یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ہم پلاسٹک کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم جہاں چلے جائیں کم از کم ایک ایسی شے سے ضرور سامنا ہوگا جو پلاسٹک سے تیار کی ہوئی ہوگی۔ تیز رفتار زندگی میں پلاسٹک سے بنی اشیا زیادہ مفید و کارآمد محسوس ہوتی ہیں۔ پلاسٹک شاپنگ بیگز کی بدولت کہیں بھی راستے میں خریداری کرسکتے ہیں، چاہے اس ارادے سے نہ بھی نکلے ہوں۔ ڈسپوزیبل کپ اور پلیٹوں کی دستیابی کی وجہ سے چلتے پھرتے کھانا پینا بھی ممکن ہوگیا ہے۔
’’70کی دہائی تک ہم دکان سے دہی اور نہاری خریدنے کے لیے گھر سے پیتل کے بنے یا کسی اور نوع کے برتن کو ساتھ لے جاتے تھے۔ اس وقت تک پلاسٹک بیگز کا وجود خال خال تھا۔‘‘ گوہر اشتیاق پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں جب پلاسٹک کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔ ’’خورد و نوش اور گھریلو استعمال کی اشیا کھجور یا ناریل کے پتوں سے تیار کی ہوئی ٹوکریوں میں خرید کر لائی جاتی تھیں۔ آٹا کپڑے کی بوریوں میں بکتا تھا ،جبکہ گوشت اخباروں میں لپیٹ کر دیا جاتا تھا۔‘‘
اب پوری دنیا میں پلاسٹک کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے اس کے منفی اثرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے تیار شدہ کم سے کم بھی ایک تہائی اشیا ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہیں، جبکہ ہم بہت بڑے تناسب کے ساتھ پلاسٹک پیدا کر رہے ہیں۔ اس کی پیداوار میں سالانہ 4 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے، اگر یہی رفتار چلتی رہی تو ایک وقت آئے گا جب ہماری دنیا میں پلاسٹک کا تناسب حیوانات ونباتات کی تعداد سے تجاوز کرجائے گا۔
پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو تحلیل یا ضائع نہیں ہوتا، یہ باقی رہتا ہے اور مسلسل آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ کئی ٹن پلاسٹک بغیر کسی احتیاط کے گردوپیش میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے آبی وزمینی ماحولیاتی نظام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ورلڈ وائڈ فنڈ(WWF) کے مطابق یومیہ شہروں کی صنعتی فیکٹریوں کا تقریباََ450 ملین گیلن کچرا، جس میں کاغذ، پلاسٹک، شیشہ اور تانبا وغیرہ شامل ہوتے ہیں، بحیرہ عرب کی نذر کردیا جاتا ہے۔ کیمیکلز کی موجودگی کے باعث نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پانی خراب ہوتا ہے بلکہ یہ آبی حیات کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔

کتنی ایسی سمندری مخلوق ہے جن سے ہم اُنس رکھتے ہیں، جیسے وہیل، ڈولفن، کچھوے اور آبی پرندے، یہ سب پلاسٹک کے تباہ کن اثرات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پہ سمندری کچھوے جو جیلی فِش کھاتے ہیں وہ غلط فہمی سے پانی میں موجود پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کو کھالیتے ہیں جو ان کے حلق میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور ان کا دم گھٹ جاتا ہے۔ یہ رفتہ رفتہ دردناک موت ہوتی ہے۔
WWF کی رپورٹ کے مطابق 2025تک ہر تین ٹن مچھلیوں کے وزن کے مقابلے میں سمندر کے اندر ایک میٹرک ٹن پلاسٹک موجود ہوگا، جبکہ 2050 تک مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک سمندر کا حصہ ہوگا۔ پلاسٹک آلودگی کے باعث خشکی پر مٹی کے جوہر اور اس کی کوالٹی بھی متأثر ہو رہی ہے۔ جانور بھی اس آلودگی کا شکار ہوکر اسی طرح کی اذیت کاسامنا کرتے ہیں جیسے کہ سمندری حیات۔
پلاسٹک آلودگی کی ایک اور منفی جہت یہ بھی ہے کہ انسانی خوراک بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔ جی ہاں، ایسا ممکن ہے کہ ہم پلاسٹک کھا پی رہےہوں۔ عالمی سطح پر 50 سے زائد مطالعاتی سروے کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ عام روٹین میں ہر فرد ہوا، غذا اور پانی کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر 5 گرام پلاسٹک اپنے معدے میں اتار رہا ہے۔ یہ تقریباََ ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے مساوی ہے۔WWF کی زیرسرپرستی ایک رپورٹ ’قدرتی ماحول کو پلاسٹک سے بچائیں‘ کےنام سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لوگ تقریباََ ہر ہفتے 2 ہزار پلاسٹک کے ریشے اپنے جسم کا حصہ بناتے ہیں۔ اس کا وزن ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتا ہے۔
انسانی جسم میں پلاسٹک کے دخول کا سب سے سے بڑا ذریعہ پانی ہے۔ جتنا پلاسٹک پیدا ہوتا ہے اس کا اکثرحصہ کسی نہ کسی طرح پانی تک رسائی بنا لیتا ہے، اگرچہ اس کا تناسب علاقے اور پلاسٹک آلودگی میں فرق کے اعتبار سے کم زیادہ ہوسکتا ہے۔ بھارت میں جو ٹیسٹ کے نمونے لیے گئے ان کے حساب سے ہر 500 ملی لیٹر میں پلاسٹک کے 4 باریک ریشے ہوتے ہیں۔ پانی کے جو مختلف نمونے لیے گئے ان میں سے 82.4 فیصد پانی اسی طرح آلودہ تھا۔ پاکستان کے حوالے سے بھی لگ بھگ یہی اندازہ ہوسکتا ہے۔
پلاسٹک کے غذا بننے کا ایک بنیادی ذریعہ سمندری خوراک بھی ہے۔ جو پلاسٹک کچرا سمندر کی نذر کیا جاتا ہے اور اسے آبی حیات کھا لیتی ہے وہ واپس ہماری خوارک میں شامل ہوجاتا ہے۔ چونکہ فضا میں بھی پلاسٹک کے ذرے موجود ہوتے ہیں اس لیے جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہوا کے توسط سے وہ بھی ہمارے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں، اگرچہ اس کا تناسب قلیل ہوتا ہے۔ ایسا کھلی فضا کی بجائے ہوا کے کم دباؤ کی وجہ سے بند جگہوں پر زیادہ ممکن ہوتا ہے۔

پلاسٹک کے مضر صحت اثرات کی جانچ کے حوالے سے ابھی تک تحقیق ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے سانس کے مسائل، خون میں زہریلے جراثیم کا پھیلاؤ اور جلد موت، عام ہیں۔ یہ خطرات صرف پلاسٹک آلودگی کے ہی نہیں ہوتے بلکہ اس میں بعض اوقات جو کیمیکل جذب ہوتے ہیں ان کے اپنے اثرات بھی بھیانک ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کینسر کا خطرہ بھی ہے۔
پاکستان میں صورتحال اس لیے بھی زیادہ گمبھیر ہوجاتی ہے کہ لوگوں میں پلاسٹک کی مختلف انواع کے بارے میں کوئی معلومات کی فراہمی نہیں ہوتی۔ زیادہ تر کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کونسا پلاسٹک گرمائش اور آنچ میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور کونسا نہیں۔ وہ ایسےپلاسٹک کے برتنوں میں کھانے کی اشیا گرم کرلیتے ہیں جو اس کے لیے مناسب نہیں ہوتے۔ اس دوران کچھ پلاسٹک پگھل کر خوراک میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔
سال 2000 سے اب تک دنیا میں جتنا پلاسٹک پیدا کیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ ہے جو مجموعی طور پہ پہلے کے برسوں میں پیدا کیا گیا۔ اس سارے کا ایک تہائی حصہ قدرتی ماحول کا جزو بن گیا ہے۔ ورجن پلاسٹک ( ایک نئی قسم جو قدرتی گیس اور خام تیل سے تیار ہوتی ہے) کی پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ 1950 سے 2000 تک جتنا پلاسٹک تیار ہوا، یہ اس کے مقابلے میں 2 سو فیصد زیادہ ہے۔ اور سنہ 2000 سے اب تک اس میں سالانہ مزید چار فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ تخمینوں کے مطابق 2030 تک موجودہ پیداوار کے تناسب میں 40 اضافے کا امکان ہے۔
پاکستان میں پلاسٹک کی صنعت بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر اس پہ پابندی عائد کرنا ممکن نہیں ہے۔ لوگوں میں آگاہی نہ ہونے کے سبب تحلیل ہوجانے والے یا دوبارہ قابل استعمال بنائے جا سکنے والے پلاسٹک کا استعمال بالکل نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں ہر سال تقریباََ55 ارب پلاسٹک کے شاپنگ بیگز استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پر تشکیل دیے گئے ملک کے موجودہ قوانین اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ یہ صورتحال ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔
’’ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ (EPD ) پلاسٹک بیگز پر پابندی لگانے کا عزم رکھتا ہے لیکن مراحل میں اور آہستہ آہستہ‘‘۔یہ ادارے کے ڈائرکٹر نسیم الرحمان کا کہنا ہے۔’’ابتدائی طور پہ ہم بیگز کی موٹائی میں 45 مائیکرونز تک اضافے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ 45 مائیکرونز محض ایک تجویز ہے، اس کو اور بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ ان تمام امور پر غور کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’پولی تھین بیگز ماحول کے لیے زیادہ خطرناک ہیں۔ 60 فیصد سے زائد سیوریج کی بندش کے مسائل کی وجہ باریک اور کم وزن شاپنگ بیگز ہیں۔ یہ ہماری مٹی، فصلوں اور قدرتی ماحول کو متأثر کرتے ہیں۔Oxo-biodegradableبیگز(یہ خاص پلاسٹک ہے جو تحلیل یا ضائع ہوسکتا ہے) کا استعمال بھی درست نہیں ہے کیونکہ انہیں تحلیل کرنے کی غرض سے ان میں تانبا شامل کیاجاتاہے ،جیسے کرومیم (ایک دھاتی عنصر) وغیرہ‘‘۔ رحمان کہتے ہیں ’’یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔ کمیٹی تجاویز مرتب کرے گی اور انہیں ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ لوگوں کوبھی اس پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پلاسٹک کی بجائے کپڑےکے بیگز استعمال کریں۔‘‘
نظیفہ بٹ جو پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کے لیے WWF کی نمائندہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے اکثر شہریوں میں پلاسٹک کے محفوظ استعمال کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے جس کی وجہ سے مسئلہ زیادہ الجھ گیا ہے‘‘۔ ان کے خیال میں ’’یہاں عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق پلاسٹک سے بنی ہر شے پر اس کی قسم درج ہونی چاہیے۔ پلاسٹک کی سات ایسی انواع ہیں جن کی کوالٹی کی وضاحت ہوتی ہے اور انہیں ضائع کرنے کی ترکیب بھی ان پر لکھی ہوتی ہے۔ ہمارا بنیادی کام یہ ہے کہ کہ پلاسٹک آلودگی کے بارے میں ہم شہریوں، خصوصاََ نوجوانوں میں سوشل میڈیا، ساحل صفائی مہم اور سیمینارز کے ذریعے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ مچھلیاں پکڑنے والوں کو متأثرہ سمندی حیات کو بچانے اور انہیں ریسکیو کرنے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔‘‘

نظیفہ بٹ کہتی ہیں کہ ’’تکنیکی طور پہ پاکستان میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف 2004 کی تجاویز وقوانین دستیاب ہیں، جن کے مطابق کمپنیوں کو پابند بنای گیا تھا کہ وہ 15 مائیکرونز سے کم پلاسٹک نہ بنائیں۔ اس کے علاوہ رواں سال گلگگت بلتستان کی تحفظِ ماحولیات ایجنسی نے اور پنجاب حکومت نے پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔ خیبر پختونحوا حکومت نے ایسے پولی تھین بیگز کو ممنوع قرار دیا جو تحلیل یا ضائع نہیں ہوسکتے، اس پر عملدرآمد نہ کرنے پر 50 ہزار سے 5 ملین تک کا جرمانہ لگایا جائے گا۔ سندھ حکومت نے بھی 2014 کے ایک قانون کے تحت ایسی ہی پابندی متعارف کرائی ہے۔ نیشنل انوائرنمنٹل پالیسی 2005 میں ’پلاسٹک‘ کے لفظ کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس میں صرف یہ لکھا ہے کہ ٹھوس کچرے وفضلے کی پیداوار میں تخفیف اور کمی لائی جائے۔
2013 میں دنیا کی آٹھ بڑی پلاسٹک کمپنیوں کے اشتراک کے ساتھ WWF نے ایک اتحاد (BAF)تشکیل دیا تھا جس نے اعلان کیا کہ وہ نباتات کے مادے سے پلاسٹک بنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تاکہ مستقبل میں بائیو پلاسٹک انڈسٹری کو مستحکم کیا جاسکے۔
ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے مزید سخت قوانین متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ کائنات کو محفوظ بنانے کے لیے پلاسٹک آلودگی بارے آگاہی پھیلانی بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک بنانے والی کمپنیوں اورحکومت کے درمیان مؤثر و نتیجہ خیز بات چیت کو ممکن بنایا جائے تاکہ پلاسٹک کی ریسائیکلنگ ہوسکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ لوکل waste management کمپنیوں اور پلاسٹک بنانے کی فیکٹریوں کے درمیان اس مسئلے کے حل کے لیے رابطہ قائم کرے۔
پلاسٹک آلودگی ایک سنجیدہ خطرہ ہے جو اب ہماری روزمرہ کی خوراک کا حصہ بن گئی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ترجیحی اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری صحت اور زندگیوں پر اس کے اثرات بھیانک ثابت ہوں گے۔
مترجم: شفیق منصور، بشکریہ: ہیرالڈ
فیس بک پر تبصرے