عالمی دہشت گردی دنیا کو کیسے متأثر کر رہی ہے؟
سینٹر فار گلوبلائزیشن اینڈ ٹیررزم نے جُون میں اپنی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دہشت گردی اور گلوبلائزیشن کے مابین تعلق پر بات کی گئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ عالمگیریت کے عمل کے تیز ہونے کی وجہ سے ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن ذرائع کے پھیلاؤ اور آسان رسائی نے دہشت گردی کے امکانات میں 47 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ رپورٹ میں سال 2018 کے دوران دہشت گردی سے ہونے والے نقصانات و اثرات کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق گزشتہ برس 77 ممالک دہشت گردی کا شکار ہوئے جن میں مرنے والوں کی تعداد 18814 ہے۔ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک سال کے اندر دنیا میں تقریباََ 52 ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔
عالمی دہشت گردی کتنے لوگوں کو متأثر کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف عراق و شام میں داعش کی شکست کے بعد وہاں رہ جانے والے لڑاکوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی جن میں 13 فیصد عورتیں اور 12 فیصد نوعمر بچے بھی شامل ہیں۔ مسلم انتہاپسند تنظیمیں جن افراد کو اپنے نیٹ ورک کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئیں ہیں ان کی اکثریت نوجوانوں کی ہے، اور ان میں سے 40 فیصد طلبہ ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کے بالمقابل یورپ و امریکہ کے غیرمسلم دائیں بازو کے متشدد گروہوں سے متأثر ہونے والوں میں نوجوانوں اور طلبہ کا تناسب اس کے بالمقابل کم ہے۔ جن یورپی ممالک سے نوجوان، مسلم انتہا پسند جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں ان میں سے برطانیہ، فرانس، جرمنی، بیلجیم، سویڈن، ناروے اور ڈنمارک سرفہرست ہیں۔
رپورٹ شائع کرنے والے ادارے کے مطابق دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے تمام ممالک کے شہریوں کی نجی زندگی اور آزادی بھی متأثر ہوئی ہے کیونکہ اس کے خطرات کے سبب حکومتوں نے سخت قوانین لاگو کیے۔ اس سے ادب اور فنون کے شعبوں پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ خوف اور بے چینی کے احساسات نے ادب وفن کی کئی اصناف کو کمزور کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک نے اگرچہ عالمی دہشت گردی کو شکست دیدینے کا دعویٰ کیا ہے لیکن یہ حقیقت کے زیادہ قریب نہیں ہے۔ اس کا خطرہ ہر جگہ ہر وقت موجود ہے۔ اس سے بچنے کے لیے حکومتوں کو اقدامات کرتے رہنا ہوں گے۔
فیس بک پر تبصرے