شدت پسندی کے سدباب کے لیے زبان کی معنوی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے

620

ہم میں سے ہر فرد بات کرتے ہوئے دعویٰ رکھتا ہے یا سوچتا ہے کہ وہ آزاد ہے، اسے یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ وہ جو سوچ رہا ہے آزادی کے ساتھ اس کا سو فیصد ابلاغ بھی کر رہا ہے۔ لیکن یہ بات اتنی درست نہیں ہے جتنی کہ ہر فرد سمجھ رہا ہے ہوتا ہے۔ ہر سماج میں بسنے والے انسان اپنی زبان (لغت) کے اسیر ہوتے ہیں۔ زبان کے ہر لفظ میں ایک خاص معنی و جذبہ پنہاں ہوتا ہے۔ فرد جب سوچتا ہے یا اس کا ابلاغ کرتا ہے تو وہ اپنی لغت اور اس کے معنی و احساس کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ زبان بظاہر اظہار کا وسیلہ ہے لیکن حقیقت میں یہ فرد پر حاوی ہوتی ہے۔ یہ اپنے اثرات اور معنی کی ادائیگی میں جامد بھی نہیں ہوتی۔ وقت اور حالات کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں رُونما ہوتی رہتی ہیں اور انسان بھی اس کے اثرات کو اسی نوعیت میں قبول کرتے جاتے ہیں۔ اسی طور رفتہ رفتہ فرد یا سماج کا مزاج وتشخص بھی بدلتا رہتا ہے اور ردعمل بھی مختلف ہوتا جاتا ہے۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک زبان سراپا نرمی ہوتی ہے، اس کے بولنے والوں پر اس کا عکس بھی نمایاں ہوتا ہے۔ کچھ لغتوں پر سائنسی و منطقی قسم کے معانی کا غلبہ ہوتا ہے اور اس کے متکلم افراد کا طرز فکر وتشخص بھی ویسا ہوتا ہے۔ جبکہ بعض زبانوں میں ایسے الفاظ زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں جن میں تشدد کے اثرات و معانی پنہاں ہوتے ہیں، تو نتیجے میں یہ زبان بولنے والوں کے مزاج اور تشخص میں بھی شدت پسندی غالب نظر آتی ہے۔

پورا سماج روزمرہ میں ایسی اصطلاحات و زبان بولنے کاعادی ہوگیا ہے جو بارُود کے اثرات رکھتی ہے

ہماے ہاں بعض ایسی اصطلاحات زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں جن کے اندر تشدد کے احساسات غالب ہیں۔ جب بھی خاص  نعرے یا اصطلاحات سامنے آتے ہیں تو ہم فوری طور پہ سخت و جذباتی ردعمل دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ وہ ہمارے نظام فکر کو یکدم تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کوئی اپنی جان دینے پر آمادہ ہوتا ہے تو کوئی کسی اور کی جان لے بھی لیتا ہے۔

ان اصطلاحات و نعروں میں کچھ جدید ہیں اور بعض قدیم و تاریخی ہیں۔ یہ تمام اصطلاحات ہمیشہ یہی تفہیم ومعانی ادا نہیں کرتے تھے، بلکہ آہستہ آہستہ مختلف تعبیرات و تحریکوں نے ان کے اندر نئے احساسات بھر دیے اور ان کی حقیقی رُوح سلب کرلی۔ مثال کے طور پہ جب بھی ملحد، کافر، جہاد، جمہوریت، مغرب، رافضی، سیکولر، مرتد، بدعتی وغیرہ جیسے الفاظ بولے جائیں تو ساتھ میں ایک ہیجان اُمڈ کر آتا ہے۔

مذہبی کے علاوہ سماجی زبان بھی اس نوعیت کی ہوگئی ہے جس میں تشدد جھلکتا ہے۔ پورا معاشرہ روزمرہ میں ایسی اصطلاحات و زبان بولنے کاعادی ہے جو بارُود کے اثرات رکھتی ہے، اِسی نے ہمارا مزج تشکیل دیا ہے اور یہی اصل میں ہمارے عالمی تشخص کی ترجمان بھی ہے۔

اگر ہم شدت پسندی سے نجات چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ زبان (لغت) کی معنوی تشکیلِ نو کی جائے۔ اصطلاحات و الفاظ غائب نہیں کیے جاسکتے، ان کی ایسی جدید تعبیرات پیش کی جائیں اور انہیں قابل قبول بنانے کی سعی کی جائے جو نرمی، رواداری اور انسانی عنصر کی ترجمانی کریں۔ مخصوص اصطلاحات و الفاظ  کی معنوی تشکیلِ نو سے ہی شدت پسندی راستہ روکنا ممکن ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...