عربی اعداد و شمار سے کون خوفزدہ ہے؟

مصطفیٰ ایکول

875

مغربی تہذیب سے پہلے مسلم تہذیب علم کا مرکز تھی

کیا امریکی طلبہ کو سکول کے نصاب میں عربی اعدادوشمار سیکھنے چاہیئں؟ یہ سوال جو بظاہر ریاضیات کا سوال لگتا ہے، پٹس برگ میں قائم ایک  تحقیقی ادارے سوک سائنس نے حالیہ دنوں میں ایک جائزے کے دوران 3200 امریکی طلبہ سے پوچھا۔ اس کا جواب امریکی طلبہ کے اس رویے کا آئینہ دار تھا جو وہ عرب دنیا کے متعلق رکھتے ہیں۔ 56 فیصد طلبہ نے فی الفور جواب دیا ’نہیں‘۔ 15 فیصد طلبہ نے کہا کہ وہ اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے۔ اس سروے کے نتائج نے انٹرنیٹ پہ اس طرح تہلکہ مچادیا کہ اس معاملے پر 24 ہزار ٹوئٹس کی گئیں۔ اس سروے کے نتائج یکسر مختلف ہوسکتے تھے اگر سوال پوچھنے والوں نے سوال کے ہمراہ یہ وضاحت کر دی ہوتی کہ عربی اعدادو شمار کیا ہوتے ہیں؟ وہ درج ذیل ہیں:

0,1,2,3,4,5,6,7,8,9یہ رہے وہ دس عربی اعداد و شمار۔

اس سروے کے نتائج دیکھ کر جان ڈک جو کہ اس تحقیقی ادارے کے چیف ایگزیکٹو ہیں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ نتائج افسوس ناک حد تک ہماری تحقیقاتی تاریخ کے سب سے زیادہ مضحکہ خیز نتائج ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام کس حد تک متعصب ہیں۔

بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ امریکی جنہوں نے اس سروے  حصہ لیا وہ اس امر سے واقف ہی نہیں تھے کہ عربی اعداد و شمار کیا ہوتے ہیں۔ ‘نہیں‘ کہنے والوں میں سے اکثریت ایسے امریکیوں کی تھی جن کی سیاسی وابستگیاں ری پبلکن پارٹی سے ہیں۔ انہوں نے  محض عربی لفظ سنتے ہیں ’نہیں‘ کہہ دیا۔ یہ صورتحال بیک وقت مضحکہ خیز اور افسوس ناک  ہے اور ہمیں اس کے بعد خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے کہ دنیا بھر میں رائج اعداد وشماجو کہ مغربی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہیں انہیں عربی اعداد وشمار کہا جاتا ہے؟

اس سوال کے جواب کی تلاش ہمیں ساتویں صدی عیسویں کے ہندوستان میں لے جائے گی جہاں اعداد و شمار کے انقلاب آفریں عدد صفر کی تخلیق ہوئی اور یہ اعداد وشمار کا نظام قائم ہوا۔ اس کے 200 سالوں بعد مسلم تہذیب کے دارلخلافہ بغداد میں چلئے جہاں اس وقت دنیا کا اعلیٰ ترین تعلیمی نظام موجود تھا اور دنیا بھر سے لوگ تحصیل علم کے لئے بغداد کا رخ کرتے تھے۔ یہاں ایک مسلم سائنسدان محمد موسیٰ الخوارزمی جس کا تعلق فارس سے تھا، ریاضی کی ایک نئی شاخ العلم الجبر تخلیق کررہے تھے۔ الجبر کا لفظی معنی ٹوٹے ہوئے حصو ں  کو جوڑنا ہے۔

تیرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ایک اطالوی ریاضی دان فیبوناچی جو کہ شمالی افریقہ میں ایک مسلم ریاضی دان کا شاگرد تھا، اس نے جب یہ اعداد و شمار پڑھے اور ان کا اعشاری نظام سیکھا تو اسے یہ رومن اعدادو شمار کے نظام کی نسبت زیادہ آسان مستعمل اور پائیدار معلوم ہوئے۔ اس نے انہیں یورپی دنیا میں متعارف کروایا اور جلد ہی اعداد و شمار کا یہ نظام یورپ میں عربی اعدادو شمارکے نام سے رائج ہوگیا۔

محمدموسیٰ الخوارزمی،مسلم تہذیب کے عظیم ریاضی دان جنہوں نے الجبرا تخلیق کیا

اسی دوران الجبر نامی ریاضی کی شاخ الجبرا کے نام سے شہرت پاگئی اور الخوارزمی یورپی دنیا میں الیگورتھم کے نام سے  پہچانے جانے گے۔ آ ج کی یورپی زبان انگریزی میں ابھی بھی ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جن کی جڑیں عربی زبان میں ہیں۔ ایک مختصر فہرست ملاحظہ کیجئے:

ایڈمرلadmiral ، الکیمی alchemy، الکووalcove، الومبیکalembic ،  الکلائی alkali،  المینکalmanac ،لوٹlute ، ماسک  mask، مسلنmuslin، نادرnadir ، شوگرsugar ،سیرپ syrup،   ٹیرف tariff ،  اور زینتھ zenith۔

بعض محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ انگریزی کا لفظ چیک “check,” جسے آپ بنک سے  وصول کرتے ہیں وہ عربی کے لفظ سیک سے نکلا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے مخطوطہ، اس کی جمع سکوک ہے جو آج بھی اسلامک بینکنگ کے نظام میں بانڈز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کے زمانے میں ان انگریزی لفظوں کی جڑیں عربی میں کیوں ہیں؟ اگر اس سوال کی کھوج کی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ آٹھویں صدی عیسوی اور بارہویں صدی عیسوی کے درمیان جب مسلم تہذیب عروج پر تھی تو اس کی عالمی زبان عربی تھی جو کہ اس عہد کے مسیحی یورپ سے کہیں زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کی حامل تھی کیونکہ یورپ اس وقت عہد وسطیٰ کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ مسلم اہل علم، حیاتیات، کیمیا، فلکیات، ریاضیات، طبیعات، جراحی، حکمت، طب، نباتات، عمرانیات اور خاص طور پر فلسفے جیسے علوم پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ مسلم اہل علم نے یہ علوم وراثت میں نہیں بلکہ قدیم یونان اور ہند اور دیگر خطوں سے سیکھے تھے اور انہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں ااور علم دوستی کے سبب عروج تک پہنچایا اور عہد وسطی ٰ کے یورپ کو منتقل کیا۔

آخر ضرورت کیا ہے کہ ہم اس قدر گہری اور بھول گئی ہوئی  تاریخ میں جھانکیں؟ کیونکہ اس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں ہی کے لئے سبق ہے۔

موخر الذکر سے مراد وہ بنیاد پرست مغربی ہیں جو اس نکتہ نظر کے پرزور حمایتی ہیں کہ مغربی تہذیب برتر ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے اور یہ بھی کہ مغربی تہذیب یہود و مسیحی ہے۔ بلاشبہ مغربی تہذیب کی کامیابیاں عظیم ہیں اور ان کی حفاظت کرنا لازم ہے۔ آزادی اظہار رائے، مذہب کی آزادی، مساویانہ شہری حقوق، جمہوریت، غلامی کا خاتمہ یہ سب کچھ مغربی تہذیب کا ہی تحفہ ہیں۔

لیکن ان اقدار کو مابعد جدیدیت کے اس قبائلی نظا م کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے جسے شناخت پر مبنی سیاست کہا جارہا ہے۔ تاہم مغربی بنیاد پرست اس لمحے خود ہی اس بھیانک قبائلی تعصب کا ارتکاب کرتے ہیں جب وہ ان خدمات اور تخلیقات کا انکار کرتے ہیں اور انہیں جھٹلاتے ہیں جو کہ یہوو مسیحی نہیں ہیں۔ ابراہیمی مذاہب کے سلسلے کا تیسرا مذہب اسلام بھی جدید دنیا کی تخلیق کا ایک نمایا ں جزو رہا ہے اور اس میں موجود دانش و حکمت کا احترام و اعتراف کئے بغیر مسلم دنیا کے ساتھ بامعنی مکالمہ بہت مشکل ہے۔

البیرونی کی کتاب التفہیم میں موجود خاکہ جس میں انہوں نے چاند کے مدار کے متعلق وضاحت کی ہے

بلاشبہ ہم مسلمانوں کو بھی اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک زمانے میں ہماری تہذیب علم و حکمت اور تخلیقات کا مرکز تھی اور آج وہ زریں عہد قصہ ماضی بن کر رہ گیا ہے۔ کچھ مسلمان اس سوال کا بہت سادہ اور غیر علمی جواب دیتے ہیں کہ جب مسلمان عیاشی میں پڑگئے تو وہ اعلیٰ مقام سے گر گئے۔ کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس پرانے زمانے جیسے حکمران آگئے تو ہمارا گزرا ہوا زریں عہد لوٹ کر آسکتا ہے۔ کچھ مسلمان اپنی بربادی کا ذمہ دار خارجی عناصر اور داخلی غداروں کو ٹھہراتے ہیں جنہوں نے سازشیں کرکے ہماری عظمت ہم سے چھین لی۔

اگر حقیقت پسند جواب تلاش کیا جائے تو یہ نتیجہ  سامنے آتا ہے کہ گزشتہ عہد کی مسلم تہذیب تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال تھی کیونکہ وہ ترقی پسند تھی۔ کیونکہ چند مسلمان ایسے ضرور تھے جو دیگر تہذیبوں اور لوگوں سے سیکھنا چاہتے تھے۔ کسی طرح کی آزادی اظہار کی سہولت بہر حال موجود تھی چاہے اس کا دائرہ کار محدود تھا۔ اسی کی بدولت ارسطو کا فلسفہ عربی میں ترجمہ ہوا، دیگر کئی یونانی علوم آئے، ان پر بحث ہوئی اور یوں مسلمانوں میں علم کی شمع روشن ہوئی۔ تاہم بارہویں صدی عیسویں سے لے کر ماضی قریب تک مسلمانوں میں قدامت پرست سلطان اور خلفا حکمران بننے لگے جنہیں عوام اور اہل علم دونوں میں ہی خاص پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ انہوں نے اسلام کی غیر عقلی و منطقی اور یکساں طرز فکر  کومتعارف کروایا۔ نتیجے کے طور پر جو مسلمان سامنے آئے وہ علم دشمن، بنیاد پرست اور نقال بنے رہے۔

سترہویں صدی کے مسلم ہندوستان میں ایک مسلمان رہنما جن کا نام شیخ احمد سرہندی تھا اور جنہیں لوگ امام ربانی کے نام سے جانتے تھے انہوں نے مسلمانوں میں تفکر اور تدبر کی حوصلہ شکنی کی اور تمام فلاسفہ اور ان کے علوم کو غیر اہم و غیر ضروری قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان مسلم سائنسدانوں کی بے وقوفانہ اور احمقانہ دریافتوں میں سے ایک جیومیٹری بھی ہے بھلا اس میں کسی کا کیا فائدہ ہے؟ ایک مثلث کے تین زاویوں کا مجموعہ دو حادہ زاویوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس جملے سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ مسلم دماغ کی فکر کا سفر کیوں رک گیا اور اس تعطل کو کیسے ختم کیا جائے، یہ سوال آج کے مسلمان کے لئے سب سےاہم ہے۔ ہمیں مزید کوئی وقت الزامات اور انکار میں ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔

اسی طرح غیر مسلموں کو بھی مسلم تہذیب کی ان عناصر کو نظرانداز کرنا ہوگا جو کہ منفی تھے اور اس کے مثبت اثرات اور نتائج کو قبول کرنا ہوگا۔ یہ ماننا ہوگا کہ یہ ایک عظیم تہذیب تھی اور اس نے سائنس اور جدید دنیا خاص طور پر مغرب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی ایک مثال وہ عرب اعدادو شمار ہیں جنہیں استعمال کرکے آپ اپنے موبائل کے نمبرز ڈائل کرتے ہیں۔ یہ اس  تخلیقات اور معلومات کے اس عظیم خزانے کا ایک معمولی حصہ ہے جس سے مغرب و مشرق دونوں استفادہ کررہے ہیں۔

مترجم: شوذب عسکری، بشکریہ: نیویارک ٹائمز

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...