اقلیت کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے
سندھ کے قصبہ ڈہرکی میں ہولی کے دن مبینہ طور پر دو نوجوان لڑکیوں کے تبدیلی مذہب اور نکاح کے بعد ملک کی ہندو برادری سراپا احتجاج ہے اور خاندان والوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ایسا جبری طور پر کیا گیاہے۔
عورت فاؤنڈیشن اور تنظیم ایم ایس پی کے مطابق پاکستان میں ہر ماہ لڑکیوں کے جبرا تبدیلی مذہب کے تقریبا 20 سے 25 واقعات سامنے آتے ہیں جن میں اسلام قبول کروانے کے بعد اُن سے نکاح کرلیا جاتا ہے۔ یہ واقعات ملک میں تسلسل کے ساتھ ہو رہےہیں لیکن آبادی کا اکثریتی طبقہ ایسے خاموش ہے جیسے یہ جرم ہی نہ ہو اور ریاستی عملداری کا عالم یہ ہے کہ پولیس رپورٹ درج کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اگر اتفاق سے کوئی واقعہ زیادہ شدت کے ساتھ منظر عام پر آجائے توعدالت میں لڑکی کے بیان کے بعد کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے عدالت مزید تفتیش کی زحمت نہیں کرتی، کہ ہوسکتا ہےاس نے دباؤ اور خوف سے یہ بیان دیا ہو۔
ایسے واقعات زیادہ تر سندھ میں پیش آتے ہیں اور ان کی پشت پناہی پِیر اور سیاسی وڈیرے کرتے ہیں جن کا اثرو رسوخ انتہائی زیادہ ہے۔ اقلیتی برادری اور سول سوسائٹی کے مسلسل احتجاج کے بعد ان کی روک تھام کے لیے سندھ اسمبلی نے 2016 میں ایک بِل منظور کیا تھا لیکن مذہبی طبقے کی سخت مخالفت کے باعث اس پرعملدآمد نہیں ہوسکا۔ جب یہ بِل پاس ہوا تو علما کی ایک کمیٹی جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی نمائندگی بھی شامل تھی، نے عبدالقیوم سومرو سے ملاقات کی اور کہا تھا کہ یہ بِل اسلامی احکامات کے منافی ہے۔ ان کے تحفظات میں ایک چیز یہ بھی شامل تھی کہ شادی اورتبدیلی مذہب کے لیے عمر کی مخصوص حدبندی جائز نہیں ہے۔ جب انہوں نے اس پر عملدآمد کی صورت میں سخت ردعمل دینے کی دھمکی دی تو صوبائی حکومت نے اس پر چپ سادھ لی۔
اب جبکہ حالیہ واقعہ پر ملک کے اندر اور باہر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے تو وزیراعظم نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور سندھ حکومت نے بھی کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کے بل کو دوبارہ اسمبلی میں لائے گی لیکن جب تک قانون پہ عملدرآمد نہ ہو اقلیت کاریاست وسماج پر اعتماد بحال نہیں ہوسکتا، نہ ان کے بچوں کو تحفظ مل سکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے