صحت مند و خوشگوار زندگی سیکھنے کی ضرورت
انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں 35 سے 40 فیصد افراد اعصابی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ متأثرہ افراد میں زیادہ تر خواتین ہیں جس کی وجہ سے گھروں کے اندر بچوں پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں۔ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بچہ بلوغت سے قبل کم ازکم ایک دفعہ شدید ذہنی تناؤ کی حالت سے گزرتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں لاقانونیت، بے روزگاری، مہنگائی، عدم استحکام اور دیگر کئی طرح کے مسائل کا انبار ہو وہاں ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا عام ہونا تعجب کی بات نہیں۔ لیکن اس مسئلے میں مزید اضافہ ڈپریشن کو بیماری نہ سمجھنا اور حکومتی وسماجی سطح پر اس کے علاج معالجے کے لیے کاوشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوجاتا ہے۔ لوگ اس کو مرض ہی خیال نہیں کرتے بلکہ ایسی عارضی حالت سمجھتے ہیں جس کے لیے میڈیکل سٹور سے درد یا سکون کی کوئی گولی لینا کافی ہوتا ہے۔ یا پھر تعویذ گنڈوں کے مراکز کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جہاں غیر علمی توجہیات کے ذریعے مزید اعصابی دباؤ کا شکار بنادیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس رکن قومی اسمبلی نزہت پٹھان نے پارلیمنٹ میں صحت کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صرف اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال پمز میں ایک سال کے دوران ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کے 39 ہزار مریض رجسٹرڈ ہوئے۔ اس صورتحال میں معاشرے کے اندر تشدد ہی غالب نظر آئے گا۔ راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر اسد نظامی نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں نفسیاتی اور ڈپریشن کا شکار افراد کا معیاری اور جدید اصولوں کے مطابق علاج کرنے والے محض پانچ سے چھ ڈاکٹر ہیں، ورنہ عام طور پہ ایسے مریضوں کو گولیاں اور دوائیاں دینے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو زیادہ تر سکون کی یا نشہ آور ہوتی ہیں۔ اس طرح کا علاج اور کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
ڈپریشن اور اعصابی تناؤ حقیقی اور خطرناک بیماری ہے جو علاج اور آگاہی کے حوالے سے ریاستی وسماجی سطح پر بڑے اقدامات کی متقاضی ہے۔ انفرادی طور پہ بھی شہریوں کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک نارمل و فعال زندگی گزارنے اور بچوں کو بھی محفوظ واطمینان بخش ماحول فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رویوں میں ہیجان اور تشدد نہ پیدا ہونے دیا جائے جو ڈپریشن سے جنم لیتا ہے۔ اگر ایسا عارضہ لاحق ہو تو اس سے فوری چھٹکارے کی کوشش کرنی چاہیے، نہ یہ کہ تناؤ کے مجموعی ماحول میں اسی کو ہی نارمل خیال کرلیا جائے۔ اس حالت سے نکلنے کے لیے مسلسل علاج اور ریاضت کی حاجت ہوتی ہے۔ خوش رہنا حق ہی نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پہ ناہموار ماحول میں ایک صحت مند وخوشگوار زندگی سیکھنے کی اہمیت وضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے