مذہب اور ثقافت کے مابین امتیاز ضروری ہے
پرامن بقاے باہمی کے لیے مذہب اور ثقافت کے مفاہیم کو درست طورسمجھنا بہت ضروری ہے۔ مذہب، عقائد اور ان سے جڑے چند مخصوص اعمال کا نام ہے جبکہ ثقافت انسان کے رہن سہن و بول چال سے وابستہ مخصوص جغرافیائی خصوصیات کے اظہار کا نام ہے۔ مذہب ثقافتی مظاہر کے وسیع ترین دائرے میں سے ایک محدود حصہ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لیے دو مختلف مذاہب کے لوگوں کی ثقافت مذہب سے باہر ایک جیسی ہو سکتی ہے جیساکہ پاکستان میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے نام، لباس، بول چال وغیرہ میں کامل یکسانیت نظر آتی ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگوں میں جب تک ثقافتی اقدار میں یکسانیت رہتی ہے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جب مذہب کے نام پر ثقافتی امتیاز برتا جانے لگتا ہے تو اجنبیت، تنفر اور تقسیم کی شروعات ہوجاتی ہیں۔
مذہبی طبقہ جب سیاست کے ساتھ وابستہ ہوا تو اس نے ثقافت کو مذہبی امتیازات کے اظہار کے لیے استعمال کیا اور یوں ایک خطے کی یکساں ثقافت کوغیر ضروری طور الگ الگ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تب سے لوگ تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ مذہب کا مطالبہ صرف عقیدے اور رسوم وعبادات میں امتیاز قائم کرنے کا ہے۔ اس سے آگے کے مطالبات خود ساختہ ہیں۔ یہ دراصل ثقافتوں میں امتیاز برتنے کا عمل تھا جس نے علیحدگی کا بیج بویا۔ جب مسلمانوں نے خود کو ہندوستان کی بجائے عرب ثقافت سے جوڑنا شروع کیا تو ہندو مسلم منافرت کا آغاز ہوا، ورنہ ہندؤں کو مسلمان ہوتی آبادی سے اور مساجدو مدارس کے پھیلنے سے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ لیکن دوسری طرف جب مسیحیوں نے خود کو ہندوستانی اور پھر پاکستانی ثقافت سے کاٹ کر خود کو یورپی ثقافت سے جوڑنا شروع کیا تو وہ بھی اپنے ہی دیس میں اجنبی ہو گئے۔ حتی کہ پانی اور برتن بھی علیحدہ ہو گئے۔ مسلمانوں نے بھی ایک وقت میں آکر ہندی نام اختیار کرنےسے انکار کیا اور عربی نام رکھنے شروع کردیے۔ حالانکہ اسلام کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رویہ دینی نہیں تھا۔ صحابہ نے روم و ایران فتح کیے لیکن لوگوں کے لباس اور نام کچھ بھی نہیں بدلا۔ ایک صحابی کا نام جوریج منقول ہے جو علما کے مطابق جارج کی عربی صورت ہے۔ پرویز، شہریار، افراسیاب، آفتاب جیسے فارسی نام مسلمانون نے اپنائے۔ اسلامی ثقافت کی غیرحقیقی بنیاد پر عربی نام رکھنے کی بدعت بعد میں ایجاد ہوئی، جس نے سب سے پہلے ثقافتی تفریق کی بنیاد رکھی، اگلے مرحلے میں اسلامی لباس اور وضع قطع کی طرح ڈالی گئی۔ مسلمان جب شروع میں ہندوستان آئے تھے تو انہوں نے یہاں کا طرز ِبود و باش اختیار کرلیا تھا۔ پنجابی پگڑی، راجپوتی شیروانی اور کرتا پائےجامہ مسلمانوں میں رائج ہوئے۔ بعد میں اسے بجائے ہندوستانی لباس کہنے کے سنت کے طور پر مسلمانوں میں متعارف کرا دیا گیا۔
برصغیر میں ثقافتی تفریق کا عمل اس وقت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا جب 1909 میں اس اساس پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اس کے بعد عام لوگوں کی جانب سے ٹوپی، کلائی کے کڑے، ماتھے پر تِلک اور گلے میں صلیب کے ساتھ جگہ جگہ اپنی مخصوص وابستگی کے اعلان اور فخر کے اظہار کا سلسلہ چل نکلا
مذہب وثقافت کے مابین فرق نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے عربی نام رکھنے شروع کردیے۔ مسیحیوں نے بھی اپنے نام ڈیوڈ، مائیکل، سائمن رکھے۔ یہ غیر فطری کوششیں تھیں۔ دیہی علاقے جہاں دیسی ثقافت نسبتا محفوظ ہے وہاں آج بھی مسیحی اپنے نام اقبال، اختر، مبارک وغیرہ رکھتے ہیں جو ہماری ثقافت کے اصل مظاہر ہیں۔ برصغیر میں ثقافتی تفریق کا عمل اس وقت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا جب 1909 میں اس اساس پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اس کے بعد عام لوگوں کی جانب سے ٹوپی، کلائی کے کڑے، ماتھے پر تِلک اور گلے میں صلیب کے ساتھ جگہ جگہ اپنی مخصوص وابستگی کے اعلان اور فخر کے اظہار کا سلسلہ چل نکلا۔ جس نے فاصلوں کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ امتیازات پر زور یہ بتاتا چلا گیا کہ ہم خود کو آلگ سمجھ رہے ہیں اور اب ہر ہر معاملے میں علیحدگی چاہتے ہیں، اور پھر یہ تفریق ملکوں کی علیحدگی کا سبب بنی۔
ثقافت کی بنیاد پر انتہاپسندانہ تقسیم مذاہب نے نہیں سکھائی تھی۔ یہ ان مذاہب کے پیروکار تھے جو مذہب کے دائرے کو مذہب کی روح کے برعکس بڑھاتے چلے گے۔ آدمی کبھی بھی اپنی ثقافت سے مکمل علیحدہ نہیں ہو پاتا۔ ہندوستان سے الگ ہوئے پون صدی ہو گئی۔ لیکن ہمارا لباس ،زبان، ذوق، حس مزاح، مسائل، موسیقی سب آج بھی یکساں ہے۔ خواہ مخواہ کے امتیاز پیدا کر کے خود کو اجنبی بنانا ٹھیک رویہ نہیں ہے۔ ثقافت کے دائرے میں سب کو یکسانیت اپنا نی چاہیے، اس سے مذہبی امتیازات کے باوجوداجنبیت پیدا نہیں ہوتی۔
فیس بک پر تبصرے