کام چوری کی عادت

810

اگر ہم کامیاب انسان کی تعریف کریں تو اس کی مختصر تعریف یہ ہو سکتی ہے ”جو اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے ادا کرے” اس بات کو ہم دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں “قدرت جو کردار بھی عطا کرے وہ اسے بخوبی نبھائے” کسی مغربی مفکر نے کہا تھا” زندگی ایک سٹیج ہے اور انسان ایک  ایکٹر ہے” قدرت ہمیں اس سٹیج پہ مختلف کردار میں ڈھالتی رہتی ہے کبھی ہم بیٹے یا بیٹی، کبھی بہن یابھائی، کبھی خاوند یا بیوی، اور کبھی ماں یا باپ ہوتے ہیں۔ اگر خاندان سے باہر دیکھیں تو کبھی دوست یا کبھی باس (Boss) کبھی ہمسایہ یا ملازم (Employer) گویا کہ داخلی اور خارجی دونوں دنیا میں ہم کسی نہ کسی کردار میں رہتے ہیں۔ یہ زندگی بد کردار یا خوش کردار بن کر گزر سکتی ہے لیکن بے کردار و بےنام ہو کر نہیں گزرتی۔

ذمہ داری کو بہتر نبھانے کا ایک ہی سلیقہ ہے کہ ہم ذمہ داری کو Enjoy کریں۔۔اگر ہم ذمہ داری کو بوجھ یا Liability سمجھ لیں تو زندگی بےلطف اور بےمزا ہو کر رہ جاتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ترقی کا راز اسی Enjoyment میں ہے. کہتے ہیں Profession کو Passion بنالیا جائے تو مصروفیت سے بھی انسان لطف اندوز ہوتا ہے۔

مذہب اس ذمہ داری میں مزید ایک عقیدہ کا اضافہ کرتا ہے اور وہ ”جوابدہی” کا تصور ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حسّاس ہو جائے اس کے لئے قرآن مجید نے “تقوی”ٰ کا لفظ استعمال  فرمایا ہے جس کا معنی “خدا آگاہ”(God Conscious) ہونا ہے..یہ احساس تربیت ،تعلیم اور تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے۔

زندگی بد کردار یا خوش کردار بن کر گزر سکتی ہے لیکن بے کردار و بے نام ہو کر نہیں گزرتی

مذہب اس کائنات میں جس اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک افراد کا تعارف پیش کرتا ہے وہ انبیاء علیہم السلام ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کا بچپن، نوجوانی، جوانی بوڑھاپا الغرض وہ جس کردار میں ڈھلے یا جو ذمہ داری بھی ان کے سپرد ہوئی انہوں نے اسی ذمہ داری کو تقویٰ کے ساتھ ادا کیا۔ ان کے زمانے میں کسی انسان نے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں، ان سے کوتاہی کا شکوہ نہیں کیا۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو ماہتاب کی طرح درخشاں اور روشن ہے۔ ان کے بعد جن افراد کو ہم  اچھے الفاظ میں یاد کرتے اور اُن کاحوالہ دیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں کہ جن پہ اقتدار کا بارِامانت ڈالا گیا، ا نہوں نے اسے بھی احسن طریقے سے نبھایا۔ انہیں دنیا کی سیادت سونپی گئی انہوں نے اسے بھی خوب نبھایا۔ وہ بیٹے بنے تو وہ بھی کمال کے۔ شوہر بنے تو اس میں بھی بے مثال نظر آئے۔ باپ کا کردار بھی خوب ذمہ داری سے نبھایا۔

انسانی تاریخ بتاتی ہے دنیا میں ہمیشہ عزت اور مرتبہ انہیں نصیب ہوا جنہوں نے کبھی بھی ذمہ داری اور فرض سے جی نہیں چرایا بلکہ اس میں دن رات لگا کر کام کیا۔ بحیثیت قوم، اقوام عالم سے، ہمارے پیچھے رہ جانے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم ذمہ داریوں سے بھی گھبراتے اور استطاعت ہونے کے باوجود اپنے کردار کو بہتر طریقے سے ادا نہیں کرتے۔

ذاتی کاموں سے لے کر سرکاری کاموں تک، دفتری امور سے لے کر گھریلو امور تک، سب میں ہم سستی اور کاہلی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ طالب علم محنت سے 90 نمبر لے سکتا ہے، وہ 40 نمبرز پہ اکتفاء کر کے اس لیے بیٹھا ہے کہ وہ محنت نہیں کرنا چاہتا۔ ہماری ذات سے متعلق لوگوں کے کام تاخیر سے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو چستی سے نبھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ باالفاظ دیگر ہم ”کام چور” ہیں۔ کام چوری کی عادت اسی قوم میں ہوتی ہے جو اپنی ذمہ داری اور کردار ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ دنیا میں آگے بڑھنے اور ترقی کا انہیں شوق ہوتا ہے اور نہ ہی شعور۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...