پس دیوار

668

“کرکٹ اگر بائی چانس ہے تو امور سلطنت میں بھی عقل و دانش کا گذر  کب ہوتا ہے۔” ایک  مجلس میں کرکٹ ، ہاکی اور ٹینس کی ٹیموں کے کپتان خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے فوائد اور برکات پر گفتگو کر رہے تھے ۔ٹینس ٹیم کے کپتان نے کہا کہ میں اپنی آمدن کا دس فیصد خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں ۔ہاکی کا کپتان بولا کہ میں اپنی آمدن کا 20 فیصد خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں ۔ کسی گہری سوچ میں کھویا ہوا کرکٹ ٹیم  کا کپتان چونکا اور بولا ہمارے کھیل میں حساب کتاب کہاں ، میں اپنے کمرے میں کھڑے  ہوکر سال بھر کی کمائی آسمان کی طرف اچھال دیتا ہوں ، خدا کو جتنی ضرورت ہوتی ہے وہ خود ہی رکھ لیتا ہے اور باقی مجھے واپس کر دیتا ہے ۔

یہ تمثیل تب یاد آئی جب چند روز پہلے وفاقی کابینہ نے اپنے ایک  اجلاس میں فیصلہ کیا کہ آئندہ گریڈ ایک سے گریڈ پانچ کی تمام نوکریاں قرعہ اندازی کے ذریعے دی جائیں گی ۔ ہماری وفاقی کابینہ اتنی با صلاحیت ہے کہ وہ چٹکی بجاتے میں تمام پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکال لیا کرتی ہے ۔ چونکہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر پہلے سو دن کے پروگرام میں شامل تھے ، اس لیے کابینہ نے دن رات محنت کے بعد پہلے آٹھ ماہ میں بالآخر 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے ہاؤسنگ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا اور بہت جلد یہ اتھارٹی کام بھی شروع کر دے گی۔ جس طرح بھینسیں خریدنے سے قبل اس کے کھونٹے کا بندوبست ضروری ہے ، اسی طرح ایک کروڑ نوکریاں بانٹنے سے قبل یہ ضروری سمجھا گیا کہ طریقہ کار طے کر دیا جائے لہذا کابینہ نے اس پر بہت عرق ریزی کی اور بالآخر اس طریقہ کار کی منظوری دی جو دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے ۔

پرانے پاکستان میں رشوت اور سفارش کا دور دورہ تھا اور کسی کام کے میرٹ پر انجام پانے  کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ۔گو کہ نئے پاکستان میں ایسی کوئی لعنت دور دور تک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی پھر بھی احتیا طاً  قرعہ اندازی کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا ۔ اگرچہ  کابینہ نے باقاعدہ ایجنڈے کے ذریعے قرعہ اندازی کے طریقہ کار کی پہلی  مرتبہ منظوری دی  مگر اس سے بہت  پہلے مختلف وزارتیں اپنے متعلقہ محکموں میں بڑی کامیابی سے اس تیر بہدف نسخہ کو استعمال کر کے شاندار نتائج دے چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں آج ملک کے طول و عرض میں داد و تحسین کا وہ شور بپا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔سب سے پہلے وزارت توانائی نے خوامخواہ کی محنت میں وقت ضائع کرنے کی بجائے بجلی کی فی یونٹ قیمت کی مختلف پرچیاں ڈالیں اور پھر باوضو ہوکر بعد درود شریف ایک پرچی اٹھا کر اس میں درج قیمت کو نافذ کردیا اور پھر اس تجربے کو بڑی مہارت سے دہرا کراپنی  کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔پھر وزارت پٹرولیم نے دو دو مرتبہ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں یہی عمل دہرایا اور عوام سے زبردست شاباش وصول کی ۔ وزارت خزانہ کہاں پیچھے رہنے والی تھی انہوں نے بھی حیرت انگیز نتائج دیتے ہوئے مارکیٹ میں رلتے ہوئے ڈالر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ رہی سٹاک مارکیٹ تو اس کی  بنیاد ہی سٹے بازی  پرہے ۔ ویسے بھی عوام ہر شعبے میں مہنگائی کا رونا رو رہے تھے  ، پرانے  پاکستان میں سٹاک مارکیٹ بہت اوپر چلی گئی تھی اور ہماری بڑی بڑی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے شیئرز عام آدمی کی رسائی سے بہت باہر ہوگئے تھے ۔حکومت نے اپنی موثر حکمت عملی سے اس مہنگائی پر قابو پایا اور کمپنیوں کے شئیرز کی ہوشربا قیمتوں  کو آدھا  کرکے عام آدمی کو یہ نادر موقع مہیا کر دیا کہ اگر دال اور ٹماٹر ان کی پہنچ سے باہر ہو جائیں تو یہ بڑی بڑی کمپنیوں کے شیئرز خرید کر ان کے حصے دار بن سکیں ۔

اسی طرح وہ بہت سارے بیوروکریٹ جنہوں نے سابقہ حکومتوں کے ساتھ کامیابی سے جان توڑ کر کام کیا تھا اور خدشہ تھا کہ اگر ان کو اہم تعیناتیاں دی گئی تو وہ  پہلے کی طرح  بروقت اور موثر نتائج دینا شروع کر دیں گے ،اس لیے چیف سیکریٹری اور آئی جی سمیت صوبائی اور ضلعی سطح پر تمام اہم تعیناتیاں میرٹ پر بذریعہ قرعہ اندازی کی گئیں اور جہاں جہاں انفرادی تبادلوں کی ضرورت محسوس کی گئی وہاں فال نکالنے کا طریقہ کار استعمال کیا گیا ۔ محکمہ صحت نے تو اس ذہانت سے کرکٹ سٹہ پالیسی کو استعمال کیا کہ اس کی د اد نہ دینا سراسر ناانصافی ہوگی ۔ پنجاب کے اسپتالوں میں مریضوں کو مفت لیباریٹری ٹیسٹ کی سہولت میسر تھی جو انصاف کے اصولوں کی یکسر نفی تھی ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ پچاس روپے والا ٹیسٹ بھی مفت ہو اور پانچ ہزار روپے والا ٹیسٹ بھی ۔ سابقہ حکومت کی ان نا انصافیوں کا سدباب کرنے کے لیے وزیر صحت نے پنجاب کی تمام پرائیویٹ لیبارٹریوں میں رائج مختلف ٹیسٹوں  کے نرخوں پر مشتمل پرچیاں ڈالیں اور بذریعہ قرعہ اندازی نکلنے والے نرخ سرکاری اسپتالوں سے علاج کروانے والے” سرمایہ دار ” طبقے پر نافذ کر دیے ۔ قرعہ اندازی اور سٹے بازی کے ان سنہری طریقوں پر کئے گئے لاتعداد فیصلوں نے ملک بھر کے عوام میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کردیا ہے اور وہ اپنے آپ کو 1857 اور 1947 میں محسوس کر رہے ہیں۔   جب ہر شہری محفوظ تھا اور خوشحالی ، انصاف اور امن و امان کا دور دورہ تھا۔  نتیجتاً پاکستانی شہریوں نے بھی   حکومت کو شاباش دینے کے لیے سینکڑوں القاب و خطابات  پر مشتمل پرچیاں بنا کر رکھ لی ہیں اور موقع کی مناسبت سے مختلف پرچیاں نکال کر ان کا ورد کرتے ہیں، جس کا ثواب دارین حکومت کرنے اور بنانے والوں تک باقاعدگی سے پہنچ رہا ہے ۔

یہاں اس امر کا  ذکر یکسر  بےمحل اور بے فائدہ ہوگا کہ پٹرول ڈلواتے وقت،  دال سبزی خریدتے سمے یا بجلی گیس کے بل پر نظر ڈالتے ہوئے لمحات میں وہ اردو، انگریزی ، پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں اظہار الفت و تشکر کے لیے رائج  کیسے کیسے نادر ،  روح افزا  اور پراثر الفاظ کا سہارا لیتے ہیں   ۔ انھیں گذشتہ کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کابینہ نے چند روز قبل تاریخ میں پہلی مرتبہ نوکری دینے کے لیے قرعہ اندازی کو بطور  طریقہ کار اختیار کرنے کی منظوری دے کر نہ    صرف  دنیا بھر کو حیران کر دیا ہے بلکہ عالمی مینجمنٹ اور گورننس ماہرین کے چہروں پر بھی مسکراہٹ  بکھیر  دی ہے اور وہ یقیناً دل ہی دل میں ہماری کابینہ کی اس نابغہ روزگار تخلیقی صلاحیت کو سراہنے میں مصروف ہوں گے۔

اس تاریخی کاروائی کے محض دو دن بعد ورلڈ کپ کے فاتح کپتان نے کرکٹ فلسفے پر عمل کرتے ہوئے  کابینہ میں پہلے سے  موجود ناموں کو نئے امیدواروں کے ناموں کے ساتھ تاش کے پتوں کی طرح  پھینٹ کر انہیں  ایک نئی ترتیب دے دی ہے اور نئی بازی شروع کرنے سے پہلے اپنے رنگ کے “یکے” کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کر کے چند کرم خوردہ  بد رنگے پتے بھی شامل کر لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کپتان نے ماضی کی حاصل کردہ تمام فقید المثال کامیابیوں پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے نئے سرے سے  اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ جس طریقہ کار پر ورلڈ کپ جیتا تھا اسی طریقہ کار پر مزید کامیابیاں حاصل کریں گے ۔

“کرکٹ اگر بائی چانس ہے تو امور سلطنت میں بھی عقل و دانش کا گذر  کب ہوتا ہے۔

راجہ قمر الاسلام معروف سیاست دان ہیں۔ تجزیات آن لائن کے لیے آپ کا یہ پہلا کالم ہے۔ آئندہ تجزیات آن لائن کے لیے ہفتہ وار ایک کالم لکھا کریں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...