شہزادی ھیا کے فرار سے کئی ممالک کے باہمی تعلقات متأثر
اُردن کے شاہ عبداللہ نے اپنی ہمشیرہ اور دبئی کے فرمانروا شیخ محمد بن راشد کی چھٹی اور سب سے چھوٹی بیوی شہزادی ھیا بنت حسین کے فرار کو محض میاں بیوی کا جھگڑا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ازدواجی تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور جلد ہی میاں بیوی اپنے جھگڑے کو نمٹا لیں گے۔
شاہ عبداللہ جانتے ہیں کہ اس واقعہ سے اردن امارات تعلقات پر کتنی زد پڑی ہے اور یہ کہ معاشی مشکلات سے دوچار اردن سعودی عرب اور امارات کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا،انہیں ’صدی کی ڈیل‘ کی مخالفت کی وجہ سے معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اس سلسلہ میں گزشتہ ماہ بحرین میں ہونے والی کانفرنس میں بھی انہوں نے شرکت نہیں کی اور سعودی عرب اور امارات کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد چھوٹے درجے کا وفد بھیجنے پر اکتفا کیا۔
45 سالہ شہزادی ھیا چند ماہ سے منظر عام سے غائب تھیں اور ان کے بارے میں یہ خبریں رپورٹ ہو رہی تھیں کہ حاکم دبئی شیخ محمد بن راشد نے ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ قبل ازیں شیخ محمد بن راشد کی بڑی بیٹی شہزادی لطیفہ نے بھی گزشتہ برس شاہی محل سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جنہیں بحرہند سے کشتی پر سوار ہوتے وقت گرفتار کر کے واپس دبئی بھیج دیا گیا تھا۔
عرب میڈیا میں شہزادی کے فرار کی دو مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں، بعض ذرائع کے مطابق شہزادی کے اپنے گارڈ اور سابق برطانوی فوجی آفیسر کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے جن کا انکشاف ہونے پر حاکم دبئی نے ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ بعض دیگر ذرائع کے مطابق شہزادی ھیا پر دباؤ تھا کہ وہ اپنے بھائی شاہ عبداللہ کو ٹرمپ اور کوشنر کی تجویز کردہ ’صدی کی ڈیل‘ پر آمادہ کریں۔ جس سے تنگ آکرشہزادی ھیا پہلے جرمن سفارتکار کی مدد سے جرمنی میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئیں اور بعد ازاں برطانیہ منتقل ہو گئیں۔
دیگر ذرائع کے مطابق شہزادی ھیا پر دباؤ تھا کہ وہ اپنے بھائی شاہ عبداللہ کو ٹرمپ اور کوشنر کی تجویز کردہ ’صدی کی ڈیل‘ پر آمادہ کریں
دبئی اور ابوظبی کے فرمانرواؤں نے پہلے جرمنی اور پھر برطانیہ سے شہزادی اور دو بچوں، زاید اور الجلیلہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ شہزادی نے شیخ محمد بن راشد سے طلاق حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس طرح یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شہزادی کے فرار کا معاملہ محض میاں بیوی کا جھگڑا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے متعدد ممالک کے باہمی تعلقات میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ ہے۔ جرمنی پہلے ہی شہزادی کو امارات کے حوالے کرنے سے انکار کر چکا ہے اور دوسری طرف برطانیہ امارات تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ برطانیہ شہزادی کو امارات کے حوالے کر دے گا لیکن شہزادی ھیا ان امور سے بخوبی واقف ہیں اور اسی خدشے کے پیش نظر پہلے انہوں نے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں برطانیہ کی جانب سے یقین دہانی ملنے کے بعد ہی وہ برطانیہ منتقل ہوئیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق دبئی کے فرمانروا شیخ محمد بن راشد اردن کی ابتر حالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ عبداللہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ شہزادی کی واپسی پر اپنا کردار ادا کریں تاہم میاں بیوی کے تعلقات جس سطح پر پہنچ چکے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ توقع عبث ہے کہ شہزادی اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہوں گی۔ شہزادی کے فرار کے بعد شیخ محمد بن راشد نے ’اب تم زندہ رہو یا مر جاؤ‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی کہی تھی جس میں انہوں نے شہزادی پر کڑی تنقید کی، نظم میں واضح طور پر یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ تعلقات میں خرابی کی وجہ شہزادی کی طرف سے خیانت ہے۔ اس نظم کا ترجمہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
او بے وفا! تو نے اس اعتماد کے ساتھ بے وفائی کی ہے جو بہت گراں قدر تھا، اب تمہارا کھیل بے نقاب ہو چکا ہے۔
تمہارے جھوٹ بولنے کے دن پورے ہوئے اور اب یہ باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں کہ ہم کیا تھے اور تم کیا ہو۔ تم اپنے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر بے قابو ہو گئی۔
اب میری نظر میں تمہاری کوئی عزت نہیں، جاؤ اس کے پاس، جس کے ساتھ تم وقت گزارتی رہی ہو۔ اب مجھے کوئی پروا نہیں کہ تم زندہ رہو یا مرجاؤ۔
بہرحال، اختلاف کی وجہ کچھ بھی ہو اس کے اثرات محض میاں بیوی تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ چند ممالک بھی اس سے متأثر ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہ اختلاف دو عام گھرانوں کا نہیں بلکہ دو شاہی خاندانوں کے درمیان ہے جس کے اثرات ان دو ممالک پر تو لامحالہ پڑیں گے ہی، اس کے ساتھ پناہ دینے والے ممالک بھی اس کی زد میں آئیں گے اور سب سے زیادہ منفی اثرات شہزادی ھیا کے آبائی وطن اُردن پر پڑیں گے۔ اس طرح میاں بیوی کی اس لڑائی نے پہلے سے بکھری ہوئی عرب دنیا کومزید افتراق کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
فیس بک پر تبصرے