کیاپاکستان ایک گروہی ریاست ہے ؟

830

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 2کے تحت پاکستان کا سرکاری مذہب کوئی مکتب یا فرقہ نہیں بلکہ اسلام ہے جبکہ آرٹیکل 227کی رو سے ملک میں تمام قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں وضع کیے جائیں گے

چند روز قبل کچھ قریبی احباب نے میری توجہ پشاور سے جاری ہونے والے اخبار ” روزنامہ آج” میں شائع کیے گئے ایک اشتہار کی جانب مبذول کروائی جوخیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں صفائی کیلئے خاکروب کی خالی آسامیاں پر کرنے کے حوالے سے مورخہ19 مارچ 2017 کے ایڈیشن میں ضلعی ناظم بنوں کے حکم پر ٹی ایم اے بنوں کی جانب سے جاری کیا گیاتھا ۔سرکاری اداروں میں آسامیوں کیلئے ایسے اشتہاروں کا اجراء بظاہر ایک معمول کی کاروائی ہے تاہم اس اشتہار کے متن کے پیش نظر یہ یقیناًایک نہایت غیر معمولی اور توجہ طلب اشتہار تھا۔ اشتہار میں خاکروب کی آسامیوں کیلئے درخواست گزار کی اہلیت میں مذہب کی شرط عائد کی گئی تھی جبکہ قابل قبول مذاہب کے نام بھی درج کیئے گئے تھے جن میں عیسائی، ہندو، بالمیکی کے ساتھ ساتھ شیعہ مسلک کو بھی بطور مذہب د رج کیا گیا تھا ۔ بظاہر اشتہار میں مذہب کی شرط آسامیوں کو غیر مسلموں کے لیے مختص کرنے کی کوشش دکھائی گئی تاہم اس میں ایک مسلمہ اسلامی مکتب فکر‘‘شیعہ ’’کے اضافے کا مقصد ایک طرف تو مکتبِ تشیع کی توہین و تضحیک اور اس مسلک کا نام بطور علیحدہ مذہب درج کر کے اسے غیراسلامی قرار دینا تھا تو دوسری جانب یہ پاکستان کے نظریہ اساسی سے انحراف اور قومی وحدت و اخوت کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی۔ یہ اشتہار د راصل اس تکفیری سوچ کا آئینہ دارتھا جس کے بیج ضیائی آمریت کے  دور میں سرزمین پاکستان میں بوئے گئے، تاریخ اسلام کے اوائل سے ہی سر اٹھانے والے فتنہِ خوارج کی طرز پر فساد، عصبیت اور دہشت سے ا ن کی آبیاری کی گئی جس سے ایسی خاردار فصل تیار ہوئی جسے کاٹتے ہوئے پوری قوم بلا تفریقِ مکتب و مسلک لہو لہان ہو چکی ہے۔

روزنامہ‘‘آج’’ میں شائع ہونیوالا یہ اشتہار اپنی نوعیت کے اعتبار سے ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جس میں ایک سرکاری دفتر کی آسامیوں کیلئے سرکاری فنڈ کے استعمال سے دیئے جانے والے اشتہار کے ذریعے کچھ عناصر نے اپنے مذموم منافرانہ مقاصدکے حصول کی خاطر مکتب تشیع کو براہ راست نشانہ بنانے کی کوشش کی تاہم اگر ماضی کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اشتہار نظریہ پاکستان سے انحراف کرتے ہوئے  اس طویل غیر اعلانیہ مہم کی ایک کڑی ہے جس میں وطن عزیز کو اسلامی فلاحی ریاست کے بجائے ایک مخصوص گروہی سٹیٹ ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔ اس مہم کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں ہوا جب اسلامائزیشن کے بہانے پاکستان کو اسلامی کے بجائے مکتبی و گروہی سٹیٹ بنانے کا اعلان کیا گیا ۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 25کی شق نمبر 1 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخصوص مکتبِ فکر کی بالا دستی قائم کرنے اور دیگر کو دیوار سے لگانے کے ایجنڈے پر عمل کیا گیا۔آرٹیکل 27 کی شق نمبر1سے انحراف کرتے ہوئے سرکاری اداروں میں خاص مکتب سے متعلقہ شخصیات کو ترجیحاً ملازمتیں دی گئیں جبکہ تعلیمی اداروں میں اسی مکتب فکرکے نظریات و عقائد کو درسی نصاب کا حصہ بنا کر دیگر کی نفی کی جاتی رہی ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر22 کی شق نمبر1 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں مکتب تشیع (فقہ جعفریہ) سے تعلق رکھنے والے طلباء کا جداگانہ نصاب دینیات کا حق غصب کیا گیا اور شیعہ دینیات کی تعلیم کیلئے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی بھرتیوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی تاکہ ایک مخصوص مکتب کی تعلیمات کا ہی ابلاغ ممکن بنایا جاسکے۔ اس عمل میں سرکاری میڈیا اور حکومتی تعلیمی اداروں کے استعمال کے علاوہ ملک بھر میں مخصوص طرز فکر کے مدارس کا قیام عمل میں لا کرسرکاری سرپرستی میں انہیں پروان چڑھایا گیا۔ اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ شجاعتِ حیدری کی وارث اور نشانِ حیدر کی امین بہادر افواجِ پاکستان میں جذبہ جہاد اورفتح و ظفر کی ضمانت تصور کیئے جانیوالے ” نعرہِ حیدری “کو بھی اسی مخصوص فکر کے تحت بند کروا کر ا فوجِ پاکستان کو پاکستانی کے بجائے مخصوص مسلک و مکتبِ فکر کی فوج ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
اولیائے کرام کے مزارات کسی ایک فرق و مکتب نہیں بلکی پوری انسانیت کے لیے دینی و روحانی تسکین اورتکمیلِ حاجات کے مراکز تصور کیے جاتے ہیں، تاہم ان مقامات کو بھی نہ بخشا گیا اوران مزارات میں مدفون اولیائے کرام کے تشخص اور پہچان کو مجروح کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ دہشتگرد حملوں کے علاوہ اولیائے کرام کے مزارات سے کہیں تزئین و آرائش اور کہیں وسعت کے بہانے ہر اس نشانی کو ہٹانے اور مٹانے کی کوشش کی گئی ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو تمام مسلمانو ں کی جائے پناہ اور اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور قوانین کے روشنی میں استوار کرنے کے لیے تجربہ گاہ سے تعبیر فرمایا تھا ، وطن عزیز پاکستان کا قیام کسی مخصوص مکتب یا فرقہ نہیں بلکہ اسلام کے نام پرعمل میں لایا گیا تھا جس میں تمام مکاتب فکر کو اسلام کے فلسفہ مساوات کے مطابق یکساں حقوق حاصل ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر 2کے تحت پاکستان کا سرکاری مذہب کوئی مکتب یا فرقہ نہیں بلکہ اسلام ہے جبکہ آرٹیکل 227کی رو سے ملک میں تمام قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں وضع کیے جائیں گے اور کسی بھی فرد کیلئے قرآن و سنت کی وہی تعبیر معتبر تصور ہوگی جو اسکے اپنے مکتب فکر کی تشریح سے موافق ہو۔ وطن عزیز پاکستان مختلف مکاتب فکر پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس میں مختلف پھولوں کی صورت تمام مکاتب فکر اپنا تشخص اور پہچان برقرار رکھتے ہوئے باہم اتحاد و یگانگت اور اسلامی اخوت کے تحت زندگی بسر کریں ۔

ڈاکٹر زاہد حسین برطانیہ میں مقیم ہیں  انہوں نے برطانیہ میں برونل یونیورسٹی سے مکینیکل انجینئرنگ مکمل کی اور اس کے بعد امپیریل کالج یونیورسٹی آف لندن سے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...