہاہے کہ کشمیراس کا داخلی معاملہ ہے اوراوآئی سی کواس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔
ڈھاکہ اوردبئی کانفرنسوں میں بھارت کی موجودگی کااثراعلامیہ پرپڑا۔ ڈھاکہ کانفرنس میں کشمیرکامحض ایک مرتبہ ذکرکیاگیا اوروہ بھی دیگرمسلمان خطوں کے ساتھ، جہاں مختلف تنازعات چل رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی ان ممالک کی خودمختیاری اورداخلی سالمیت کے احترام کی بات کی گئی ہے۔ جبکہ اس سے قبل 44ویں کانفرنس 2017میں اس کے برعکس نظرآتاہے۔ اسی طرح دبئی کانفرنس میں پاکستان کی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ یوں پاکستان کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ بھارت کی کانفرنسوں میں موجودگی کاکشمیرکے مسئلے پرخاطرخواہ اثرپڑرہاہے۔
پاکستان کوخدشہ ہے کہ بھارت اوآئی سی کاپلیٹ فارم اپنے مقاصد اورایجنڈے کوآگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اسلامی دنیا میں پاکستان کوتنہاکرنے کی طرف بڑھے گا۔ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کہتے ہیں کہ بھارت پہلے مبصرکی حیثیت سے راستہ بنائے گا اور اس کے بعد تنظیم میں داخل ہوجائے گا۔بھارت کامسلم دنیا سے نزدیکی کانتیجہ کلچراورتجارت کے تبادلے کاراستہ کھلنے کی صورت نکلے گااوریوں خلیج کے ممالک میں بھارت کے لیے راہ کھلے گی۔ اس طرح کے معاملات پاکستان کے لیے باعث تشویش ہیں۔
دبئی کانفرنس 2019میں انڈیا کے مدعوکرنے پرشاہ محمودقریشی نے متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ سے رابطہ قائم کیامگریہ کوششیں رنگ نہ لاسکیں۔ بھارتی امورخارجہ کی وزیرسشماسوراج نے کانفرنس میں پاکستان کانام لیے بغیرکہاکہ ان ممالک پردباوڈالاجائے جودہشت گردتنظیموں کومددفراہم کرتے ہیں۔ ‘دہشت گردی کے خلاف لڑائی کسی خاص مذہب کے خلاف لڑائی نہیں ہے’۔ سشماسوراج نے متحدہ عرب امارات، سعودی عربیہ اوربنگلہ دیش کی طرف سے مدعوکرنے میں کرداراداکرنے پران ممالک کا شکریہ اداکیا۔ بھارت میں 185ملین مسلمان بستے ہیں جوانڈونیشیااورپاکستان کے بعد کسی بھی ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعدادہے۔ لیکن پاکستان کا کہناہے کہ بھارت تنظیم کے ایک بانی رکن کے ساتھ تنازعہ میں ہونے کی وجہ سے اس حیثیت کے لیے نااہل ہو جاتاہے۔ 2017تک پاکستان نے کامیابی سے تنظیم میں بھارت کے داخلے کی راہ روکی۔ بھارت نے 1984، 1993 اور2004 میں کوششیں جوپاکستان کی کوششوں کی وجہ سے باآورنہ ہوسکیں۔ اگرچہ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے اجلاس کابائیکاٹ کیامگر نچلے درجے کے وفدنے پاکستان کی نمائندگی کی۔ اجلاس کے اختتام پراو آئی سی کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے بعد پاکستان نے اعتماد میں نہ لیے جانے پر احتجاج کیا۔ اس سے پاکستان کی مشکلات کااندازہ لگانامشکل نہیں۔ پاکستان جانتاہے کہ سشماسوراج کومدعوکرنے میں کلیدی کردار متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب کاہے۔
اس سےقبل پاکستان کی پارلیمان میں اپوزیشن نے شروع میں تووزیرخارجہ کی طرف سے تنظیم کےدبئی میں 46ویں اجلاس کے بائیکاٹ کے اعلان پراعتراضات اٹھائے مگربعدازاں ایک مشترکہ موقف اختیارکرتے ہوئے اس فیصلے کی توثیق کی۔ پارلیمان میں شاہ محمودقریشی نے کہاکہ اوآئی سی میں اب تک کشمیرکے حوالے سے 19قراردادیں پیش کی گئیں ہیں۔
57 رکنی اوآئی سی، اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم 1969میں مسلم امہ کی عالمی امورمیں مشترکہ آوازکے طورپرسامنے لائی گئی۔ عالمی صورتحال پرغورکے لیے وزراخارجہ کا اجلاس ہرسال اورسربراہ اجلاس ہرتین سال بعد منعقد ہوتاہے۔ مقبوضہ مسلمان خطے، جیسے فلسطین اورکشمیرہمیشہ سے اس کے ایجنڈے پررہے ہیں۔ ان خطوں میں مسلمانوں پرہونے والے مظالم اورجبرکے خلاف آوازاٹھائی جاتی رہی۔ لیکن فلسطین کے حوالے سے اہم پیش رفت 1993میں اوسلومعاہدے کے بعد سے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اوراس کے بارے میں نرم ہوتاہوارویہ ہے۔ اب کھلے بندوں اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات استوارہونے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف خلیجی ممالک کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کشمیرکے حوالے سے اس کے رویہ پراثراندازہورہے ہیں۔
خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک اورعرب لیگ کے 22ممالک کی پولیٹکل اکانومی بھارت کے اس بدلتے رویے کی وضاحت کرتی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں 8ملین بھارتی کام کرتے ہیں جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ جبکہ بھارت اب خلیجی تعاون کونسل کے ممالک کاتیسرابڑاکاروباری شراکت دارہے۔ یہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات نے بھارت کے انفراسٹکچرکی ترقی کے لیے 75بلین ڈالرکی خطیررقم سے ایک فنڈقائم کیاہے۔ اکنامسٹ کے مطابق پچھلی ایک دہائی میں جی سی سی کی بھارت کے ساتھ ایکسپورٹ میں 43فی صد سالانہ اضافہ ہواہے جوسب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح بھارت سے امپورٹ میں 26فی صد اضافہ ہواہے۔ 2017-18میں پاکستان کی سعودی عرب کے ساتھ تجارت کاحجم 1.871بلین ڈالرز تھا۔ پاکستان کی برآمدات محض 170ملین ڈالرزکی اوردرآمدات 1.7بلین ڈالرزکی تھی۔ اس کے مقابلے میں بھارت اورسعودی عرب کی باہمی تجارت کاحجم 27.48بلین تھا۔ سعودی عرب کی برآمدات کاحجم 22بلین سے کچھ زیادہ تھاجبکہ بھارت سے درآمدات 5.41بلین ڈالرزکی تھیں۔ سعودی عرب کے شہزادہ محمدبن سلمان کے حالیہ دورے میں سعودی عرب نے بھارت میں 43بلین ڈالرز جبکہ پاکستان میں ایک ایسی ہی ریفائنری کی تعمیر کے لیے 20بلین ڈالرزکامعاہدہ کیا۔
اگرچہ پاکستان کے سعودی عرب سے اسٹرٹیجکل اورقریبی تعلقات ہیں اور25لاکھ افراد سعودی عرب میں روزگارکرتے ہیں اورپاکستان کوسعودی عرب کے تیل، قرضہ جات اورمدد پرانحصارکرناپڑتاہے۔ یہ سعودی عرب کوتھوڑی آزادی بھی دیتاہے۔ ان حالات میں عرب دنیامیں پھرسے جگہ بنانے کے لیے پاکستان کوایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔
فیس بک پر تبصرے