پرتشدد حملوں کے سدِ باب کے لیے تہذیبی نرگسیت کی بیخ کنی ضروری ہے

جیمز ایم ڈورسی

848

اگرچہ عالمی سطح پر جہادی عناصر کے ظہور سے سعودی عرب کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے تاہم عشروں تک سنی مسلمانوں میں ٹھیٹھ قدامت پسندانہ مذہبی تصورات کے فروغ کی غرض سے بین الاقوامی سطح کی مالی معاونت کی بنا پر اسے مسلم حلقوں میں بنیاد پرستانہ رجحانات کی نشو ونماکے لیے زمین ہموار کرنےکا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ تہذیبی نرگسیت (Civilizationalism) کا معاملہ بھی بعینہ یہی ہے۔ عدمِ برداشت کی نفسیات کا حامل جہادازم جس کا محض ایک مظہر ہے، جبکہ ہندوازم، بدھ ازم اور مسیحی مبشریت بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ تہذیبی نرگسیت کا یہ احساس شعوری یا غیر شعوری طور پر بنیاد پرستی کے عمل کو مہمیز دیتا ہے جوسیاسی تشدد کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔

سماجی اخلاقیات مذہبی اقدار پر بنیاد رکھتی ہیں، چنانچہ اکثر تشدد کے جواز کے لیے مطلوبہ نرگسی ساختیات مذہب سے با آسانی دستیاب ہوتی ہیں۔ تاہم تشدد کے لیے مذہب بطور مرکزی محرک شاید ہی کبھی کارفرما رہا ہے۔ نیوزی لینڈ میں مساجد، سری لنکا میں ہوٹلوں اور گرجا گھروں، اور امریکا میں یہودی عبادت گاہوں پر حملوں سمیت دنیا بھر میں ہونے والے دیگر تشدد کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے علاوہ دیگر لوگوں کو انسان نہ سمجھنے کے درس پر مبنی بالادست اور امتیازپسند نفسیات کو فروغ دینے والے تہذیبی نرگسیت کے حامل نظریات سماج کے محروم اور کمزورطبقات کو زیادہ متاثر کرتے ہیں۔

اپنے سماجی پسِ منظر اور معاشی حیثیت سے قطع نظر تشدد کے مرتکب افراد کسی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ اکثر کرشماتی شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنےذاتی مسائل سے نمٹنے اور اپنی شخصیتوں میں موجود خلا کو پر کرنے کی تگ ودو میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ افراد اکیلے بھی ہوسکتے ہیں اور کسی گروہ کی پیداوار کی صورت میں بھی سامنے آ سکتے ہیں جو انہیں آہستہ آہستہ سماج سے الگ کرناشروع کردیتا ہے  اور/یا ان کو اس بات پر قائل کرلیتا ہے کہ سماج کے کسی مخصوص طبقے کی طرف سے انہیں خطرات لاحق ہیں۔

حالیہ یا گذشتہ سیاسی تشدد کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ تہذیبی نرگسیت کے شکار افراد کا غصہ اکثر اوقات دنیا کے کسی دوسرے حصے کی بجائے اپنے گھر کی ہی تباہی کا سامان بنتا ہے۔ غصے کی یہ آگ خوف کی سیاست کو جنم دیتی ہے جس کی چھتری تلے تہذیبی نرگسیت پھلتی پھولتی ہے۔ خوف کی سیاست سماجی ربط کو درہم برہم کردیتی ہے، عوامی مباحث پر حاوی ہو جاتی ہے اور ایسی جامع پالیسی سازی جس سے تشدد کے خطرے  میں کمی واقع ہو سکتی ہے، اس میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔

شام میں برسرِ پیکار جنگجوؤں میں دوسری بڑی تعداد سعودی باشندوں کی ہے۔ بیرون ملک لڑنے والے سعودی جنگجوؤں سے متعلق ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کو اس جنگ میں لے جانے والی چیزتہذیبی نرگسیت ہے۔ وہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی پیداوارہیں جو بالادست و برتر نفسیات کے حامل افکار اور اہلِ تشیع کے حوالے سے امتیازی تصورات پر مبنی ٹھیٹھ قدامت پسندانہ سنی نظریات کو فروغ دیتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ان میں سے کئی افراد نے فرقہ وارارنہ احساسات کی بنا پر بھی یہ راہ اختیار کی تھی۔ یہ فرقہ وارانہ احساسات ایک خاص فرقے سے تعلق رکھنے والے شامی صدر بشارالاسد کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں کو تشددو بربریت کے ذریعے دبانے کے فیصلے اور ایران اور اس کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کی پشت پناہی اور مددومعاونت کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ یہ فرقہ ٹھیٹھ قدامت پسندوں کے نزدیک گمراہ ہے اور وہ شامی مظاہرین کے خلاف بشارحکومت کے ان پر تشدد اقدامات کوسنی عسکریت پسندوں کے خلاف جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں۔

ماہرِ بشریات اسکاٹ اٹرن اور صحافی جیزن برک کہتے ہیں کہ غیر ملکی جنگجوؤں کا اپنے ملک سے دور کسی جگہ برسرِ پیکار افراد میں شامل ہونے کا عمل اس حقیقت سے متضاد نہیں ہے کہ سیاسی تشدد کی حالیہ و گذشتہ کارروائیاں اپنے ہی گھر میں جنم لینے والے تنہائی پسندوں یا عسکریت پسندوں نے انجام دی ہیں۔ ان جنگجوؤں کو لڑنے کی ترغیب دینے اور انہیں بھرتی کرنے والے افراد بھی تہذیبی نرگسیت کے حامل نظریات  سے متاثر مقامی عناصر پر انحصار کرتے ہیں۔

تہذیبی نرگسیت سماج کے محروم اور کمزور طبقات کو شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر کرتی ہے۔ اپنی ذاتی پریشانیوں اورعادات واطوار سے تنگ آئے ہوئے ذہنی کرب کا شکار پریشان حال افراد کی طرف سے قتلِ عام کے غیر سیاسی واقعات اس حقیقت کا مظہر ہیں۔ سیاسی اور تہذیبی نرگسیت پر مبنی تشدد ایک ہی چشمے سے پھوٹتے ہیں جو قتلِ عام کے مرتکب پریشان حال افراد کو جنم دیتا ہے۔ یہ حقیقت ان واقعات کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر سوالیہ نشان ہے جن میں تقریباً واضح طور پر یا تو تہذیبی نرگسیت کے تصورات پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے جن کے باعث مختلف سماجی طبقات رسمی یا دیگر طریقوں سے معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں یا پھر محض قانونی وسکیورٹی اقدامات پیشِ نظر رہتے ہیں۔

درج بالا حقیقت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ تشدد چاہے سیاسی ہو یا غیر سیاسی، اس کو جس قدر قانون کی حکمرانی اور سکیورٹی کے مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اسے اتنا ہی صحتِ عامہ اور سماجی خدمت کے پیرائے میں بھی دیکھنا چاہیے۔ تشدد کا یہ عمل تقاضا کرتا ہے کہ تشدد کے مرتکب ان افراد کو کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکنے اور ان کے ذاتی مسائل و مصائب سے نمٹنے اور شخصی خلاپر کرنے کے لیے ان کی مددکا کوئی پیشگی نظام موجود ہونا چاہیے۔

اکتوبر 2014ء میں ہونے والے دو واقعات اس مقدمے کو مضبوط بناتے ہیں۔

پہلی مثال جیلن فرئبرگ کی ہے جو اپنے ہائی اسکول میں پہلے سال کا طالب علم اور اسکول میں کافی معروف تھا۔ وہ دوپہر کے کھانے کے وقت واشنگٹن کے شہر سیٹل (Seattle)میں اپنے طالب علم دوستوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔ حالانکہ وہ کافی خوش رہنے والا طالبِ علم نظر آتا تھا۔ وہ ایک ہر دل عزیز کھلاڑی تھااور اسے فائرنگ کے اس واقعے سے کچھ روز پہلے ہی اسکول میں’’ سال اول کے شہزادے‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ جیلن فرئبرگ اس واقعے میں اپنے آپ کو بھی گولی مارکر ختم کردیتا ہے جس کے باعث اس کی زبانی یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اسے اپنے ساتھی طلبہ کو قتل کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلینے پر کس چیز نے اکسایا۔ تاہم بعد ازاں پولیس کو دورانِ تفتیش یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک  لڑکی کی طرف سے دھتکار دیے جانے کی وجہ سے نالاں تھا، اس لڑکی نے جیلن کا انتخاب کرنے کی بجائے اس کے چچا زاد کو پسند کر لیا تھا۔

اس کے برعکس کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ایک سکیورٹی محافظ کو قتل کرنے کے بعد کینیڈین پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے والے مائیکل زیہاف بیبو میں ذہنی انتشار اور پریشان حالی کی تمام ترعلامات پائی جاتی تھیں۔ مائیکل زیہاف کی عمر 32 سال تھی اوراس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ کینیڈین پولیس کے مطابق مائیکل زیہاف ذہنی طور پر بیمار اور منشیات کے بے دریغ استعمال، چوری چکاری اور دھمکیاں دینے جیسے مختلف جرائم میں ملوث رہا تھا۔ وہ کوکین کی لت میں مبتلا تھا اور اپنی زندگی کےآخری چند ہفتے اس نے گھر سے باہر کسی  پناہ گاہ میں گزارے تھے۔ کینیڈین اخبار دی گلوب اینڈ میل نے مائیکل زیہاف کے ایک دوست دیو بادرسٹ کی وساطت سے لکھا کہ مائیکل نے اپنے دوست دیو سے کہا تھا کہ شیطان میرا پیچھا کررہا ہے۔ دیو بادرسٹ نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھا۔‘‘

جیلن فرئبرگ اور مائیکل زیہاف کے یہ واقعات تشدد کے پیشگی حل کے لیے کی جانے والی سماجی کوششوں کے حوالے سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اسکول میں قتلِ عام کے غیر سیاسی واقعات اور سیاسی تشدد اور دہشت گردی کے واقعات کے درمیان فرق کیسے کیا جائے گا۔ یہ دونوں واقعات اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سکیورٹی اقدامات اور قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ معاشرتی ربط، سماجی خدمت اور نفسیاتی علاج کی فراہمی بھی انتہائی اہم ہے۔  جیلن فرئبرگ اورمائیکل زیہاف بیبو، دونوں نے اپنے اپنے طریقے سے اپنی مدد کے لیے دہائی دی تھی۔

اپنی ایک ٹویٹ میں جیلن نے اس لڑکی کو جس نے اسے چھوڑ دیا تھا، مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’’تم نے مجھے دھتکار دیا ہے۔۔۔۔۔ اور کچھ دنوں میں ایسا ہونے جارہا ہے کہ مجھے یقین ہے تمہیں ناگوار گزرے گا۔‘‘ کچھ دنوں کے بعد ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ ’’میں ٹوٹ کر رہ گیا ہوں۔۔۔۔ واقعتاً ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں اس چھٹکارا پارہا ہوں۔۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ اور میں ایسا کبھی نہیں کرپاؤں گا۔‘‘ مائیکل زیہاف بیبو کے دوست دیو بادرسٹ جو اس کی طرح اسلام قبول کر چکے تھے، شاید واحد شخص تھے جن پر مائیکل کو اعتماد تھا اور اس نے انہیں بتایا کہ کس طرح وہ شیطان کے نرغے میں ہے۔

مائیکل زیہاف کے اس احساس میں اس وقت مزید شدت آ گئی جب مسجد کی انتظامیہ نے جہاں وہ اور دیو بادرسٹ نماز پڑھنے جایا کرتے تھے، مائیکل زیہاف کو اس کے عجیب و غریب رویے کی وجہ سے مسجد آنے سے منع کردیا تھا۔ جیلن فرئبرگ اور مائیکل زیہاف بیبو کے حالاتِ زندگی ہمیں ایک طرف ایسی پالیسیوں کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں جوہمیں بطور سماج کسی بھی شخص کو تشدد کی طرف بڑھنے سے پہلے اس کے معاملات میں دلچسپی لینے اور ان کو سمجھنے کی اجازت دیں۔  دوسری طرف یہ کارروائیاں تہذیبی نرگسیت کے خطرے سے بھی خبردار کرتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہبی، قومی یا تہذیبی پسِ منظر کیا ہے ۔

درج بالا دونوں واقعات اور سری لنکا، نیوزی لینڈ اور امریکا میں ہونے والے حملے اس بات کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ تہذیبی نرگسیت کا شکار افراد کی اٹھان یا تو اعلیٰ سطحی اداروں میں ہورہی ہے یا پھر ایسے قابلِ قبول سیاسی و سماجی گروہوں کی صورت میں جو ایک ایسی آسیب زدہ دنیا تخلیق کررہے ہیں جہاں تشدد عمومیت اختیار کر لیتا ہے۔

 ضمیمہ

تہذیبی نرگسیت کی اصطلاح کے تعارف میں مبارک حیدر اپنی کتاب تہذیبی نرگسیت میں لکھتے ہیں کہ علمِ نفسیات میں نرگسیت کی اصطلاح بیماری کی حد تک بڑھی ہوئی خود پسندی کےلئے استعمال ہوتی ہے۔ یعنی جب گرد و پیش کے حقائق سے آنکھیں چُرا کر کوئی شخص اپنے آپ کو دنیا کی اہم ترین حقیقت سمجھنا اور اپنی ذات کے نشے میں بدمست رہنا شروع کردے۔ انہوں نے اس اصطلاح کو ذاتی سطح سے اُٹھا کر اجتماعی سطح پر استعمال کیا ہے۔ وہ اپنے قاری کو باور کراتے ہیں کہ کسی فرد کی طرح کبھی کبھی کوئی پوری قوم اور پوری تہذیب بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتی ہے اور اسی اجتماعی کیفیت کو وہ تہذیبی نرگسیت کا نام دیتے ہیں۔۔۔۔ تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پہ ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جِسے اکسانے کےلئے ایک چھوٹا سا عیّار اور منظم گروہ سماج میں سر گرمِ عمل رہتا  ہے۔۔۔۔۔ یہ درحقیقت اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔[ماخوذ: عارف وقار، تہذیبی نرگسیت: ایک خطرناک روگ، بی بی سی اردو، 30 جنوری 2009ء]

مترجم: حذیفہ مسعود

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...