پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے
سرد جنگ کے تلخ مخالفین پاکستان اور روس کے مابین قربت کے شواہد نظر آرہے ہیں۔ایشیا میں سیاسی اور تزویراتی فضا کی تبدیلی نے دونوں ملکوں کو قریب آنے پر مجبور کردیا ہے
2014 سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے ملنا شروع ہو گئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتے جا رہے ہیں اور نئی خارجہ حکمت عملی کے خدوخال ابھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ 30جون2017 کو وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کے دفتر خارجہ میں خارجہ پالیسی کے جائزہ کے لیے منعقد ہونے والی میٹنگ کی صدارت کی۔ اس میٹنگ کی اگرچہ زیادہ تفصیلات باہر نہیں آئیں تاہم جو کچھ سامنے آیا ہے وہ بھی صورت حال کو سمجھنے میں خاصا معاون ہے۔ میٹنگ میں انھیں خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی اور عالمی اورعلاقائی سطح پر نئے ابھرتے ہوئے منظر نامے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کے میڈیا آفس نے اس حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے اس کے مطابق وزیراعظم نے چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری، سی پیک کا آغاز، امریکا سے سٹرٹیجک ڈائیلاگ، روس کے ساتھ مضبوط تعلقات، مرکزی ایشیا کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے پاکستان کے تعلقات اور شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی رکنیت پر اطمینان کا اظہار کیا۔
خارجہ سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ نے اس موقع پر جو پریزنٹیشن دی اس میں انھوں نے پاکستان کو افغانستان، انڈیا اور امریکا کی طرف سے جن کلیدی چیلنجیز کا سامنا ہے ان کا ذکر کیا۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ میں حال ہی میں ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے علاقے میں امن و استحکام کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اہمیت پر بھی بات کی۔
دوسری طرف امریکا نے بھی پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے امریکی کانگرس میں خارجہ تعلقات کے حوالے سے کمیٹی میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ہم پاکستان کے لیے اپنے تعلقات پر اپنی پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لے رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے امریکی امداد جاری رکھنے کا موضوع اس میں شامل ہے۔ وہ کمیٹی کے رکن ڈانا روہرا باچر کے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ امریکا پاکستان کو مالی امداد کیوں جاری رکھے ہوئے ہے۔ کانگرس کے اراکین کے پاکستان پر اعتراضات کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ حکومت پاکستان سے ہمارے روابط بہت پیچیدہ ہیں لیکن آپ کے تحفظات بہت بنیادی ہیں۔ روہرا باچر نے ڈاکٹرشکیل آفریدی کا مسئلہ بھی اٹھایا اور کہاکہ انھوں نے اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں امریکا کی مدد کی ہے۔ انھوں نے افغانستان میں امریکاکی ناکامیوں کی وجہ بھی پاکستان کو قرار دیا اور کہا کہ اگرہم افغانستان میں کامیاب نہ ہو سکے تو اس کی وجہ آئی ایس آئی ہوگی۔ ایک اور رکن ٹیڈپو نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو رقم دی لیکن وہ رقم افغانستان میں ان برے لوگوں کے ہاتھ پہنچی جنھوں نے امریکا کو نقصان پہنچایا۔
امریکی سینیٹرز کا وفد جو حال ہی میں پاکستان کے دورے کے بعد افغانستان پہنچا اس نے وہاں پاکستان کے خلاف بیان دیے، جب کہ سینیٹر جان میکن جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، کابل میں کہہ رہے تھے کہ دہشتگردی بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خاتمے میں پاکستان کے اقدامات پر نظر ہے، اسلام آباد نے رویہ نہ بدلا تو بطور قوم ہمیں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی قوم بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کارویہ تو پہلے ہی مختلف ہے دراصل جان میکن کہہ رہے تھے کہ میں بھی اپنا ظاہری رویہ تبدیل کرلوں گا۔
پاک خارجہ پالیسی کے بدلتے ہوئے اشاروں میں سے ایک روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی پیش رفت ہے جس کا آغاز روسی وزیر دفاع کے 20نومبر2014کو پاکستان کے دورے سے ہوتا ہے جس میں دفاعی تعاون کا تاریخی معاہدہ کیا گیا تھا جس کے تحت روس نے پاکستان کو 20جدید ترین ایم آئی 33 ہیلی کاپٹر فراہم کیے۔ پاکستان نے جے ایف تھنڈر کے انجن بھی روس سے خریدنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان روس کے جدید ترین لڑاکا طیارے سخوئی بھی خرید رہا ہے جس کے لیے 153ملین ڈالر کا سودا طے ہو چکا ہے۔اس پیشرفت کی کچھ مزید تفصیلات بھی ہیں۔ یہ سلسلہ 2014کے آخر میں افغانستان سے بیشتر امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد نسبتاً تیز رفتاری سے آگے بڑھا ہے۔
یہ تعلقات اس وقت زیادہ نمایاں ہو گئے جب 2016میں پاکستان اور روس نے پہلی مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کیا جس کا نام فرینڈشپ 2016رکھا گیا تھا۔ یہ نام علامتی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اشارہ کررہا ہے کہ 2016سے روس اور پاکستان کے مابین ایک نئی فرینڈشپ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ ان مشقوں کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ بعض ذرائع کے مطابق بھارت نے روس سے ان مشقوں کو منسوخ کرنے کے لیے کہا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
افغانستان کے مسئلے میں بھی پاکستان اور روس کے مابین مشاورتوں کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس میں اوّل تو امریکا کو شامل نہیں کیا گیا ثانیاً جب امریکا کو دعوت دی گئی تو اس نے اسے قبول نہیں کیا۔
اس سلسلے میں 28دسمبر 2016کو پاکستان، روس اور چین کے مابین ایک کانفرنس ماسکو میں منعقد ہو چکی ہے۔ اس سہ فریقی کانفرنس کا اصل موضوع افغانستان ہی تھا۔ چنانچہ اس بیٹھک کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں تینوں ملکوں نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا۔ نیز افغانستان کی بگڑتی ہوئی سیکورٹی کی صورت حال پر متنبہ کیا ۔ اس سلسلے میں روسی ترجمان ماریہ زخاروف نے کانفرنس کے بعد کہا کہ تینوں ممالک نے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے لچکدار رویہ پر بھی اتفاق کیا ہے۔
اس کے بعد 14اپریل 2017کو ماسکو میں قیام امن کے حوالے سے پھر ایک کانفرنس منعقد ہوئی ۔ اس میں 12ممالک نے شرکت کی۔ اس میں امریکا موجود نہیں تھا۔ جب کہ اس کو دعوت دی گئی تھی لیکن اس کا کہنا تھا کہ کانفرنس بلانے سے پہلے ہم سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔ البتہ اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اناطولیہ ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق دفاعی تجزیہ کار جنرل طلعت محمود کا کہنا ہے کہ امریکا اور نیٹو روس اور پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہیں کہ وہ افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں اور اسلحہ فراہم کررہے ہیں ۔ سینیٹر جان میکن کا کابل میں 4 جولائی کو دیا جانے والا بیان بھی اسی الزام کی جزوی بازگشت قرار دیاجاسکتا ہے۔
روس نے سی پیک سے استفادے میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پاکستان نے حال ہی میں روس کو گوادرپورٹ تک رسائی دینے میں رضا مندی ظاہر کی ہے نیز ماسکو گوادر سے چمن کے راستے ایک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے۔
اس تجزیے میں اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں روس اور بھارت کے باہمی تعلقات بہت گہرے رہے ہیں۔ روس اب بھی حتی المقدور ان تعلقات کو باقی رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جب کہ اس کی نظر میں ہے کہ اب بھارت کو روس کی اتنی ضرورت نہیں رہی اور سی پیک پر امریکا اور بھارت دونوں کے تحفظات ہیں۔ بھارت نے اپنا مستقبل امریکا اور اسکے اتحادیوں سے وابستہ کر لیا ہے۔ چین کے حوالے سے اس کے رویے میں قدم بہ قدم شدت محسوس کی جاسکتی ہے۔ تاہم بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جس کے ساتھ ہمارے اتنے گہرے تعلقات ہوں جتنے بھارت سے ہیں۔ البتہ ان خصوصی روابط کو دیگر ممالک سے شراکت داری کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ پیوٹن نے کشمیر کے مسئلے پر بھارتی صحافی کے جواب میں غیر جانبداری کامظاہرہ کیا اور کہا کہ یہ ان کا کام نہیں کہ وہ فیصلہ کریں کیا پاکستان ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں استحکام کے لیے کافی اقدامات کررہا ہے۔
نیوز ڈیسکن کی ایک رپورٹ جو 25فروری 2017کو شائع ہوئی میں روس کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے روابط کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے تلخ مخالفین کے مابین قربت کے شواہد نظر آرہے ہیں۔ایشیا میں سیاسی اور تزویراتی فضا کی تبدیلی نے دونوں ملکوں کو قریب آنے پر مجبور کردیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مبصرین کے نزدیک اس قربت کی بنیادی وجہ پاک چین تزویراتی روابط ایک طرف اور چین روس تزویراتی روابط دوسری طرف ہیں۔ روس اور پاکستان کو قریب لانے میں چین نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک اور بنیادی عنصر اس میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور وہ ہے بھارت اور امریکا کے مابین دن بدن گہرے ہوتے تعلقات۔ پاکستان کے پاس اس وقت اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں کہ وہ روس سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائے۔
پاکستان مرکزی ایشیا کی مارکیٹوں تک رسائی چاہتا ہے اور روس کی خواہش ہے کہ وہ گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ تک رسائی حاصل کر سکے۔ پاکستان روسی اسلحہ خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے بار ے میں دونوں ملکوں کے نظریات بھی ایک جیسے ہیں۔
ہماری رائے یہ ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں دونوں کے نظریات رفتہ رفتہ ایک جیسے ہو رہے ہیں کیوں کہ دونوں کو افغانستان کے اندر داعش کی بڑھتی ہوئی قوت سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ دونوں کو مل کر بالآخر خطے میں داعش کے اثرو رسوخ کے خلاف کام کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے شام میں روس اور ایران نے مل کر داعش کے خلاف کام کیا ہے۔
اناطولیہ ایجنسی کی جس رپورٹ کا ہم نے پہلے حوالہ دیا ہے اس کا ایک اور جملہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے، اس کے مطابق روس یہ سمجھ گیا ہے کہ جو چیز وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا اب وہ اسے مذاکرے اور شراکت داری سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ دراصل روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش کی طرف اشارہ ہے۔
فیس بک پر تبصرے