پاک چین اقتصادی راہداری اور علاقائی معاشیات

1,144

داخلی معاشی عدمِ استحکام سے دوچار پاکستان علاقائی سیاست اور معیشت کے بڑھتے ہوئے مواقع میں انتہائی سست روی اور حد درجے احتیاط کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اگرچہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے کی گئی مالی معاونت ادائیگیوں کے بحران پر جزوی طور پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے، تاہم ہنوز عالمی مالیاتی ادارے سے بیل آوٹ پیکج کا حصول ناگیر نظر آتا ہے۔ اس صورت ِ حال کو پرانے مغربی شراکت داروں، بالخصوص امریکا کی جانب رجوع سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ حکومت پاک چین اقتصادی راہدری میں سرمایہ کاری کے ذریعے نہ صرف توانائی کے بحران پر قابو پانے اور ملکی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی ممکن بنانے کا ارادہ رکھتی تھی بلکہ یہ افغانستان میں طالبان کی مزاحمتی تحریک میں شدت کے باعث پاکستان پر امریکا کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سدِ باب کی ایک کوشش بھی تھی۔ اسی طرح گذشتہ حکومت سعودیہ اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی روایتی پالیسی جاری رکھنے کی کوشش بھی کرتی رہی، یہی وجہ ہے کہ نواز حکومت نے پاکستانی فوجی دستوں کو یمن بھیجنے کے دباؤ کابخوبی مقابلہ کیا۔

عمران خان کی حکومت نے ظاہری طور پر  مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کو یکسر بدل دیا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر بین الاقوامی پالیسی حلقوں میں موجودہ حکومت سے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کی مشق کے دوران پاکستان علاقائی سیاست میں اپنا توازن کھو بیٹھا ہے۔ اقتصادی راہداری کو اب تک ملک اور خطے کا کایا پلٹ منصوبہ قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن ان دنوں پاکستان کے پالیسی مباحث میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی۔

آگے کی طرف بڑھنے کے لیے پاکستان کو اپنے ہمسایوں اور شراکت داروں کے ساتھ معاشی حوالے سےعلاقائی ربط کا ایک جامع لائحہِ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ پاکستان کے لیے اپنے شراکت داروں کو یہ یقین دہانی کروانا لازمی ہے کہ سعودی عرب کی اقتصادی راہداری منصوبے میں شمولیت کسی تزویراتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ سعودی عرب کے 2030ء منصوبے کا حصہ اور خالصتاً معاشی سرگرمی ہے

اقتصادی راہداری منصوبوں پر نظرثانی کے عمل کے دوران  کئی منصوبے التوا کا شکار ہو چکے ہیں، جس سے اقتصادی مراکز میں سرمایہ کاری کی خواہشمندنجی چینی کمپنیوں اور افراد  کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ بیجنگ حکومت نے ان منصوبوں کے جائزے کے لیے عمران حکومت کودو وجوہات کی بنا پر تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اولاً، پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت نے چین کو اقتصادی راہداری منصوبوں کے لیے پاکستان کو دیے گئے قرضوں کی واپسی کے حوالے سے حساس کردیا ہے اور ثانیاً، چین نئی حکومت کو اقتصادی بہتری کے لیے وقت دینا چاہتا ہے، اور چین اس کے لیے پہلے ہی دوبار بیل آؤٹ پیکج دے چکا ہے۔ ادھر پاکستانی حکومت نے بھی بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع میں مزید گنجائش اور تنوع پیدا کرنےکی بھر پور کوشش کی ہے، جس میں حکومت اگرچہ بھاری قیمت پر ہی سہی، لیکن ایک حد تک کامیاب ضرورہوئی ہے۔

پاکستان سعودیہ اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن بڑی تیزی سے کھو رہا ہے۔ گوادر آئل سٹی  کے قیام کے لیے 10 ارب ڈالر کے معاہدے نےنہ صرف ایران، بلکہ چین کو بھی محتاط کردیا ہے۔ چین کو خدشہ ہے کہ اس طرح اقتصادی راہداری کی شہ رگ ساحلی پٹی کہیں ایران سعودیہ عوضی جنگ کا مرکزنہ بن جائے۔ گوادر کے بلوچ شہری بھی اس معاہدے کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح ایران کے خلاف سعودیہ اور امریکا کے مشترکہ عزائم کی بدولت  خطے میں امریکی اثر پذیری بڑھ سکتی ہے۔ اگرچہ آئل ریفائنری کی مجوزہ جگہ پاک ایران سرحد سے100 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے تاہم چین کے لیےیہ مستقل پریشانی کا باعث رہے گی۔

افغان طالبان اور امریکاکے مابین بات چیت میں پاکستانی معاونت کو عالمی سطح پر سراہاگیا اور اگر یہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے تو خطے میں امن و استحکام میں پاکستان کی طرف سے بہت بڑی حصہ داری ہو گی۔ تاہم پاکستان میں کئی ماہرین اس بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے کہ افغان امن عمل میں کردار ادا کرنے سے پاکستان نے ابھی تک کیا حاصل کیاہے؟ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کو اس کا انعام قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی متعدد تزویراتی حوالوں سے امریکا پاکستان پر دباؤ میں کمی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ چند برس پہلےجب اوباما حکومت افغان مسئلے کے پرامن حل کے لیے ناامیدی کی حد تک پریشان تھی، پاکستان نےاس وقت افغان امن عمل میں امریکا کی اگر معاونت کی ہوتی تواس کے بدلے میں پاکستان کو اب کی نسبت زیادہ فائدہ مل سکتا تھا۔

یہ  محض پاکستان کی معاشی حالت کی بدولت نہیں ہے کہ ہمارے لیے علاقائی سیاست میں مواقع محدود ہوئے ہیں، بلکہ اس منظرنامے کی صورت گری میں عسکریت پسند گروہوں کا بھی خاطر خواہ حصہ رہا ہے۔ چند تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں امن معاہدے کی کامیابی کے بعد بھی افغان طالبان پاکستان کے قابلِ اعتماد شراکت دار رہیں گے۔ یقیناً طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرکے پاکستان نے وہ کام کیا ہے جس سےوہ گذشتہ کئی سالوں سے دور رہنا چاہ رہا تھا۔ داخلی سلامتی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی مجبوریاں اور تقاضے بھی پاکستان کے جوابی پالیسی عمل کی سمت متعین کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

آگے کی طرف بڑھنے کے لیے پاکستان کو اپنے ہمسایوں اور شراکت داروں کے ساتھ معاشی حوالے سےعلاقائی ربط کا ایک جامع لائحہِ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ پاکستان کے لیے اپنے شراکت داروں کو یہ یقین دہانی کروانا لازمی ہے کہ سعودی عرب کی اقتصادی راہداری منصوبے میں شمولیت کسی تزویراتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ سعودی عرب کے 2030ء منصوبے کا حصہ اور خالصتاً معاشی سرگرمی ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی عوضی گروہ کو ہمسایہ ممالک کے خلاف کارروائیوں کے لیے اپنی زمین استعمال نہ کرنے دے۔ اگرچہ سعودی عرب جیسی بالا دست اور اپنی بات منوانے والی حکومت کے ساتھ اس طرح کے متوازن تعلقات قائم رکھنا دشوار ہوگا، لیکن اسلام آباد چین ایران پاکستان، سہ ملکی اقتصادی شراکت داری کےباعث اس توازن کو برقرار رکھ سکتا ہے۔

اسی طرح چاہ بہار بندرگاہ پر بھارت ایران افغانستان اکٹھ کے حوالے سے توازن پیدا کرنے کے لیے پاکستان اور چین گوادر اور چاہ بہار بندرگاہوں کو باہم منسلک کر نے کی کوشش کر سکتےہیں۔ چین اور ایران مشترکہ اقدامات کے ذیعے اس انسلاک و ربط سے متعلق پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں۔ چینی محققین گوادر کے ذریعے ایران کے ساتھ معاشی ربط کو اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک کامیاب حاصل بتاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے علاوہ بین الملکی توانائی منصوبوں کا آغاز بھی پاکستان کے لیے ضروری ہے۔

اگرچہ اقتصادی راہداری منصوبے عام آدمی، بالخصوص بلوچستان کے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں، یہاں بلوچستان میں مقامی آبادی کے لیے ابھی تک کاروباری مواقع اور ممکنہ ملازمتیں پیدا نہیں کی جاسکیں، تاہم امید ہے کہ گوادر میں اقتصادی مراکز کی تعمیر پر تیزی سے ہوتے کام کی تکمیل پر یہاں کے عوام کی کئی شکایات ختم ہو سکتی ہیں۔ بلوچستان حکومت ملکی وغیر ملکی سرمایہ کاروں اور شراکت داروں کو بنیادی ڈھانچے کے تعمیری منصوبوں پر سرمایہ کاری کی دعوت دے چکی ہے جس سے وسطی و مشرقی ایشیا کی طرف رخ کرنے والے چینی سرمایہ کاروں کے لیے گوادر میں دلچسپی بڑھنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ نئے چینی سرمایہ کار دنیابھر، بالخصوص ایشیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

افغان طالبان اور امریکا کے مابین بات چیت کی کامیابی کے بعد بھی خطے میں امریکا کے کردار میں کمی کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔ بحرِ ہند اور ہمسایہ خطوں میں پاکستان بطور ایک تزویراتی اتحادی نہ سہی، امریکاکے ایک اہم شراکت کار کی حیثیت اختیار کیے رکھے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر دو ممالک کا باہمی تعلق غیر ریاستی عناصر اورعدمِ اعتماد کے سایوں سے باہر نکلے۔

اسلام آباد میں اکثر تزویراتی پالیسی مباحث کے دوران یہ بات سننے میں آتی ہے کہ پاکستان علاقائی ربط کے تزویراتی دائرے سے باہر نکل کرعلاقائی اقتصادی دائرے میں داخل ہونے پر توجہ مرکوز کررہا ہے، تاہم تبدیلی کا یہ عمل واضح سمت کا متقاضی ہے۔ اس عمل میں کامیابی کے لیے پاکستان کو یہ بات یقینی بنانی ہو گی کہ خطے کے کسی ایک ملک سے تعلقات  یا باہمی مفادات کسی دوسرے ہمسایہ یا علاقائی ملک کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہونے چاہییں۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس بیرونی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بہت کم مواقع  موجود ہیں، اور جو ہیں، جیسا کہ پاک چین اقتصادی راہداری، ہمیں ان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مترجم: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...