گوادر بندرگاہ کی افادیت اور معروضی صورتحال

990

سلامتی کونسل میں چین کی قرار داد ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کی منظوری کے بعد بھارت کے خدشات بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور حالیہ ٹرمپ مودی جپھی کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی

سی پیک کا پاکستان میں جغرافیائی روٹ کیا ہوگا یہ  واحد روٹ یا شاہراہ ہوگی یا پاکستان میں اسے کثیر سمت شاہراہ بنا لیا جائے گا؟اوبور کے بنیادی تصور میں متذکرہ تبدیلی،بیجنگ کی ضروریات کے ماتحت ہوگی یا پاکستانی اشرافیہ کے اصرار پر،باہمی رضا مندی سے دو طرفہ طور پر تبدیل کیا جائے گا؟چین کی تجارتی اور عالمی سیاسی کردار کی خواہشات و ضرورت کو محلوظ رکھیں تو یہ تسلیم کرنا آسان ہے کہ پاکستانی اشرافیہ چین کو مشرقی اور پھر بعد ازاں مغربی روٹس کی تعمیر پر رضا مندی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ چینی مفادات کے جو تقاضے گوادر سے وابستہ ہیں وہ پاکستانی اشرافیہ کے کنٹرول میں ہیں تو کیا سیاسی یا معاشی،تجارتی اشرافیہ کے برعکس فوجی اشرافیہ ایک مختلف رویہ اپنا سکتی ہے؟ جو مشرقی روٹس سے وابستہ مفادات میں پیوست سماجی حلقوں کیلئے ناخوشگوار مگر چین کیلئے سود مند ہو؟کیا فوجی اشرافیہ،ادارہ جاتی مفادات سے ماورا کسی قسم کے زمینی،سماجی،معاشرتی،مالی،تجارتی رشتوں اور مفادات و مراعات سے بالاتر رہ کر سی پیک کی جغرافیائی سمت میں تبدیلی کیلئے آمادہ ہوسکتی ہے؟
مذکورہ بالا تمام سوالات اہم ہیں اور حتمی طور پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سی پیک ایک ایسی پٹاری ہے جس کی اندرونی کہانی کی پرتیں کھلنا ابھی باقی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ اگر مغربی روٹ کو سرے سے ہی نظر انداز کیا گیا تو اس کے دو منفی پہلو نمایاں ہو کر سامنے آئیں گے اولاً گوادر بندر گاہ عملاً چین کی ذیلی بندرگاہ بن کر رہ جائے گی۔افغانستان اور وسط ایشیائی منطقوں کے ساتھ اس کے عالمی تجارتی شاہراہ بننے کے براہ راست امکانات معدوم یا کم ہو جائیں گے تاہم سی پیک میں روس اور دیگر علاقائی،عالمی معاشی یا ریاستی قوتوں کی شمولیت کی اطلاعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گوادر پر چین کی اجارہ داری ممکن ہے نہ ہی ہمارے مفادات سے ہم آہنگ۔
ثانوی طور پر مغربی روٹس کی عدم موجودگی سے بلوچستان کے ایک وسیع حلقے اور کے پی کے پسماندہ اضلاع میں اس کے خلاف رد عمل ابھرے گا۔ بلوچستان میں محروم رہ جانے والے اضلاع سے لوگوں کی کثیر تعداد،شاہراہ کے ان اضلاع کا رخ کرے گی جہاں جہاں سے اسے لازمی طور پر گزرنا ہے کہ منصوبے کا ایک اور دوسرا بنیادی سرا گوادر بلوچستان کا شہر ہے جو ساحل مکران پر خلیج فارس کے قریب ہیں نیز ملک کے گنجان آباد ،ترقی کرتے،مرکزی شہری مراکز سے بہت دور واقع ہے۔چنانچہ مکران کے ساحلی علاقے تربت(کیچ) پنجگور لسبیلہ،خضدار اور شہداد کوٹ تک جانے والے راستے ایسے مقامات ہیں جہاں سے سی پیک نے ہر حال سے گزرنا ہے اور اگر وہ خضدار سے کوئٹہ و ژوب کی طرف جاتی نظر نہ آتی(جیسا کہ فی الوقت امر واقع ہے) تو پھر شمالی اضلاع سے لوگوں کا ان علاقوں کی جانب رخ کرنا فطری ہوگا جن کا سطور بالا میں ذکر ہوا ہے اس عمل کے اثرات کا سیاسی پیرائے میں ادراک کرنا ناممکن نہیں اور مضمرات کے نتائج کا اندازہ لگانا بھی دشوار نہیں۔بالخصوص حال ہی میں ہوئی مردم شماری کے امکاناتی نتائج کے پس منظر میں سیاسی اور ثقافتی لسانی و قومیتی حوالوں سے تناؤ کا خدشہ نظر انداز کرنا احمقانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
گوادر میں جاری بندرگاہ اور اس سے متعلقہ تعمیراتی عمل میں اس وقت تک چین کے رویے نے عوام میں تشویش کی جو لہر پیدا کی ہے وہ بڑھتے بڑھتے ان بیرونی عناصر کیلئے قابل عمل افرادی قوت ثابت ہوسکتی ہے جو گوادر بندرگاہ اور سی پیک کی فعالیت سے خائف اور مخالف ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ چین اپنے تعمیراتی کاموں کیلئے ہر قسم کا خام مال اور افرادی قوت بشمول مزدور،ہتھوڑی، کیل،کانٹے چین سے لا رہا ہے۔حال ہی میں اس نے ریت اور بجری کی خریداری سے بچنے کیلئے ضلعی انتظامیہ سے بجری و ریت کے زمینی ذرائع یعنی پہاڑ،ساحل سمندر کے کچھ علاقے الاٹ کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ دونوں خام اشیاء بجری اور ریت بھی فی سبیل اللہ(مفت) آجائے تاہم مقامی انتظامیہ نے سیاسی اکابرین کے دباؤ پر متذکرہ چینی خواہش کی تکمیل سے معذوری ظاہر کردی ہے خدشہ ہے کہ بالائی حکام(صوبائی یا مرکزی) اس میں معاونت کرکے چین کو خوش مگر مقامی افراد کو روزگار کے ذرائع سے محروم نہ کردیں۔اسی خدشے کے تدار ک کیلئے میں نے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے معاملہ عوام کی عدالت میں رکھ دیا ہے۔دیکھئے نتائج کیا نکلتے ہیں۔بہرحال چین کی خطے میں سرمایہ کاری سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے اہل حکم کو دو بنیادی نقطے ذہن نشین رکھنے چاہئیں۔
مغربی سرمایہ یا سرمایہ کاری ایشیاء افریقہ کا رخ یہاں کے عوام کی محبت میں نہیں ہوتی۔اس کی بنیادیں خام مال وہ بھی سستے داموں اور پھر سستی محنت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول میں مضمر ہوتی ہیں جبکہ چینی سرمایہ کاری،جغرافیائی حدود سے باہر خام مال و معدنی ذخائر کے استفادے تک محدود ہوتی ہے۔سستی اور ہنر مند لیبر اس کے پاس موجود ہوتی ہے۔چین اپنے سرمائے اور لیبر کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔اس حقیقت کے ادراک سے یہ توقع دم توڑ دیتی ہے کہ چینی سرمائے کی آمد سے مقامی سطح پر محنت کش ہنر مند افراد کو بھرپور فوائد ملیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اشرافیہ اور صوبائی حکام ان نکات پر توجہ مبذول کریں اور ایسے تحفظاتی اقدامات و شرائط معاہدوں میں شامل کرائیں جس سے دو طرفہ طور پر استفادے اور روزگار کے مواقع سے مقامی آبادیوں کو ترقی و خوشحالی میسر آسکے۔
چین کیلئے گوادر بندرگاہ ناگزیر کیوں ہے؟
ایک ابھرتی ہوئی پیداواری معیشت جس کا توانائی کے ذرائع پر بیرونی انحصار ہے۔ اسے منڈی تک اشیاء پیداوار محفوظ،جلد اور سستے ذرائع سے پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔چین کی معاشی ترقی میں اس کے دو حریفوں کا مناسب حد تک حصہ رہا ہے۔امریکہ سرمایہ کاری اور بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت۔چینی معیشت کے استحکام اور پھیلاؤ میں معقول کردار کی حامل ہیں۔بھارت خلیج بنگال سے بحرہ عرب اور خلیج فارس تک کے علاقوں میں بالادستی اور مقامی کھلاڑی بننا چاہتا ہے تاکہ دنیا اس کے ارمانوں کی تکمیل کرے مگر وہ چین کی معاشی نمو کا مقابلہ کرنے کی استعداد نہیں رکھتا جب تک اسے بیرونی اور طاقتور حلقوں کی سرپرستی و تعاون میسر نہ ہو۔اکیسویں صدی کے آغاز پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اس کی مہارت اور کم اجرت پر دستیاب تکنیکی ہنر مندی نے بھارت کو معاشی ترقی کے میدان میں برق رفتاری سے داخلے کا موقع دیا۔مغربی سرمایہ کاری پہلے سے ہی وہاں اپنا صنعتی ڈھانچہ منتقل کر چکی تھی۔اس کے باوجود بھارت عسکری علاقائی قوت بننے سے دور تھا۔امریکہ جس نے سرد جنگ کے بعد’ڈینگ پیاؤ زنگ کے عہد میں‘ چین میں معاشی کھلے پن سے استفادے کے وسیع مواقع دیکھے وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اجازت دی اور اس کے بدلے چین کو عالمی تجارت کیلئے ڈالر کو زرمبادلہ تسلیم کرنے نیز اپنے تجارتی منافع سے امریکہ میں سوشل سیکیورٹی بانڈز خریدنے کا پابند بنایا۔اسی بانڈز سے ہونے والی آمدن امریکی حکومت اپنے عوام کی محدود فلاح و بہبود،صحت وغیرہ کی سہولیات پر خرچ کرتی ہے۔ استداد زمانہ چینی معیشت نے ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے امریکی ہم سیری کو چھولیا تو امریکہ کیلئے خدشات اور بالادستی کے متعلق تحفظات ابھرے چنانچہ اس نے بالواسطہ چین کو توانائی اور سمندری تجارتی ذرائع کی بندش کے خطرات محسوس کرائے۔بھارتی بحریہ کو آبنائے ملااکا سے خلیج فارس تک مقامی اتحادی یا اسٹریٹجک پارٹنر شپ دی گئی ۔کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بھارت چین کی تجارتی شہ رگ منقطع کرنے کا اہل بن گیا۔دریں حالات چین نے تجارتی سرگرمی اور اپنی صنعت و شہری ضروریات کیلئے مطلوب توانائی ذرائع کی ترسیل ممکن،سہل اور محفوظ تر بنانے کیلئے اوبور کا تصور اپنایا۔ جس میں دنیا کے مختلف خطوں سے12کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ پیش کیا گیا۔چین پہلے ہی گوادر بندرگاہ کی تعمیر مکمل کر چکا تھا،نئے تصور کے زیر اثر اس نے سی پیک کے ذریعے پاکستان میں46ارب ڈالر کی محفوظ سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی۔پاکستان کو قرضوں کے ذریعے صنعتی و تجارتی انفراسٹرکچر کی تعمیر اور خوشحالی کی امید دلائی۔اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ گوادر میں چین اپنا صنعتی زون قائم کرے گا اور ایک آئل ریفائنری لگائے گا جہاں پائپ لائنوں کے ذریعے تیل کی چین تک سپلائی خطرات سے محفوظ اور مسلسل بنائی جاسکتی ہے۔
گوادر بندرگاہ سے متصل جناح ٹرمینل اورماڑہ نیول بیس جو پاکستان کو عسکری یا دفاعی نقطہ نظر سے جنوب ایشیائی خطے کے علاوہ مشرقی وسطیٰ سے منسلک نیز بھارت کی جانب منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی جذباتی و عجلت آمیزی کی کوششوں نے خطے میں عدم استحکام کے خدشات بڑھائے،بالخصوص گزشتہ سال بھارتی آبدوز کی گوادر کی جانب پیشقدمی کے واقع نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔چنانچہ پاکستان نے فوری طور پر چین کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں شروع کیں جن کا دائرہ عمل گوادر کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ تجارتی بندرگاہ بنانا تھا۔گمان ممکن ہے کہ مذکورہ جنگی بحری مشقوں کیلئے آنے والے چینی بحریہ کے جہازوں میں کم از کم جہاز اب بھی علاقے میں موجود اور اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس واقعہ نے سی پیک کے ساتھ باہم ہو کر چین کو مشرق وسطیٰ،خلیج فارس اور آبنائے ہرمر تک عسکری و تجارتی تذویراتی رسائی عطا کردی ہے اور یوں بحیرہ عرب،خلیج و فارس میں چین کیلئے چیلنج بننے کے نام پر بھارتی بالادستی کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔تلملاتے ہوئے دل و دماغ کے ساتھ گزشتہ ہفتے مودی نے امریکی صدر کے مصافحے کو جھپی میں بدل دیا۔دراصل یہ عمل بھارتی سیاسی سنیاؤں کی جانب سے امریکہ پر اپنے انحصار کا والہانہ والہانہ پن کا اظہار تھا۔زیادہ قربت اور مزید سرپرستی کی تڑپتی خواہش۔
کہا جارہا ہے کہ حالیہ دورہ واشنگٹن میں امریکہ نے کشمیر کے متعلق اپنے روایتی موقف میں ترمیم کرتے ہوئے بھارت کے اس نقطے کی حمایت کردی ہے کہ سی پیک چونکہ پاکستان کے زیر کنٹرول شمالی علاقوں سے گزر رہی ہے جو بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے برعکس ہے۔
متذکرہ صورتحال یا مخمصہ مودی کے حالیہ دورے سے ابھر کر سامنے نہیں آیا۔یہ وہ پیچیدگی تھی جسے سلجھانے کیلئے چین نے پاکستان اور دیگر اتحادیوں کے تعاون سے دو عملی اقدامات کیے تھے تاکہ مذکورہ مخمصے کا قبل از وقت سدباب یا تدارک ہو جائے۔
پہلا اقدام گزشتہ سال گوادر بندرگاہ کی فعالیت کی افتتاحی تقریب تھی جس کیلئے چین نے ساڑھے تین سو کنٹینرز خنجراب سے گوادر پہنچانے اور دوسرا اقدام اقوام متحدہ کی پندرہ رکنی سلامتی کونسل سے چینی قرارداد کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔
19مارچ2017ء کے اخبارات میں قرارداد کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا تھا جسے مختلف خبر رساں اداروں اور ریڈیو بیجنگ نے نشر کیا تھا۔چین نے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی تھی جس کی منظوری کے ذریعے افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے مینڈیٹ میں اتفاق رائے سے ایک سال کی توسیع کی گئی جبکہ قرارداد پر بھارت کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے مذکورہ قرارداد میں چین کے ون بیلٹ ون روڈاوبورOBORپراجیکٹ کی بھی توثیق کی گئی جس میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے۔اوبور کی توثیق نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔قرارداد میں ون بیلٹ ون روڈ اور دیگر علاقائی ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی کوشش مزید تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
قرارداد میں علاقائی،معاشی تعاون،علاقائی روابط،تجارت،سلک روڈ ،اقتصادی فوائد،اکیسویں صدی اور شاہراہ ریشم و علاقائی ترقی کے منصوبوں کی توثیق کی گئی ہے اور باہمی روابط بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔قرارداد کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب لایو مائی پی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
’’رواں سال چینی صدر شی جن پنگ نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے انسانی برادری کی تعمیر کے تصور کا فارمولا کیا تھا۔اس بار منظور کردہ قرارداد میں پہلی بار عالمی سطح پر چین کے اس تصور کی توثیق کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے تصور نے عالمی انتظامیہ کو متاثر کیا ہے۔
قرارداد میں ون بیلٹ ون روڈ کی تعمیر پر بھی زور دیا گیا ہے اور اس کی تعمیر میں سلامتی کی ضمانت سمیت مختلف مطالبے پیش کیے گئے ہیں۔
چین نے توقع ظاہر کی ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک قرارداد کے مطابق اوبور منصوبے کی تعمیر میں مثبت طور پر شامل ہوں گے(روزنامہ جنگ19مارچ2017)
مذکورہ قرارداد کا گو کہ اخبار میں کوئی نمبر حوالے کے طور پر درج نہیں لیکن اب تک کسی بھی سمت سے قرارداد مذکورہ کی تردید یا مخالفت سامنے نہیں آئی چنانچہ حوالہ نمبر کے بغیر اب قرارداد کو درست سمجھنا معقول و جائز نقطہ نظر ہے۔
یہ بتانا ضروری نہیں کہ پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں امریکہ بھی شامل ہے جس نے قرارداد کے حق میں ووٹ بھی دیا تو پھر عالمی اصول و ضوابط و سفارتکاری کے مسلمہ قواعد کی روشنی میں مودی ٹرمپ ملاقات کے بعد جاری بیان کے اس حصے کی کوئی قانونی و اخلاقی حیثیت و اہمیت باقی نہیں رہتی جس میں سی پیک کے پاکستانی شمالی علاقہ جات سے گزرنے کو بھارت کی سلامتی کے مفروضہ تصور کی ممانت کی گئی تھی۔
چین نے افتتاحی تقریب میں350 کنٹینرز جس راستے سے گوادر پہنچانے کا کام لیا وہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔اُس وقت بھی میں نے اس شاہراہ کے انتخاب کو وقتی یا ہنگامی ضورت کے تحت اٹھایا گیا قدم ماننے کی بجائے چین کے اس عزم و ارادے کا مظہر قرار دیا تھا۔جو وہ سی پیک روٹس کے متعلق رکھتا ہے۔میری دلیل یہ تھی کہ چین نے زیادہ راستوں کو ،جیسا کہ احسن اقبال کا خیال ہے کہ دریائے سندھ کے مشرقی بازو میں سی پیک کیلئے بہتر راستے ذرائع اور ٹولز موجود ہیں،رد کرتے ہوئے ڈی آئی خان،ژوب،کوئٹہ،خضدار،گوادر کے راستے کو ترجیحاً قبول کیا ہے اور اس شاہراہ پر درپیش مشکلات کے تدارک کیلئے راستے کو کشادہ کرایا۔ظاہر سڑک کی کشادگی کا فیصلہ افتتاحی تقریب سے بہت پہلے ہوا ہوگا تبھی اس پر مقررہ وقت میں عمل ممکن ہوا۔
تمام ابہامات و شکوک کے باوجود میں یقین رکھتا ہوں کہ بالآخر سی پیک مغربی راستہ ہی اپنائے گا لیکن اسلام آباد کو بھی اس کی افادیت اور طویل المدت و طویل المعیار اثرات تسلیم کرنے اور بیجنگ کو،اگر وہ اخلاف کرے تو مجبور کرنا چاہیے کہ۔
الف: سی پیک روٹس کی اولین ترجیح مغربی حصے کو دی جائے۔
ب: چین تعمیراتی کاموں کیلئے مقامی سطح پر موجود افرادی قوت،ہنر مند افراد،وسائل اور سازو سامان استعمال میں لائے۔غیر موجودگی ہنر مند افراد تکنیک اور سامان چین سے منگوائے تاکہ اس کے خلاف ابھرتے ہوئے اس عوامی و صائب الرائے حلقے کے منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے جو اسے عصر حاضر کی سامراجی استحصالی قوت اور ایسٹ انڈیا کمپنی بنا رہا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...